ڈیرہ غازی خان: غازی یونیورسٹی کی طالبات کو آن لائن کلاسوں میں درپیش مسائل پر ایک انٹرویو

|انٹرویو: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈیرہ غازی خان|

ڈیرہ غازی خان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن نے ایک انٹرویو کے ذریعے کچھ طالبات سے کرونا وبا کے دوران تعلیمی اداروں کی جانب سے منعقد کی جانے والی آن لائن کلاسوں کے متعلق ان کے تاثرات جانے، اس انٹرویو کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔

سوال: لاک ڈاؤن سے پہلے یونیورسٹی میں آپ کی زندگی کیسی گزر رہی تھی؟
جواب: ہماری یونیورسٹی تو اب بھی نہیں کھلی اس لیے ہمیں ابھی بھی لاک ڈاؤن جیسے مسائل ہی درپیش ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ہم باآسانی یونیورسٹی کے اندر کہیں بھی آتے جاتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ اپنے نوٹس شیئر کر سکتے تھے، گروپ سٹڈی بھی کرتے تھے۔ ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کو ہاسٹل میں رہنے کی عادت ہوتی ہے اور یہاں ہم آرام سے پڑھ سکتی ہیں لیکن گھر تو گھر ہوتا ہے، کم از کم طالبات تو گھر میں نہیں پڑھ سکتیں۔ باقی اخراجات کے حوالے سے دیکھا جائے تو کافی طلبہ پارٹ ٹائم کوئی نوکری کر کے کسی حد تک اپنے اخراجات خود اٹھا لیتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں مکمل طور پر اپنے گھر والوں پر انحصار کرنا پڑا اور گھر والوں کے معاشی حالات لاک ڈاؤن کی وجہ سے اچھے نہیں رہے۔ اس لیے ہمیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لاک ڈاؤن سے پہلے کا وقت لاک ڈاؤن والی صورتِ حال سے تو بہتر تھا۔

سوال: آن لائن کلاسوں میں کیا خامیاں تھیں، آپ کو کن مشکلات کا سامنا رہا؟
جواب: پہلی بات یہ کہ طلبہ اس سسٹم سے واقف ہی نہیں تھے، انہیں آن لائن کلاسوں کی آئی ڈیز کا بھی کافی دیر مسئلہ رہا تھا۔ زیادہ تر طلبہ کے پاس لیپ ٹاپ بھی نہیں تھے۔ پھر آئی ڈی کے پاسورڈ کا مسئلہ، جس سافٹ وئیر پہ کلاس ہوتی تھی اس پر مائیک کا مسئلہ، سگنلز کا مسئلہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہمارے علاقے کی ایک طالبہ ہے اس سے اس کے گھر والوں نے اس کا موبائل فون لے لیا تھا کہ اب یونیورسٹی نہیں جاتی تو فون استعمال نہ کرو اور اسے صرف کلاس کے وقت پر فون دیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ بات کوئی استاد سنے گا کہ وہ گھر رہ کر کیسے پڑھتی ہے؟ حالانکہ آن لائن کلاسوں میں سارا کام موبائل فون پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ گھر والوں سے کتنی منتوں کے بعد اسے موبائل فون ملتا ہو گا اور وہ کیا اسائنمنٹ بناتی ہو گی؟ ہمارے اساتذہ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اس لیے ہمیں زیادہ مشکل نہیں ہوئی لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوا ہو گا۔ اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہم جماعت طلباء یونیورسٹی والی آئی ڈی اور مائیکرو سافٹ ٹیمز پر، جس پر کلاسیں ہو رہی ہوتی تھیں، اپنی فضول قسم کی ای میلز بھیجتے رہتے تھے۔

سوال: بہت سی طالبات کی طرف سے شکایات آئیں کہ کلاس کے بنے گروپوں سے ان کے فون نمبر لیک کئے گئے اور انہیں ہراسانی کا سامنا رہا۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟
جواب: جی کافی طالبات کو اس وجہ سے ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔ گروپ میں سے طالبات کے نمبر لیک کرنا یا تو طلباء میں سے کسی کا کام ہے یا یہ کسی استاد کا کِیا ہو سکتا ہے۔ اس سارے معاملے کی وجہ سے طالبات کافی پریشان رہی ہیں اور ان میں غم و غصہ بھی موجود ہے۔ طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کے بارے میں انہوں نے اپنے گھر میں بھی کسی کو نہیں بتایا کیونکہ انہیں پہلے ہی گھر سے بمشکل فون رکھنے کی اجازت ملی ہے، ایسے میں اگر وہ اپنے گھر والوں کو یہ سب بتائیں تو ان کی پڑھائی بند ہونے کا خدشہ ہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں لڑکی کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر ہی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔

سوال: اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کیا تفتیشی کاروائی کی گئی ہے؟
جواب: یونیورسٹی انتظامیہ نے تو اس میں معاملے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، ہو سکتا ہے یہ سب لوگ آپس میں ملے ہوئے ہوں۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ کو طالبات کی عزت اور تعلیم کی ذرا بھی فکر ہوتی تو وہ ضرور کوئی تفتیشی کاروائی کرتی اور مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملتی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

سوال: آپ نے آن لائن کلاسوں کے لیے انٹرنیٹ کا اہتمام کیسے کیا تھا؟
جواب: یونیورسٹی کی طرف سے تو ہمیں انٹرنیٹ کی کوئی سہولت نہیں دی گئی تھی اور طلبہ کے لیے انٹرنیٹ کا پیکج کرنا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ یہ تمام پیکجز طلبہ کے لیے بہت مہنگے تھے، جن کے اخراجات ہر طالبعلم برداشت نہیں کر سکتا۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے طلبہ صحیح طرح آن لائن کلاسوں میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔ معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے جو طلبہ انٹرنیٹ کا انتظام کرنے سے قاصر رہے ہیں وہی بہتر بتا سکیں گے کہ کس طرح انہوں نے یہ سب جھیلا ہے۔ کچھ اس طرح کے حالات ہیں۔ باقی ہمیں کچھ تعاون کرنے والے اساتذہ ملے جو اس بات کو سمجھتے تھے اور انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔

سوال: طالبات گھرداری بھی کرتی ہیں تو آن لائن کلاسز کے دوران اس حوالے سے مشکلات میں کتنا اضافہ ہوا؟
جواب: ہمارے معاشرے میں طالبات کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن کلاسیں لے سکیں کیونکہ گھر کے تمام تر کام بھی بطور خواتین انہیں کی ذمہ داری تصور کیے جاتے ہیں۔ گھر کے کاموں کی پریشانی میں آن لائن کلاسیں توجہ کے ساتھ نہیں لی جا سکتیں۔ بیشتر گھروں میں لڑکیوں کے لیے موبائل فون رکھنا ہی یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ”کلاس تو آن لائن ہے، رکھ دو موبائل، کام کر لو۔“، یہ الفاظ کافی لڑکیوں نے سنے ہوں گے۔ کافی لڑکیوں کی تو لاک ڈاؤن میں شادیاں کر دی گئیں ہیں۔

سوال: آن لائن کلاسوں میں تعلیمی معیار کیسا تھا؟ آن لائن کوئز، اسائنمنٹس اور امتحانات کس طرح ہوئے اور ان میں کیا مشکلات درپیش آئیں؟
جواب: کافی مضامین ایسے تھے جو سمجھ نہیں آتے تھے جیسے کہ شماریات۔ اسائنمنٹس بنانے میں بھی بہت مشکل ہوئی کیونکہ کافی طلبہ کو WPS Office استعمال کرنا نہیں آتا تھا۔ اس کے علاوہ سارا دن موبائل استعمال کرنے کی وجہ سے بینائی پر بھی کافی اثر پڑا۔ جن طلبہ کو پہلے سے چشمے لگے ہوئے ہیں ان کو مسلسل سر درد کا سامنا رہا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کو آن لائن کلاسوں کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی جس وجہ سے طلبہ کے لیے کلاس کے دوران کچھ بھی سمجھنا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ نہ تو انٹرنیٹ کا معیار اچھا ہے اور نہ ہی ہر طالب علم کو ٹیکنالوجی اس طرح سے میسر ہے کہ وہ اس کے استعمال کو جان سکے۔ اس لئے اس قسم کے تعلیمی نظام میں رہتے ہوئے اطمینان سے پڑھائی کرنا ناممکن ہے۔ سگنلز کا بار بار کٹ جانا، کچھ سمجھ نہ آنے پر استاد سے دوبارہ سوال نہ کر پانا، یہ سب مشکلات ہیں جن سے طلبہ کافی ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں اور لاک ڈاؤن میں آن لائن کلاسوں کی مشکلات اور پیچیدگیوں کی وجہ سے طلبہ میں ذہنی دباؤ اور خودکشیوں کی شرح میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔

سوال: سنا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں مالی مشکلات کی وجہ سے بہت سی طالبات تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں؟ کیا آپ کے سامنے ایسی کوئی بات آئی ہے؟
جواب: لاک ڈاؤن سے پہلے اور بعد کے معاشی حالات ایک جیسے تو نہیں ہیں۔ اگر کچھ والدین سخت معاشی حالات کے باوجود اپنی بچیوں کو تعلیم دلا رہے تھے تو ان کے لیے کرونا کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے اپنی بچیوں کی تعلیم کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اب فیسیں بھی بڑھا دی گئیں تو ان حالات میں غریب والدین کیسے اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔

سوال: دوبارہ سے آن لائن کلاسوں کے اجرا سے طلبہ پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
پہلے بھی آن لائن کلاسوں کے دوران طلبہ کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان میں معاشی اور سماجی مسائل سے لے کر ذہنی و نفسیاتی مسائل تک سب شامل ہیں۔ سخت معاشی حالات میں گھر پر والدین کے ساتھ رہنا اور ان کے مسائل جانتے ہوئے بھی ان سے فیسوں کا مطالبہ اور انٹرنیٹ پیکجز سے لے کر دیگر تعلیمی اخراجات مانگنا لازمی طور پر بہت سے طلبہ کو ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کا شکار کر دیتا ہے۔ پاکستان جیسے سماج میں جہاں طلبہ کے لیے کھیلوں اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے سہولیات نہیں ہیں وہاں طلبہ یونیورسٹی میں جا کر دوستوں سے مل کر یہ کمی دور کرتے تھے۔ اب دوبارہ سے فزیکل کلاسوں پر غیر ضروری طور پر پابندی لگا کر طلبہ کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا گیا ہے۔

سوال: آپ کو کیا لگتا ہے کہ فزیکل کلاسوں پر پابندی کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟
جواب: حکومت نے کرونا وائرس کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا اور جب وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا تب بھی کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے تھے اور اب جبکہ تمام مارکیٹیں، شادی ہال اور سکول سمیت سب کچھ کھول دیا گیا ہے ایسے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی وجہ اور کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن کرونا کا خوف نہیں ہو سکتا۔

یہ وہ مسائل ہیں جن سے غازی یونیورسٹی کی طالبات آن لائن کلاسوں کے دوران دوچار رہی ہیں اور یہ مسائل صرف غازی یونیورسٹی کی طالبات کے مسائل نہیں ہیں بلکہ پورے پاکستان کے طلبہ کے مسائل ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آج اگر حکومت خوفزدہ ہے تو اس خوف کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے (جیسا کہ انٹرویو میں طالبہ نے بھی بتایا) بلکہ حکومت اور تعلیمی ادارے طلبہ تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے اٹھنے والی طلبہ تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ طلبہ تحریکیں کس قدر وسیع اور مضبوط ہو سکتی ہیں جس پر حکومت اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا خوف بجا ہے۔ لیکن یہ طلبہ تحریکیں اب نہیں رکیں گی، ان کے لیے اگر ایک راستہ بند کیا جائے گا تو وہ کسی دوسرے راستے سے اپنا سر اٹھائیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.