|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
مشال خان کی پہلی برسی کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 16اپریل 2018ء کو ملتان پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس احتجاج میں پشتون تحفظ موومنٹ (PTM)کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کی گئی۔احتجاج میں 12طلبہ نے شرکت کی جن میں بہا ؤ الدین زکریا یونیورسٹی اور ایمرسن کالج کے طلبہ شامل تھے۔ دراصل پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ مشال خان کی پہلی برسی پر ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں مشال خان کے بہیمانہ قتل اور گھٹیا عدالتی فیصلے اور مشال خان کی جدوجہد اور پاکستان میں طلبہ تحریک کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستہ و قومی جبر کے خلاف جاری اور آگے بڑھتی پشتون تحفظ مومنٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کی جائے گی اور ملتان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس تحریک کے حوالے سے آگاہ بھی کیا جائے گا اور اس تحریک کیساتھ جڑت بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ لہٰذا اس جڑت کو بنانے کیلئے اس تقریب میں جو بنیادی طور پر مشال خان کی یاد میں منعقد ہونی تھی، پشتون تحفظ موومنٹ کیساتھ اظہار یکجہتی کو بھی شامل کیا۔
اس پروگرام کے حوالے سے تمام تر تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے مختلف اداروں کے محنت کشوں کو بھی اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی ہوئی تھی جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی۔اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پروگرام کی جگہ بھی طے کی جا چکی تھی۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے قریب ایک نجی نرسری کے مالک سے جگہ لی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر بھی اس پروگرام کی شاندارکمپئین کی جا چکی تھی۔
چونکہ اس تقریب میں پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جانی تھی اور ملتان کے طلبہ اور محنت کشوں تک اس تحریک کے ساتھ جڑت کا پیغام لے کر جانا تھا، اس سب نے ریاستی اداروں میں تھر تھلی مچا دی اور کیا پولیس اور کیا ایجنسیاں سب اس پروگرام کو روکنے کے درپے ہوگئیں۔ریاستی ادارے کے نزدیک یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ پشتونخوا سے باہر ملک کے دیگر حصوں میں اس تحریک کی جڑت بنے اور تحریک مزید آگے بڑھے۔ تقریب سے دو دن قبل پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے کارکنان کو پولیس اور ایجنسیوں کی جانب سے فون کالز پر ہراساں اور ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ تقریب سے ایک دن قبل تھانہ یونیورسٹی کے ڈی ایس پی نے پی وائے اے ملتان کے ایک سرگرم کارکن کو خود کال کی اور تھانے پیش ہونے کا کہا اور عدم پیشی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ تھانے میں ڈی ایس پی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے ساتھ ساتھ دیگر ایجنسیوں کے پانچ کارندے بھی موجود تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ نرسری کے مالک کو بھی تھانے بلایا گیا تھا۔ نرسری کے مالک سے ہمیں جگہ نہ دینے کیلئے تحریری حلف لیا گیا۔ ریاستی اداروں کے ان کارندوں نے واشگاف الفاظ میں پشتون تحفظ تحریک کی حمایت بند کرنے کا کہا۔ پی وائے اے کے کارکن کو یہ کہا گیا کہ آپ نے اس تقریب کے انعقاد کے لئے سرکار سے اجازت نہیں لی اور اگر اس تقریب کو منعقد کرنے کیلئے قانونی طریقہ کار سے اجازت لیناہوگی ہوگا جس کیلئے آپکو فلاں فلاں جگہ جانا پڑے گا یعنی سادہ الفاظ میں اس کا یہ مطلب تھا کہ اس تقریب کے انعقاد کے لئے کبھی بھی اجازت نہیں ملے گی۔ اس حوالے سے تحریری حلف لیا گیا کہ جب تک ہمیں سرکاری اجازت نہ ملے ہم یہ پروگرام نہیں کریں گے۔
جب یہ خبر بی زیڈ یو کے پشتون طلبہ تک پہنچی تو طلبہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان تمام تر وجوہات کی بنا پر تقریب کو منسوخ کرکے ریاستی اداروں کی اس غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔ ریاستی اداروں کے یہ ہتھکنڈے ان کے خوف اور بوکھلاہٹ کا واضح اظہار ہے۔ یہ کھلم کھلا آزادئ اظہارِ رائے پر حملہ ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ اس ریاست کے حقیقی کردار کو واضح کرتا ہے جس کے اپنے پالے پوسے دہشت گرد اور ملا مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ جس سڑک کو چاہے بند کردیں، جہاں چاہیں دھرنا دے دیں، بم دھماکوں میں معصوم لوگوں کا قتل عام کریں، راؤ انوار جیسے سرکاری دہشت گرد بھتے کے لئے موصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ یہ ان کے ’اپنے ‘ لوگ اور بھائی بندے ہیں۔ مگر جب اس ریاست کے جبر اور ظلم کے خلاف کوئی حقیقی آواز اٹھتی ہے اور کوئی حقیقی تحریک بنتی ہے تو اس پر ملک دشمن اور غدار کاٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ اس پر اپنے ان اثاثوں سے حملے کروائے جاتے ہیں۔ ریاستی پشت پناہی میں مشال خان کا قتل اس کا واضح ثبوت ہے۔
جہاں اس تحریک نے ریاستی ایوانوں کو لرزہ دیا ہے وہیں بڑے بڑے مہا ’انقلابیوں‘ کی نیندیں بھی حرام کردیں ہیں جو کہ ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں اور اس تحریک کے ان کے رجعت اور جمود کے تناظر کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ ریاست اور فوج کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے محنت کشوں اور نوجوانوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ نام نہاد’حقیقت پسند‘بننے کا پرچار کر کے حکمران طبقے کا کام آسان کرنے کا فریضہ نبھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ تو محنت کش طبقے پر اعتماد ہے اور نہ ہی ان میں انقلابی جرات ہے۔ یہ لوگ حکمران طبقے کی جانب سے پھیلائی گئی گھٹیا غلامی کی سوچ میں قید ہوتے ہیں اور محنت کش طبقے سے غداری کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت میں انقلابی کام جنون مانگتا ہے۔ جن کے پاس یہ نہیں وہ آخری تجزئے میں حکمران طبقے کے دلال ہیں اور کچھ بھی نہیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہے اور پوری دنیا میں اپنے خلاف تحریکوں کو جنم دے رہا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کوئی اکیلی تحریک نہیں ہے جو صرف پاکستان میں چل رہی ہے اور جس کی قیادت منظور پشتین کر رہا ہے بلکہ آج امریکہ جیسے ملک میں نوجوانوں کی جانب سے اسلحے کے استعمال کے خلاف سینکڑوں شہروں میں ہونے والے احتجاجوں (انکے علاوہ بھی مختلف قسم کے احتجاج ہورہے ہیں جیسے اساتذہ کی جانب سے کئی ریاستوں میں کیے جانے والے احتجاج) سے لے کر کیٹالونیا میں لاکھوں لوگوں کا سپین کے حکمران طبقے کی جابر ریاست کے خلاف سڑکوں پر نکلنا سرمایہ داری کے بحران کا ہی نتیجہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی صرف پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں مظلوم لوگ سڑکوں پر نہیں نکلے ہوئے بلکہ پاکستان کے تمام تر سرکاری اداروں کے محنت کش جن میں نرسز، پیرا میڈیکل سٹاف، ریلوے ، واپڈا، ینگ ڈاکٹرز اور اساتذہ وغیرہ شامل ہیں اور مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے مزدور اور کسان بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ حکمران طبقے کا میڈیا ان کی کوریج بھی نہیں کر رہا۔ ایسی صورت حال میں آج پی ٹی ایم جیسی تحریک کی کامیابی کا راز خطے کی دوسری مظلوم پرتوں کیساتھ اتحاد بنانے میں ہی ہے اور اسکے لیے مارکس وادیوں کو آج جرات کو مظاہرہ کرتے ہوئے اس تاریخی فریضے کو سرانجام دینے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر اس کے لیے یقیناًپی ٹی ایم کی قیادت سے زیادہ جرات درکار ہوگی اور وہی اس تحریک کو یہاں کے محنت کش طبقے کی تحریک کیساتھ جوڑ سکے گا جو پی ٹی ایم کی قیادت سے زیادہ جرات رکھتا ہوگا اور ٹھوس انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔
پاکستان کے حکمران طبقے کی جابر ریاست اس وقت پی ٹی ایم سے شدید خوف میں ہے اور معاشی تنزلی (شدید قرضوں کا بوجھ جن میں تقریبا 90ارب ڈالر بیرونی قرضہ شامل ہے) کی وجہ سے اسکا داخلی انتشار بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور دوسری جانب لمبے عرصے سے اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی وجہ سے اس کی جانب سے بھی ایک بڑی تحریک کا خوف ریاست کو مسلسل ڈرا رہا ہے۔ ایسی کیفیت میں محنت کش طبقے کی تمام تر مظلوموں کی تحریکوں سے جڑت نا صرف ان مظلوں کے جمہوری مطالبات منوانے کا ذریعہ بن سکتی ہے بلکہ اس جابر ریاست کو جڑ سے ہی اکھاڑ نے کا سبب بھی بن سکتی ہے اور پاکستان کے حکمران طبقے اور اسکی جابر ریاست کو اگر کوئی سب سے بڑا خوف ہے تو وہ یہی ہے۔
انقلابی جدوجہد تیز ہو!
مشال کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے!