اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کی ہڑتال جاری! آگے کا طریقہ کار اور لائحہ عمل!

|تحریر: عمر ریاض|

گزشتہ آٹھ روز سے قائد اعظم یونیورسٹی میں قائدین سٹوڈنٹس فیڈریشن کی کال پر 13نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر ہڑتال جاری ہے جس میں فیسوں میں اضافہ سر فہرست ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اور قائدین سٹوڈنٹس فیڈریشن کی قیادت پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس بات کا عزم کیے ہوئے ہیں کہ جب تک ان کے تمام تر مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہڑتال جاری رکھیں گے۔ ہڑتالی طلبہ نے ہڑتال کے پہلے دن سے ہی تمام یونیورسٹی کو بند کر رکھا ہے اور اب تک طلبہ قیادت کی ضلعی اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ کئی مذاکراتی نشستیں ہو چکی ہیں جس میں تین بار ضلعی انتظامیہ اور دو بار یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ہو چکے ہیں جو کسی منطقی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے جس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ کی طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے غیر سنجیدگی ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ریاستی ادارے اور ان کے منتخب شدہ لوگ جو جامعہ کے مختلف عہدوں پر فائز ہیں، تعلیم کے کاروبار سے ہونے والے منافعوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ طلبہ تعلیم کو خرید سکیں یانہیں بس ان کا تعلیم کا کاروبار جاری رہنا چاہیے، ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ طلبہ کو بھاری بھر کم فیسوں سمیت کتنے مسائل کا سامنا ہے یا کتنے طلبہ ایسے ہیں جو بس اتنی بھاری فیس دینے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کی بس یہی کوشش ہے کہ طلبہ ہر طرح کے جبر کے باوجود کوئی آواز بلند نہ کریں اور اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہوجائیں اور یونیورسٹی میں ایسی ’’فضا‘‘ قائم کی جائے جس میں وہ پوری آب و تاب کے ساتھ لوٹ مار جاری رکھ سکیں۔
لیکن جہاں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی اس جدوجہد کو سراہنے اور ان کی جرات کو سلام پیش کرنے کی ضرورت ہے تو وہیں اس جدوجہد کی کمزوریوں کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ نو روز کے طویل دورانیے پر مبنی ہڑتال کے باوجود بھی اگر مطالبات منظور نہیں ہوتے تو پھر قیادت کو ہڑتال کے طریقہ کار اور لائحہ عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ ان کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے ناصرف ہڑتال کو کامیاب بنایا جاسکے بلکہ دیگر طلبہ کے لئے ایک مثال بھی قائم کی جاسکے۔ اگر اس طویل جدوجہد کے بعد کامیابی نہیں ملتی تو س یونیورسٹی سمیت ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ابھرنے والی تحریکوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ان طلبہ کیمطالبات پر غور کیا جائے اور ان کو دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو ہر تعلیمی ادارے میں یہی مسائل ہیں چاہے وہ بلوچستان یونیورسٹی ہو یا پھر پشاور یا راولاکوٹ کی پونچھ یونیورسٹی۔ مثال کے طور پرفارمیسی ڈیپارٹمنٹ میں، جہاں لاکھوں روپے فیسوں کی مد میں اینٹھے جاتے ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی کی طرح بہت سی یونیورسٹیوں میں ڈگری الحاق شدہ نہیں ہے۔ اسی طرح فیسوں میں آئے روز ہونے والا اضافہ لاکھوں غریب طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرتا جارہا ہے اور دیگر ان گنت مسائل ہیں جو کہ مشترک ہیں۔ اس لئے اس ہڑتال کی کامیابی ناصرف قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کو ایک اعتماد فراہم کرنے کی طرف جائے گی بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کے طلبہ کو بھی یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنے گی کہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے اپنے مطالبات پورے کروائے جاسکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی میں جاری یہ ہڑتال قیادت کے لیے ان کی بقا کامسئلہ ہے۔ اگر یہ ہڑتال کامیاب نہیں ہوتی تو عام طلبہ کا ان سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ زیادہ لڑاکا اور با شعور قیادت تراشنے کی جانب بڑھیں گے۔ مزدور ہوں یا طلبہ ہڑتال کسی بھی جدوجہد میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے ہڑتال کی کال دینے سے قبل عام طلبہ سے مشاورت اور وسیع تر پرتوں کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہڑتال کے آغاز کے بعداس کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا دشمنوں کے حملوں میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ انتظامیہ کوشش کرے گی کہ ہڑتالی طلبہ کو تھکانے کا حربہ استعمال کرے لیکن اس کیخلاف پوری طاقت سے لڑنا ہوگا اور اس ہڑتال کا دائرہ کار مسلسل وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر اسے طلبہ کی زیادہ بڑی تعداد تک لیجانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کے علاوہ محنت کشوں کے ساتھ اس ہڑتال کو جوڑنے کی ضرورت ہے جو مہنگی تعلیم کے باعث ناخواندگی کی اذیت سے دوچار ہیں۔جہاں سماج کی دیگر پرتوں کے ساتھ اس لڑائی کو جوڑنے اور ان سے یکجہتی اور حمایت حاصل کی ضرور ت ہے تو وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہڑتال کو کوئی دوسرا اپنے مقاصد کے لئے استعما ل نہ کرے۔ عام طلبہ کو ساتھ جوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ قیادت ان کو یہ باور کروائے کہ یہ ہڑتال عام طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ہے نہ کہ قیادت میں شامل مخصوص افراد کے مفادات کی تکمیل یا یونیورسٹی انتظامیہ کے کسی اور دھڑے کے مذموم مفادات کے حصول کے لیے۔اگر ایسا کوئی مفاد پرست عنصر ہڑتال میں مداخلت کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے کاٹ کر پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قیادت عام طلبہ کو جوابدہ ہونی چاہیے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل طلبہ کی اکثریت کی حمایت اور مشاورت حاصل کرنا ہوگی۔ عام طلبہ سے بالا ہونے والے فیصلے جو کہ کسی بھی قیادت کا عمومی رویہ ہوتا ہے، ہڑتال کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور طلبہ کی جڑت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس تسلسل میں یونیورسٹی انتظامیہ یا ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی بند کمروں کی بجائے ہڑتالی کیمپ میں عام طلبہ کے سامنے ہونے چاہئیں تاکہ انتظامیہ کاکردار کھل کر سامنے آئے اور قیادت پر اعتماد بڑھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں اور مزدور یونیز سے حمایت حاصل کرنا ہڑتال کی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ قیادت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی طریقہ کار یا لائحہ عمل حتمی نہیں ہوتا بلکہ وقت اور حالات کے مطابق اس میں تبدیلی لانا ضروری ہوتا ہے۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس ہڑتال کا جائزہ لے رہی ہے اور قیادت کا یہ فرض ہے کہ وہ عام طالبعلم کی طرف سے ہونے والی کسی بھی تنقید کو کھلے دل سے سنیں اور اس سے درست نتائج اخذ کریں۔اس کے ساتھ ساتھ قیادت کو یہ بنیادی بات بھی سمجھنی ہوگی کہ ہڑتال ایک سیاسی عمل ہے اور ان کے تمام مطالبات بھی سیاسی مطالبات ہیں اور وہ ایک سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اگر قیادت کامیابی کے لیے سنجیدہ ہے تو ہڑتال کو مضبوط بنانے کے لیے دیگر ترقی پسند تنظیموں کو ناصر ف ہڑتال میں شامل کرنا چاہیے بلکہ ان سے اظہار یکجہتی بھی لینا چاہیے اور اپنے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے ان کی آرا کی بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
پروگریسو یوتھ الائنس قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی اس لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ پہلے دن سے موجود ہے اور آئندہ بھی طلبہ حقوق کے لیے ہونے والی ہر جدوجہدمیں اپنا انقلابی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.