|مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|
ایک ہفتہ قبل ہاسٹل فیسوں میں اضافے اور ڈسپلن کے نام پر بننے والے دقیانونسی ہاسٹل قوانین کے خلاف شروع ہونے والی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے فیسوں میں ہوشربا حد تک (999 فیصد) اضافہ کیا گیا، جس میں روم رینٹ کو دس روپے سے بڑھا کر چھ سو روپے، سروس چارجز جو اس سے پہلے نہیں لیے جاتے تھے سترہ سو روپے اور میس فیس پانچ ہزار سے بڑھا کر بارہ ہزار کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈسپلن اور نام نہاد اخلاقیات کے نام پر ہاسٹل قوانین میں سخت شرائط لگا دی گئی ہیں جس کے مطابق طالبات کے لباس کا فیصلہ اب یونیورسٹی انتظامیہ کرے گی، طلباء و طالبات کے نہ ملنے اور اس طرح کی دیگر شرائط لگا دی گئیں ہیں، یہ تمام اقدامات ایک طرف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے مزاحمتی کردار کو ختم کرنے کے لیے اٹھائے گئے دوسری طرف یہ عوام دشمن مودی سرکار کی سماج پر رجعت نافظ کرنے کے منصوبے کا ہی تسلسل ہے۔
اس پورے طلبہ دشمن کھیل کے خلاف JNU کے طلبہ نے بہادری سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور JNU سٹوڈنٹس یونین، جو یونیورسٹی کے طلبہ کی منتخب کردہ یونین ہے ان اقدامات کے خلاف مکمل کیمپس بند ہڑتال پر ہے۔ ہڑتال اور احتجاج طلبہ کا بنیادی حق ہے لیکن ہمیشہ کی طرح مودی سرکار پر امن طلبہ پر شدید ریاستی جبر پر اتر آئی ہے۔ ہڑتال کے تیسرے روز ہندوستان کے نائب صدر ایم وینکا نائڈو کی یونیورسٹی میں کانوکیشن کے شرکت کے دوران طلبہ نے ہال کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تو جمہوریت کی علمبردار بھارتی ریاست طلبہ پر ننگے جبر پر اتر آئی۔ یہ ریاستی جبر ریاست کے کردار کو واضح کرتا ہے کہ کشمیر ہو یا دہلی ہندو ہو یا مسلمان جو بھی ان امیر زاد سرمایہ داروں کی ریاست کے خلاف اپنے حقوق کی جدو جہد میں اترے گا تو ریاست بنا کسی نسلی،قومی اور مذہبی تفریق کے جبر کرے گی۔
طلبہ کے حقیقی مسائل پر بننے والی اس تحریک کے خلاف مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، نام نہاد آزاد میڈیا اپنے ریاستی آقاؤں کی خدمت میں طلبہ پر امن و امان خراب کرنے کا الزام لگا رہا ہے تو دوسری طرف ریاستی آشیرباد سے پلنے والے بھارتی جنتا پارٹی کے طلبہ ونگ کو تشدد کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے تاکہ تحریک متشدد ہو سکے اور ریاست کو مزید جبر کرنے کا بہانہ مل جائے۔ ایک اور طریقہ واردات یہ اپنایا جا رہا ہے کہ فیسوں میں سو میں سے محض پانچ فیصد کمی کر کے میڈیا اور سرکاری سٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے کہ فیسوں میں اضافہ واپس لے لیا گیا ہے، اس سے کئی طلبہ میں غلط فہمی بھی پیدا ہوئی لیکن یونیورسٹی کی طلبہ قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ یہ سرا سر جھوٹا پراپیگنڈہ ہے۔ جب تک تمام مطالبات منظور نہیں کیے جاتے طلبہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان تمام اوچھے اور جابرانہ حربوں کے نتیجے میں تحریک پیچھے جانے کی بجائے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور JNU کے طلبہ کی حمایت میں ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی اب اس احتجاجی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان میں قابل ذکر بنارس ہندو یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پونے، FTTI یونیورسٹی آف حیدرآباد اور امبیدکر (Ambedkar) یونیورسٹی کے طلبہ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ آل انڈیا سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA) بھی شامل ہے۔
اس پورے واقعہ کو ہندوستان کی عمومی صورتحال کے ساتھ جوڑ کے دیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت ہندوستان پر مذہبی انتہا پسند عوام دشمن اور سرمایہ داروں کے ایجنٹ نریندرا مودی کی حکومت قائم ہے، مودی سرکار نے اپنے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر مزدور دشمن اقدامات کیے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی اور لاکھوں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ اسی تسلسل میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کے ذریعے تعلیم کو اپنے سرمایہ دار دوستوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کے پلان پر بخوبی عمل جاری ہے۔ اپنی ان مزدور دشمن پالیسیوں اور نظام کی رکھوالی پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑے پیمانے پر مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے اور سماج پر زبردستی رجعت اور ہندو انتہا پسندی نافذ کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تمام مظاہر ہندوستانی ریاست کے بحران کی علامات ہیں۔ ایک طرف تو ”شائننگ انڈیا(Shinning India)“ کا راگ الاپا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف آبادی کی اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدگی میں سسکتے کروڑوں محنت کشوں نے پچھلے عرصے میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی چار عام ہڑتالیں کر کے مودی اور اور مودی کے یار ٹاٹا، امبانی، متل وغیرہ کو سماج میں اپنی طاقت کا پیغام دیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے طلبہ نے مختلف اوقات میں احتجاجوں، مظاہروں اور ہڑتالوں سے حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے، خاص طور پر 2016 میں چلنے والی طلبہ تحریک جو پچھلے پچیس سال کی سب سے بڑی تحریک تھی اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے جو کشمیر سے نکل کر دہلی، بمبئی، چندی گڑھ، کلکتہ اور دیگر شہروں میں پہنچ چکے ہیں، اس بات کا عندیہ ہے کہ ہندوستان کا محنت کش طبقہ اور طلبہ ایک فیصلہ کن لڑائی میں داخل ہو چکے ہیں۔
جہاں اس لڑائی کے لیے طلبہ اور محنت کش تیار نظر آتے ہیں وہیں ہمیں مزدوروں اور طلبہ کی قیادت میں کمی نظر آتی ہے جو بالآخر درست سائنسی سوشلزم کے نظریات سے دوری اور جمہوریت، سیکیولرازم میں حل تلاش کرنے کی غلط خواہش ہے۔ بہر حال طلبہ اپنی ان تمام لڑائیوں سے سیکھتے ہوئے درست انقلابی نظریات کی طرف لوٹیں گے اور آئین و قانون کی حدود سے نکل کر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی طرف آئیں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے مکمل اظہار یکجہتی کرتا ہے اور جعلی قومی حدود سے اوپر حقیقی طبقاتی جڑت کے ساتھ ہندوستان کے طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔