|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس|
2021کا آغاز دنیا بھر میں لرزہ خیز واقعات سے ہوا، جہاں ایک طرف نئے سال کی پہلی صبح اپنے ماتھے پہ ہندوستان کی کسان تحریک کا تلک لیے ہوئے تھی وہاں نئے سال کے چھٹے روز ہی امریکہ جیسی طاقتور ریاست کا پارلیمان میدانِ جنگ بنا رہا۔ رواں برس ماضی کے تمام برسوں سے میعاری حوالے سے مختلف برس ثابت ہونے جا رہا ہے۔ لمبے عرصے سے سطح کے نیچے پنپتے تضادات آج سطح پر دھماکوں کی شکل میں ایسے اپنا اظہار کر رہے ہیں، جیسے تمام تر دنیا آمدہ برس تحریکوں کی آماجگاہ بننے جا رہی ہو۔ پاکستان کی صورتِ حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد، سامراجی کاسہ لیسی پر مبنی ریاستی کردار اور عالمی سرمایہ دارانہ بحران میں پاکستانی معروض آتش فشاں کا روپ دھار چکا ہے جس میں سے تحریکوں کا لاوا پھوٹنے کو تیار ہے۔
جہاں ایک طرف محنت کش طبقے کی تحریک موجود ہے وہاں آج طلبہ تحریک بھی حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ لمبے عرصے سے طاری رہنے والا جمود اور خاموشی کب کا قصہ پارینہ بن چلا۔
کرونا وبا سے قبل ہی ملک بھر میں طلبہ سیاسی عمل میں سرگرم ہو رہے تھے مگر یہ عمل سست روی کا شکار تھا مگر کرونا وبا کے دوران ریاست کی طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے میں نااہلی اور ننگی لوٹ مار نے حالات کو معیاری طور پر بدل دیا ہے۔ تعلیمی بجٹ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ بڑھ رہا ہے، یونیورسٹیوں کو خود مختار کیا جا رہا ہے، فیسوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے کوٹہ کی نشستیں بھی ختم کی جا رہی ہیں۔ کئی ایک تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا خاتمہ کیا جا چکا ہے، جنسی ہراسانی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں نیم مردہ تعلیمی نظام پر کرونا وبا کے دوران آن لائن کلاسوں کا بوجھ اونٹ کی کمر پر آخر تنکا ثابت ہوا۔
ہم نے کرونا وبا کے دوران ہی ملک کے طول و عرض میں بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسوں کے خلاف طلبہ کے خود رو احتجاج دیکھے، جن میں خاص کر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے احتجاج بہت لڑاکا نوعیت کے تھے۔ اسی طرح بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی کوٹہ کی نشستوں کے لیے تحریک دیدنی تھی۔ مگر یہ سب ابھی آغاز کا آغاز تھا۔
رواں برس کے آغاز پر ہی ملک کے اہم شہروں میں احتجاجوں کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔ کرونا وبا کے دوران تمام ملک کے تعلیمی اداروں نے طلبہ سے لوٹ مار کی اور بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسیں لیں جس میں آنے ٹکے کی پڑھائی بھی ممکن نہ ہوئی، نہ ہی طلبہ کو پڑھایا گیا مگر اب آن کیمپس امتحانات کا فیصلہ طلبہ پر مسلط کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو فیل کرتے ہوئے دوبارہ فیسیں بٹوری جا سکیں۔ لوٹ مار کا یہ بازار زوروں پہ گرم تھا کہ اچانک مُلک بھر کے اندر طلبہ کے خود رو احتجاج پھوٹ پڑے جو اپنے حجم میں اتنے بڑے تھے کہ ریاست خود بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئی۔
اس احتجاجی سلسلے کا آغاز 12 جنوری کو پشاور کی آباسین یونیورسٹی سے ہوا جہاں پر کیمپس کے اندر طلبہ نے احتجاج کا آغاز کیا مگر انتظامیہ کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا جس پر طلبہ نے رنگ روڈ بند کر دیا اور انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، طلبہ کے کامیاب احتجاج سے شکتی پاتے ہوئے ملک بھر کے طلبہ میں ہل چل مچی اور 18 جنوری کو لاہور اور اسلام آباد میں بھی اسی سلسلے میں طلبہ کے احتجاجی مظاہرے نظر آئے، اسلام آبا میں نمل یونیورسٹی کے طلبہ، پیر مہر علی شاہ ایرڈ زرعی یونیورسٹی، بحریہ یونیورسٹی اور ائیر یونیورسٹی کے طلبہ نے سڑکوں کا رُخ کیا جہاں پولیس نے ان پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کیں، لاہور میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنا منظم کیا جس کو پولیس کے لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کیا گیا۔ 20 جنوری کو رحیم یار خان کی خواجہ فرید یونیورسٹی کے طلبہ نے کامیاب احتجاجی مظاہرہ کر کے انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، اسی دن پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے کثیر تعداد میں وی سی آفس کے گرد احتجاجی مظاہرہ کیا، بعد ازاں NUST کے طلبہ نے سڑکوں کا رُخ کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آمدہ دنوں میں ایسے کئی مظاہرے ملک بھر میں نہ صرف نمودار ہوں گے بلکہ ان کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گا۔ کئی ایک اداروں جیسا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور دیگر نے ممکنہ احتجاجی تحریکوں کے خوف سے وقت سے پہلے ہی امتحانات آن لائن کردئیے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ حالیہ عرصے میں ہونے والے احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے مقداری میعاری اور دیگر کئی حوالوں سے مختلف ہیں، ان احتجاجوں میں ہمیں نظر آیا ہے کہ وہ تمام روایتی قیادتیں جو ریاست اور انتظامیہ کی جانب سے مسلط کی گئی تھیں آج تاریخ کے کوڑے دانوں میں سیاست کر رہی ہیں اور طلبہ اپنے زورِ بازو پہ خود رو عمل میں متحد ہو رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پرانی نام نہاد طلبہ قیادتیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں بلکہ اس کے برعکس ابھی ان میں انتظامیہ کے ہاتھوں کئی دفعہ استعمال ہونے کی صلاحیت باقی ہے ان کا کردار کسی بھی ممکنہ تحریک کو روکنے کا ہو گا۔ حالیہ احتجاجوں (خاص کر جو لاہور اور اسلام آباد میں ہوئے ہیں) میں ہم کو دیکھنے کو ملا کہ اب طلبہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں تک محدود نہیں رہے بلکہ بین الادارہ جاتی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں مگر تاحال یہ اتحاد کمزور اور عارضی ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح ہمیں نظر آیا ہے کہ طلبہ لڑاکا جدوجہد لڑ رہے ہیں مگر ایک مکمل واضح پروگرام کہیں موجود نہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے موجودہ تمام احتجاج ایک نئے عہد کی نوید سنا رہے ہیں، ایک نوخیز طلبہ تحریک اُفق پر اُبھر رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کی جدودجہد کو درست بنیادوں پر منظم کیا جائے، طلبہ کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہوئے ایک ملک گیر جدوجہد کی جانب بڑھنا ہو گا کہ ایک جانب شکتی پانے کے لیے چند کامیابیاں ضرور ہیں، مگر وہیں ریاست اور انتظامیہ کی جانب سے روک اور جبر کا بھی سامنا موجود ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں شدت آئے گی، اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ ملک گیر سطح پر منظم ہوں وہیں طلبہ کے وقتی مطالبات کی جدوجہد میں عمومی مطالبات جیسے مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ درست وقت ہے جب طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبہ کو سرِ دست بُلند کیا جائے کیونکہ اس وقت طلبہ یونین ہی واحد ادارہ ہے جس کے ذریعے طلبہ تعلیمی اداروں کے اندر فیصلہ سازی میں بذاتِ خود شامل ہو سکتے ہیں اور اپنی جدوجہد کر سکتے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس حالیہ احتجاجوں کی طرح مستقبل کی تمام طلبہ احتجاجی تحریکوں کو بھی خوش آمدید کہے گا اور ہمیشہ طلبہ کے شانہ بشانہ سرگرمِ عمل ہو گا۔ سچے جذبوں کی قسم آخری فتح ہماری ہو گی۔