لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کا آن لائن امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ،لاہور|

Punjab University Students Boycott online Exams

پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز نے 15 جولائی کو آن لائن امتحانات کے اجراء کا نوٹس جاری کیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف طلبہ کی جانب سے سخت ردِعمل کا اظہار ٹوئیٹر ٹرینیڈز اور سوشل میڈیا کمپئین کی شکل میں نظر آیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک ماہ پہلے جاری کردہ نوٹس کے مطابق تمام امتحانات 25 اگست کے بعد کرنے اور آن لائن کلاسز ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود کئی ڈپارٹمنٹس نے 15 جولائی سے امتحانات لینے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس حوالے سے طلبہ کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام تر تحفظات اور احتجاج کرنے کے باوجود انتظامیہ طلبہ کی بات سننے سے انکاری ہے۔ طلبہ کی بات سننے کی بجائے انتظامیہ میں بیٹھے لوگ دھمکیاں دینے پہ اتر آئے ہیں کہ کسی بھی قسم کا ردِعمل ظاہر ہونے کی صورت میں داخلے منسوخ کر دیے جائیں گے۔

طلبہ کی اکثریت اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ان امتحانات کا حقیقی مقصد فیسیں بٹورنا ہے ۔ گذشتہ دو تین ماہ سے طلبہ کئی اسائنمنٹس جمع کروا چکے ہیں جن کے حوالے سے کسی قسم کی مارکنگ نہیں کی گئی ہے اور اب امتحانات کے پیش نظر طلبہ کو 40 نمبروں کی نئی اسائنمنٹس بھی دی جا رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ آن لائن کلاسز کے انعقاد میں ناکامی کے باوجود طلبہ کو آن لائن امتحانات کے لیے صرف دو ہفتے دیے جا رہے ہیں اور اچانک ہی آن لائن امتحانات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حکومت سے لے کر تمام سرکاری و نجی ادارے کوئی ایک  مخصوص پالیسی یا حکمت عملی بنانے میں مکمل طور پہ نا کام رہے ہیں اور اپنی ناکامی کا سارا ملبہ طلبہ کے اوپر گرایا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی قیمت پہ قابل قبول نہیں۔

امتحانات کے خلاف سوشل میڈیا کی کیمپئین کے بعد تمام طلبہ نے امتحانات سے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں  اس انسٹیٹیوٹ کے علاوہ فارم ڈی سمیت کئی دوسرے ڈپارٹمنٹس نے بھی امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان ڈپارٹمنٹس کے طلبہ کو بھی آن لائن امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہیے۔ اسی طرح ملک بھر کی جامعات کے طالب علموں کو بھی پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک بھر میں آن لائن امتحانات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ان کی اس جدوجہد میں شریک ہے اور سمجھتا کہ یہ حکومت اور ریاست طلبہ کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں اور یہ محنت کش طبقے کے مقابلے میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں۔ سرمایہ داروں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے اربوں روپے دے دیے جاتے ہیں جبکہ محنت کش طبقے کو نہ تو ہسپتال دیے جاتے ہیں، نہ روزگار دیا جاتا ہے اور نہ ہی انکی اولادوں کو مفت اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسے میں ملک بھر کے طلبہ کو نہ صرف یہ کہ خود منظم ہونا ہوگا بلکہ مزدوروں اور کسانوں کیساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے ملک گیر جدوجہد میں اترنا ہوگا۔ آج صرف یہی ایک رستہ ہے اپنے جائز مطالبات منوانے کا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.