کراچی: یونیورسٹی کھلنے کے پہلے ہی دن کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کا بھرپور احتجاج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|

مورخہ 15 ستمبر کا دن کرونا وبا کے باعث چھ ماہ کے تعلیمی لاک ڈاؤن کے خاتمے کا پہلا دن تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے یونیورسٹی آنے کے پہلے دن ہی انتظامیہ کے فزیکل امتحانات لینے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ایڈمن بلاک کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے لاک ڈاون کے دوران آن لائن ایجوکیشن کا ناکام تجربہ کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے طلبہ کو بِنا کوئی سہولت دیے آن لائن کلاسز کا اجرا کر دیا گیا۔ طلبہ کی اکثریت آن لائن کلاسز کے لیے انٹرنیٹ اور ضروری الیکٹرانک گیجٹس سے محرومی کی وجہ سے آن لائن کلاسز لے ہی نہیں سکی۔ جو طلبہ آن لائن کلاسز لینے میں کامیاب ہوئے تو وہ بھی اساتذہ اور طلبہ کی آن لائن ایجوکیشن کے لیے مناسب ٹریننگ، ورچوئل لیبارٹریز اور لائبریری نہ ہونے کے باعث لیکچرز سمجھ ہی نہیں پائے اور خود اساتذہ نے بھی باقاعدہ پڑھانے کے بجائے صرف اسائنمنٹس اور پریزنٹیشنز پر ہی اکتفا کیا۔

اب ایسے حالات میں امتحانات لینا جب طلبہ کو ٹھیک سے کچھ پڑھایا ہی نہیں گیا، طلبہ کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ ایسے میں امتحانات ہونے کی صورت میں طلبہ کی اکثریت کے فیل ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں جس سے نہ صرف طلبہ کا سمیسٹر ضائع ہو گا بلکہ سپلی کی فیس کی مد میں طلبہ کو ہزاروں روپے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ طلبہ نے اپنے احتجاج میں امتحانات منسوخ کر کے انہیں اگلے سمیسٹر میں پروموٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ احتجاج کا دوسرا مطالبہ طلبہ کے لیے ہاسٹل کھولنا تھا کیونکہ دور دراز علاقوں سے آنے والی طالبات کے پاس یونیورسٹی ہاسٹل کے علاوہ دوسری کوئی رہائش نہیں ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی ہاسٹل ابھی بھی بند رکھے ہوئے ہیں اور بوائز ہاسٹل پر تو پہلے ہی رینجرز نے قبضہ کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے طالب علم کرائے کی رہائش میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ طلبہ کا احتجاج چار گھنٹے جاری رہنے کے بعد انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کرنے پر ختم ہوا۔

کراچی یونیورسٹی کے طلبہ اس وقت فیسوں میں مسلسل اضافے، ٹرانسپورٹ کی خستہ حالی یا عدم فراہمی، یونیورسٹی ہاسٹلز پر رینجرز کے قبضے، یونیورسٹی انتظامیہ کی بے جا دھمکیوں، ہراسمنٹ اور دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف ملکی سطح پر طلبہ اتحاد اور طلبہ یونین کی بحالی سے ممکن ہے۔ حکمران طبقے کی ہر جماعت اور اس کا ہر سٹوڈنٹ وِنگ طلبہ دشمنی سے اٹا ہوا ہے، کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے کیمپس میں موجود اے پی ایم ایس او، آئی ایس او، جمعیت و دیگر دائیں بازو کی تنظیموں کی موجودگی میں آزادانہ احتجاج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ان تعلیم دشمن اور یونیورسٹی انتظامیہ کی دلال جماعتوں کی طلبہ میں رتی بھر بھی حمایت موجود نہیں ہے اور ان طلبہ دشمن جماعتوں کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ریاست کی دلالی کرتے ہوئے طلبہ مخالف سمت ہی اختیار کی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنے احتجاج اور اکٹھ کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے پلیٹ فارم پر یکجا ہونا ہو گا جو ہر طرح کے تفرق سے پاک، صرف طبقاتی اتحاد پر مبنی طلبہ کا پلیٹ فارم ہو۔ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد پورے ملک کے طلبہ کے لیے مشعل ِراہ ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس نے تعلیمی ادارے کھلنے سے پہلے ہی کہا تھا کہ تعلیمی ادارے کھلنے پر ملک گیر طلبہ تحریک کا آغاز ہو گا کیونکہ طلبہ نے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکمرانوں کا طلبہ دشمن چہرہ دیکھ لیا ہے اور ابھی تو یہ آغاز کا بھی آغاز ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے طلبہ کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ اس وقت پورے ملک کے طلبہ ریاستی و حکومتی حملوں کی زد میں ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا تمام بوجھ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ حکمرانوں کی عیاشیاں جاری و ساری ہیں۔ اس وقت طلبہ کے ملک گیر اتحاد اور طلبہ یونین کی اشد ضرورت ہے اور یہی طلبہ کے مسائل کا ہے۔ ہمارا طبقاتی اتحاد ہی ہماری طاقت ہے جس کے ذریعے ہم حکمران طبقے سے اپنا حق چھین سکتے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.