جنوبی افریقہ: مفت تعلیم کے لیے جدوجہد اور طلبہ تحریک کے اسباق

|تحریر: بین مورکن، ترجمہ: احمر علی|

اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں میں لیے ہزاروں جنوب افریقی طلبہ کی تحریک نے جنوب افریقی سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ انتہائی اہم پیشرفت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان اپنی قسمت ان حکمرانوں اور لیڈروں پر چھوڑنے پر راضی نہیں جنہوں نے سرمایہ داری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ نوجوان اب معاشرے میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ سرگرم پرتوں میں سے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کا راستہ اپنا رہے ہیں۔

بنیادی طور پر، نوجوانوں کی یہ جدوجہد سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی عکاسی کرتی ہے جو عوام کو کوئی مستقبل نہیں دے سکتا۔ یہ تلخ جدوجہد جنوبی افریقہ کے سماج کے لیے ایک اہم موڑ ہے جس نے پچھلی ایک دہائی میں طبقاتی تضادات کو شدت سے ابھرتے دیکھا ہے۔ طلبہ اور دانشور سماجی کیفیت کا انتہائی حساس بیرومیٹر ہوتے ہیں اور انکی موجودہ جدوجہد آنے والے کل کی ایک پیش بندی ہے۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ حالات کی وجہ سے سماج میں شدید غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے۔

To read this article in English, click here

حکومت کا بحران

ٹیوشن فیس کے خلاف اور مفت تعلیم سے شروع ہونے والی تحریک، ان فوری مسائل سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ پرتشدد کریک ڈاؤن اور حکومت کا تکبر تحریک کو سیاسی اور انقلابی کر چکا ہے۔ مظاہروں کی شدت اور پھیلاؤ نے تمام طبقات کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ جیسے جیسے روزانہ کی بنیاد پر واقعات رونما ہو رہے ہیں، حکومت دن بدن مفلوج ہوتی نظر آ رہی ہے اور اس سے نپٹنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی جا رہی ہے اور تحریک اس کے کنٹرول سے باہر ہے۔

پرانے ہتھکنڈوں سے حکومت کرنے میں ناکامی آنے والے انقلابی بحران کا اشارہ ہے۔ عوام کی ایک وسیع اکثریت روایتی افریقن نیشنل کانگریس سے مایوس ہو چکی ہے جو کہ 1994ء میں حکومت سنبھالنے سے نوجوانوں اور محنت کشوں کے خلاف حملوں اور کٹوتیوں کی حمایت کرتی چلی آ ئی ہے۔ تحریک پر پْرتشدد حکومتی کریک ڈاؤن سے اس بات کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ یہ افریقن نیشنل کانگریس کی حکمران طبقے کے لیے عوامی تحریک کو دبائے رکھنے کا اپنا روایتی کام دہرانے کی بڑھتی ہوئی نااہلی ظاہر کرتی ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے کے پاس افریقن نیشنل کانگریس کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ اس نے اسے ایک گہرے بحران میں ڈبو دیا ہے۔

اندرونی جھگڑوں میں پھنسے رہنے کے باعث حکومت صورت حال سے مکمل طور پر لا تعلق ہے۔ یہ اس کی بحران کو ’’حل‘‘ کرنے کی تازہ ترین کوشش میں واضح ہے۔ صدر زوما نے ایک ٹاسک ٹیم تشکیل دی جو ابتدائی طور پر دفاعی امور کے وزرا( دفاع، انصاف، پولیس، کوریکشنل سروسز اور ریاستی سلامتی) پر مشتمل تھی۔ یہ حکومت کے مظاہروں کی طرف رویے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ زوما نے بعد میں افریقن نیشنل کانگریس کے کہنے پر خزانہ، مواصلات، ہاؤسنگ اور سماجی ترقی کے وزرا کو شامل کیا۔ لیکن اس نے، حکومت جس بیہودہ اور بھونڈے طریقے سے مسئلے سے نبٹ رہی ہے، اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کا حکومت کی توقعات کے برعکس الٹا اثر ہوا ہے کیونکہ اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ حکمران طبقہ منقسم ہے اور مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے ضروری ہم آہنگی سے عاری ہے۔ حکومت شدید بحران میں ہے جس کی وجہ طبقاتی جدوجہد کا بڑھتا ہوا ابھار ہے۔ طلبہ تحریک اس بحران کو شدید کر رہی ہے۔

سماجی بنیادیں

طلبہ مظاہروں کی خود اپنی جڑیں حالیہ عہد میں تندوتیز ہوتی طبقاتی جدوجہد میں پیوست ہیں۔ یہ گزشتہ چند سالوں پر محیط ایک بڑے سماجی عمل کا حصہ ہے، جس میں عوام نے بار بار درپیش سماجی اور معاشی بحران کے حل کی تلاش میں عوامی جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران عوامی جدوجہد کی کئی لہریں اٹھی ہیں ہیں جنھوں نے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ ان تحریکوں نے، خاص طور پر 2009ء سے 2012ء کی درمیانی مدت میں، ہڑتالوں کا ایک طوفان دیکھا جس نے سیاست کا نقشہ بگاڑ دیا اور نئی سیاسی صف بندیوں کے عہد کا پیش خیمہ بنیں۔

افریقن نیشنل کانگریس کی جانب سے سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا نفاذ اور محنت کشوں کی جانب سے اس کے منہ توڑ جواب کا نتیجہ ماضی کی عوامی آزادی کی تحریک کی طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں نکلا۔ ماریکانا میں ہونے والا قتلِ عام اہم موڑ تھا جس میں افریقن نیشنل کانگریس اپارتھائیڈ(Apartheid) عہد میں ہڑتال کرنے والے غریب سیاہ فام مزدوروں کے خلاف ہونے والے مظالم کی ذمہ دار ٹھہری۔ اسی وقت سے حکمران طبقے کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لینے والی افریقن نیشنل کانگریس کی قیادت اور دہائیوں تک اس کی حمایت کرنے والے محنت کش طبقے کے مابین گہرے طبقاتی تضادات سطح پر ابھر آئے۔ سہ فریقی اتحاد میں بحران، ٹریڈ یونین تحریک میں ٹوٹ پھوٹ، افریقن نیشنل کانگریس کی بائیں جانب سے قوتوں کا ابھرنا، اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں کمیونٹی کی بنیاد پر تنظیموں کا بننا اسی عمل کی پیداوار ہیں۔ طلبہ احتجاج اس عمل کا تازہ ترین مرحلہ ہے۔

ایک طرف ہمارے پاس افریقن نیشنل کانگریس کی قیادت اور اس کے حمایتی ہیں، جو سرمایہ دارانہ کلب سے جا ملے ہیں، جن کو زیادہ تر ماضی کی تحریک آزادی کی نسل کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب، ہمارے پاس نوجوانوں کی نئی نسل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے زخم اور 1994ء کی ’’تبدیلی‘‘ جھیل رہی ہے۔ سیاہ فام اشرافیہ کے لیڈروں اور روایتی سفید فام سرمایہ دار طبقے کے درمیان ہونے والے اْن مذاکرات کا نتیجہ ایک معاہدے کی صورت میں نکلا جس میں افریقن نیشنل کانگریس کی قیادت کو حکومت بنانے کی اجازت ملی جبکہ معیشت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی رہی۔ ہم آج جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ اس سودے بازی کے فطری نتائج ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں، جنوبی افریقہ کے محنت کش طبقے نے جو بڑی دولت پیدا کی ہے وہ سرمایہ داروں نے بٹور لی ہے۔ انارکی اور بحران زدہ نظام، جو بے رحمی سے چند افراد کے لیے منافع جمع کرتا ہے، کی عوام کی بنیادی مادی ضرورتوں کے ساتھ مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ یہ نسل سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نتائج سے واقف ہے، جس نے بے روزگاری کی زندگی کے واضح امکان اور مسلسل معیارِ زندگی پر حملوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اور اب وہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔

تازہ دم لڑاکا نسل

ٹیوشن فیس پر احتجاج کوئی نیا رجحان نہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے عمومی ابھار کا حصہ ہوتے ہوئے، یہ غریب سیاہ فام یونیورسٹیوں میں کئی سال سے معمول کا حصہ ہیں۔ یہ احتجاجTUT، UWC، CPUT اور Fort Hare جیسی یونیورسٹیوں تک محدود ہونے سے گلنے سڑنے لگ گئے تھے۔ لیکن وٹس، UCT، اور رہوڈز وغیرہ جیسی یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ درمیانے طبقے تک پھیل چکے ہیں۔ یہ عوام کے ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتے حالات کی غمازی کرتا ہے۔

مظاہروں کی سب سے زیادہ انقلابی پرت نام نہاد ’’آزاد پیدا ہوئی‘‘ نسل پر مشتمل ہے، یعنی جو 1994ء کے بعد پیدا ہوئی۔ نوجوانوں کی یہ نئی نسل آزادی کے عہد کی سیاست کی جکڑبندیوں سے آزاد ہے اور صرف پْر ہیجان عہد سے واقف ہے جس میں ہم اب جی رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اثرات کے باعث غم و غصے سے بھرپور اور مقامی و عالمی تحریکوں سے شکتی حاصل کرتے ہوئے نوجوان جدوجہد کا راستہ اپنا چکے ہیں۔

حالات کی بھٹی میں تپ کر نوجوانوں کی اس نئی پرت نے غیرمعمولی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے لیکن تجربے کی کمی تحریک کے سامنے کئی رکاوٹیں بھی کھڑی کرتی ہے۔ ابتدائی مراحل میں فطری طور پر تحریک تذبذب کا شکار ہوتی ہے۔ مگر کامیاب ہونے کے لیے اور جدوجہد کو بلند معیار پر لے جانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کمزوریوں پر قابو پایا جائے۔

ریاست کے خلاف مفت تعلیم کی جدوجہد میں، طلبہ نے غیر معمولی قربانی اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک بھر کی تمام یونیورسٹیوں میںآئے روز ہونے والی لڑائیوں کے مناظر نوجوانوں کی ثابت قدمی اور انقلابی جذبے کا اظہارہیں۔ لیکن ایک مہینے کی شدید لڑائی کے باوجود طلبہ کی مانگیں پوری نہیں ہوسکیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ محض جذبہ اور ثابت قدمی جیت کے لیے کافی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سرمایہ دارانہ نظام دہائیوں پہلے اکھاڑ پھینکا جا چکا ہوتا۔ جس کی ضرورت ہے وہ ایک درست پروگرام، درست طریق کار اور حقیقی لڑاکا قیادت ہے۔

طلبہ رہنما

اکتوبر 2015ء میں جب طلبہ مظاہرے شروع ہوئے انہوں نے فوراً وسیع تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اس کی خاص وجہ ساؤتھ افریقن سٹوڈنٹس کانگریس(SASCO) کی مداخلت تھی، جو کہ آغاز سے ہی شامل تھی اور اسی نے قومی سطح پر تحریک کے لیے لازمی ڈھانچہ مہیا کیا۔ ایک ہفتے کے اندر ہی، طلبہ نہ صرف اپنے کیمپسز میں بلکہ یونیورسٹیوں کے مابین متحرک ہونا شروع ہوگئے۔ یہ تحریک تب قومی سطح پر استوار کی گئی۔ کیپ ٹاؤن میں پارلیمنٹ، جوہانسبرگ میں لتھولی ہاؤس اور پریٹوریا میں یونین بلڈنگز کے سامنے پے در پے احتجاجی مارچ اور ہزاروں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

تحریک کا وسیع کردار حکومت کو ایک دھچکے کی طرح لگا۔ محض دو ہفتوں کے اندر ہی تحریک کے بڑھتے ہوئے حجم اور شدت سے خوفزدہ ہو کر حکومت نے مظاہروں کو روکنے کے لئے فیسوں میں اضافہ واپس لینے کا مجبوراً اعلان کر دیا۔ یہ ایک اہم سبق ہے۔ یہ احتجاجی مظاہروں کی شدت اور اس سے نظام کو بڑھتا ہوا خطرہ تھا جس نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

تاہم اس سال SASCO کی قیادت مبینہ طور پر طلبہ کی حمایت اور ان کو منظم کرنے سے پیچھے ہٹ گئی۔ بہت سے کیمپسز میں SASCO کے لیڈر طلبہ کے خلاف بھی بولے اور حکومت کا دفاع کرتے نظر آئے۔ یہ SASCO کے مقصد کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو طلبہ نے ان کی نمائندگی کرنے اور معیاری اور مفت تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے بنائی تھی۔ اکثر موقعوں پر SASCO کی قیادت ایک دوسری روایتی طلبہ تنظیم، ساؤتھ افریقن یونین آف سٹوڈنٹس(SAOS) کے ساتھ مل کر حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتی نظر آئی۔ بہت سے اسٹوڈنٹ لیڈر تحریک کو اپنے سیاسی کیرئیر کو آگے بڑھانے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے نظر آئے۔

یہ واضح ہے کہ پچھلے سال تحریک کو دی جانے والی رعایتوں کا مقصد صرف اور صرف حکومت کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔ لیکن جب پچھلے سال حکومت جوابی حملہ کرنے کی تیاری کر رہی تھی تو کچھ یونیورسٹیوں میں طلبہ قیادت نے تحریک ختم کرنا شروع کر دی۔ تحریک کا عوامی کردار اور یونیورسٹیوں کے مابین اہم رابطہ ٹوٹ کر بکھری ہوئی تحریک میں بدل گیا جہاں مختلف مطالبات کے گرد ہر کیمپس میں علیحدہ علیحدہ لڑائی لڑی گئی۔ مقامی اور قومی مطالبات کی تفریق نے تحریک کو بکھیر دیا۔

پچھلے سال سے، پورے ملک کی یونیورسٹیاں سرگرمی کا گڑھ بن چکی ہیں۔ رہائش کی کمی، فنڈز کی کمی، نصاب، ادارہ جاتی ثقافت اور یونیورسٹی ملازمین کو ٹھیکیداروں کے حوالے کرنے کے خلاف قریباً ہر یونیورسٹی میں احتجاج ہوئے۔ مگر پچھلے سال کے برعکس ہر جگہ اس میں وسیع کردار اور ہم آہنگی کی کمی تھی۔ مطالبات کو یکجا کرنے اور حکومت اور مجموعی طور پر پورے نظام کے خلاف قومی سطح پر جدوجہد کرنے کی بجائے تحریک مختلف رجحانات میں ٹوٹنا شروع ہو گئی۔ یہ اسی کا ہی نتیجہ تھا کہ جب تحریک دوبارہ ابھری تو پچھلے سال کی قومی سطح پر منظم نہ ہوسکی۔

اس کے تحریک پر بھیانک اثرات ہوئے۔ اسٹوڈنٹس لیڈروں کی مداخلت، بلکہ عدم مداخلت کہنا بجا ہوگا، نے حکومت کو طلبہ کو تھکانے اور تنہا کرنے میں مدد فراہم کی۔ یہ تحریک کی ناکامی پر منتج ہوسکتا ہے۔ وِٹس یونیورسٹی اور چند دیگر اداروں میں پیش آنیوالے غیر معمولی واقعات کے علاوہ تمام مظاہرے یونیورسٹیوں کی طلبہ نمائندہ کونسلوں کے بغیر ہوئے۔

تنظیم

یہ طلبہ قیادت کی حرکتوں کے خلاف ایک اچھا ردِ عمل ہے، لیکن یہ تحریک کو درپیش مسائل کاحل نہیں ہے۔ بری قیادت کا حل بہتر، پر عزم اور بے لوث لیڈر تلاش کرنا ہے۔ اس کو یقینی بنانے کا واحد راستہ قیادت کے ڈھانچے جہاں تک ممکن ہوسکے جمہوری اور جوابدہ بنانا ہے، اس حق کے ساتھ کہ جو لیڈر طلبہ کی طرف سے دئیے گئے مینڈیٹ کو سر انجام نہ دے سکے اس کو واپس بلا لیا جائے۔

تحریک کے ٹوٹ کر بکھرنے کے اثرات واضح ہو چکے ہیں۔ یک زبان ہوکر بات کرنے کی بجائے بکھری ہوئی تحریکیں آپس میں الجھنے لگ گئی ہیں۔ اس نے مظاہروں کو مزید جدا اور مطالبات کو دھندلا کر دیا ہے۔ حکومت نے اور دشمن میڈیا نے اس ٹوٹ پھوٹ کو طلبہ کے مطالبات کو بگاڑنے اور غلط بیانی کے لیے استعمال کیا۔

قومی اور عوامی تحریکوں کے فقدان کے باعث طلبہ کے مختلف گروہ بڑی طلبہ تنظیم سے ٹوٹ کر تنہا ہوگئے۔ اسی اثنا میں تحریک کے ایک چھوٹے حصے نے، جو کریک ڈاون کے باعث لڑاکا ہوا تھا، لائبریریوں کو جلانے، گاڑیوں پر پتھراؤ جیسے اقدامات کرنے شروع کر دئیے۔ اس نے حکومت کو طلبہ قیادت کو مزید تنہا کرنے اور احتجاجوں پر کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کیا۔ طلبہ کی متحرک پرتوں اور طلبہ کی وسیع اکثریت کے درمیان لا تعلقی نے تحریک کو تنہا کرنے اور توڑنے کا کام کیا، جس کے باعث حکومت کے لئے مظاہروں کو دبانا آسان ہوگیا۔ یوں حکمران طبقے کے جوابی حملے کی راہ ہموارہو سکتی ہے۔

قومی سطح کی تنظیموں اور عوامی حکمت عملی کی کمی ایک واضح کمزوری ہے جس پر تحریک کولازمی قابو پانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ منظم سرمایہ دار ریاستی مشین کا نفاق اور بدنظمی سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ آگے کا راستہ پچھلے سا ل کی تحریک کے بہترین طریقوں پر تعمیر کرنا ہے: طلبہ کی بڑی جمہوری اسمبلیاں جہاں ہر کسی کو آزادانہ بات کرنے اور رائے دینے کی اجازت ہو۔ صرف اسی طریقے سے تحریک کے لئے ضروری رفتار اور آگے بڑھنے کے لیے درکار قوتوں کو متوجہ کیا جا سکتاہے۔ ان اسمبلیوں کو نیشنل اسٹوڈنٹس کانگریس کے لیے نمائندگان منتخب کرنے چاہییں جہاں تمام مطالبات کو سطح پر آگے بڑھایا جاسکے۔ اتحاد اور نظم و ضبط ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ نفاق اور بکھرے رہنے کا صرف یہی مطلب ہوگا کہ مظاہرین کے انفرادی گروہوں کو جدا کرنا آسان ہوگا اور نتیجتاً تحریک مجموعی طور پر کمزور ہوگی۔

سیاسی جدوجہد

قومی ہم آہنگی کی کمی سیاسی کمزوری بھی پیدا کرتی ہے۔ جب تک یونیورسٹی فیسوں کا خاتمہ تحریک کی بنیاد ہے، ایک پروگرام کا سوال برقرار رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک ہم آہنگ نہیں بلکہ متضاد سمتوں میں حرکت میں ہے۔ ایک کیمپس کے مخصوص حالات اور مطالبات دوسرے سے مختلف ہیں۔ وٹس، رہوڈز، سٹیلن بوش اور یو۔ سی۔ ٹی جیسی یونیورسٹیوں کے حالات روایتی سیاہ فام یونیورسٹیوں جیسے TUT، CPUT، UWC، VUT وغیرہ سے مختلف ہیں۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سماج کی مختلف پرتیں ہمیشہ انقلابی نتائج تک اپنے ٹھوس حالات کی وجہ سے پہنچتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مقامی اور انفرادی مطالبات کو ایک عمومی پروگرام میں ڈھالتے ہوئے تحریکوں کو جوڑا جائے جو کہ تحریکوں کو قومی پیمانے پر متحد اور نئی پرتوں کو متوجہ کر سکتا ہے۔ تحریک جتنی علاقائی بنیادوں تک محدود ہوگی، ایسا ایک پروگرام تشکیل دینا اتنا ہی مشکل ہے۔

تحریک کا آغاز تو ٹیوشن فیس میں اضافے سے ہوا تھا، مگر آہستہ آہستہ تحریک غریب طلبہ کے لیے ٹیوشن فیس کا فنڈ، یونیورسٹی کی افسر شاہی کی تنخواہوں میں کمی، ٹھیکیداری کا خاتمہ، اعلی تعلیم کے لیے سرکاری امداد میں اضافہ، واجب الادا تعلیمی قرضوں کی منسوخی کے ساتھ ساتھ نسلی تفریق کے مسائل جیسے مطالبات تک پھیل گئی۔ لیکن یہ مطالبات مشترکہ نہیں ہیں اور نہ ہی جس مرحلے پر تحریک موجود ہے اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ پولیس کے پر تشدد کریک ڈاؤن اور سرمایہ دار طبقے کی تحریک کو کچلنے کی مربوط کوششوں نے تحریک کو ابتدائی مقاصد اور مطالبات سے آگے سیدھا زوما حکومت کے خلاف جدوجہد کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سکیورٹی کلسٹر اور وزیر تعلیم کو ہٹانے جیسے مطالبات تحریک کو مرکوز رکھنے میں مدد کریں گے اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کو متوجہ کریں گے۔ لیکن تحریک کے مطالبات، جیسے کہ وہ موجود ہیں، بنیادی طور پر تحریک کے ابتدئی مراحل ظاہر کرتے ہیں۔

محنت کش طبقہ

نوجوان طبقاتی جدوجہد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن وہ براہِ راست سماج میں معیشت اور طاقت کے ستونوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کہا، طلبہ مظاہرے وسیع طبقاتی جدوجہد کا حصہ ہیں، جو پھر سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا نتیجہ ہے۔ وسیع پیداواری عمل میں اپنے کردار کی وجہ سے، مزدور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریک کا صرف طلبہ کی ہڑتال تک محدود ہونا ان مظاہروں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کو تو کام کرنے سے روک دیا تھا مگر معیشت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہوسکے۔ دکانیں، بینک، سپرمارکیٹس اور فیکٹریاں سب معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔ اس لیے یہ طلبہ تحریک کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ غریبوں اور مزدوروں کی وسیع پرتوں کو جوڑنے کے راستے تلاش کرے۔

پچھلے سال تحریک کی جدوجہد براہِ راست یونیورسٹیوں کی نجی شعبے کو حوالگی کے خلاف تھی۔ محنت کش طبقے کی طرف طلبہ کا یہ فطری جھکاؤ آگے کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ کئی یونیورسٹیوں میں واضح فتوحات حاصل کی گئیں۔ اس طریقہ کار کو ترویج دینا، کمپین کا دائرہ کار بڑھانا اور تحریک کا معیار بلند کرنا ضروری ہے۔

محنت کشوں کی طرف ایک موثر رجحان تشکیل دیتے ہوئے طلبہ جدوجہد کو محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا انتہائی ضروری ہے۔ سب سے پہلے، ورکرز کے بنیادی مطالبات بشمول لیبر ٹھیکیداروں کا خاتمہ، ایک منصفانہ اجرت اور عوامی فلاح کے بجٹ میں کٹوتیوں کا خاتمہ، طلبہ کے پروگرام کا بنیادی حصہ ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبہ نمائندے تمام بڑی فیکٹریوں اور بڑے اداروں میں بھیجے جائیں جو محنت کشوں سے حمایت کی اپیل کریں۔

ایک انقلابی قیادت

جو نوجوانوں کی جدوجہد کی اس بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی واضح پروگرام نہیں انہیں یہ بیان کرنا چاہیے کہ ویسا پرگرام کہاں سے آنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام تنظیمیں جو جنوبی افریقہ کی عوام کی نمائندگی کے لیے بنائی گئی تھیں، ان میں سے کوئی بھی جدوجہد میں اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

افریقن نیشنل کانگریس کی قیادت جو حکومت میں بالا دست ہے سابقہ عہد میں نوجوانوں اور محنت کش طبقے پر حملوں کی سب سے بڑی مجرم ہے۔ اس کے آپس میں لڑنے والے دھڑے مکمل طور پر عوام کی روز مرہ کی زندگی سے لاتعلق ہیں۔ “کمیونسٹ” بھی کابینہ کے وزراکے طور پر حکومت سے مل چکے ہیں اور محنت کشوں اور طلبہ کے مادی حالات پر بے رحمانہ حملے میں شریک ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کے کابینہ کے وزیر کے طور پر مفت تعلیم کے مطالبے کے خلاف بڑھ کر لڑ رہا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اور تنظیموں کے یوتھ ونگز جیسا کہ افریقن نیشنل کانگریس یوتھ لیگ کے درمیان فاصلہ بے پناہ بڑ ھ چکا ہے۔ EFF کے لیڈر تحریک کی حمایت کرنے والے واحد لوگ ہیں، لیکن Julius Malema تحریک کو اپنے تنگ نظر مطلب کے لیے استعمال کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس کی ڈیموکریٹک الائنس اور ANC کے سیکرٹری جنرل منتاشے جیسے سرمایہ دار عناصر کے ساتھ حالیہ معاشقے اور اس کے تازہ مقامی الیکشن کے لیے کمزور پروگرام نے EFF کو سب سے زیادہ ایڈوانس نوجوانوں میں غیر مقبول بنا دیا ہے۔

ٹریڈ یونینوں نے بھی محنت کشوں اور طلبہ کی جدوجہدوں کو جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ COSATU کے رائٹ ونگ لیڈران نے چیمبر آف مائینز کی طرف ایک کم اہم مارچ میں 14 اکتوبر کو حصہ لیا۔ لیکن انہوں نے تحریک کو آگے بڑھانے کا کوئی واضح پروگرام مہیا نہیں کیا۔ حقیقت میں، مارچ کان کنی کے شعبے کے مالکان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد کی اپیل تک محدود ہو کر رہ گیا۔ یہ COSATU کے ذمہ داران کی طرف سے صورتحال سے بھاپ نکالنے اور موثر انداز سے طلبہ کو روکے رکھنے کی کوشش کی خوبصورت مثال تھی۔ لیفٹ ونگ کی ٹریڈ یونین موومنٹ خاص طور پر NUMSA کو اس نے بہت کم مدد دی ہے۔ اگرچہ اس نے طلبہ کی زبانی طرفداری کی ہے لیکن اس نے عمل میں تحریک کی اپنی کمزوریوں کو دور کرے کے لیے کوئی مددنہیں کی۔ اس نے سکیورٹی فورسز کے پرتشدد کریک ڈاؤن اور ریاست کی طرف سے نسل پرستی کے عہد کے حربوں کے استعمال کے خلاف بھی کسی بھی طرح کی تگ ودو نہیں کی ہے۔

پچھلے تین سالوں سے، NUMSA نے سوشلسٹ پارٹی بنانے کی بات کی ہے۔ اگر یہ حقیقت ہو جائے، یہ پوری سیاست کی شکل بدل دے گی۔ اس کے لیڈران ایک سنہری موقع کھو رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کی ایک لڑاکا تنظیم کے آغاز کے لیے حالات نہایت سازگار ہیں۔ نوجوانوں کی سب سے زیادہ انقلابی پرتوں کی سڑکوں پر موجودگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ جنوب افریقی عوام جدوجہد کے راستے پر جا رہے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی تحریکیں متحد کرنے اورانہیں ان کے مسائل کی اصل وجہ، سرمایہ دارانہ نظام سے برسرِ پیکار کرنے کے لیے انقلابی قیادت نہیں ہے۔

سوشلزم کے لیے جدوجہد

1994ء سے یونیورسٹیوں میں اندراج دگنے سے زیادہ ہوئے ہیں۔ غریب طلبہ کو قرضوں کی پیشکش کے لیے، نیشنل اسٹوڈنٹس فائننشیل ایڈ سکیم قائم کی گئی۔ تب سے NSFAS نے 14 لاکھ سے زائد کی مدد کی ہے۔ لیکن اگرچہ یونیورسٹیوں میں داخلوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے مگر حکومت کی طرف سے بجٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ روکنے کی کوشش میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد کم ہوئی ہے۔ 2000 ء سے 2012ء کے دورانیے میں ریاست کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد حقیقی معنوں میں جی ڈی پی کا 1.1 فیصد کم ہوئی۔ 2015 ء میں اعلیٰ تعلیم پر خرچ کیا گیا جی ڈی پی کا حصہ 0.7 فیصد تک گر گیا جو کہ عالمی معیار کے مطابق کم ہے۔ شارٹ فال کو کم کرنے کے لیے، یونیورسٹیوں نے ٹیوشن فیس بڑھا دی ہے۔

اسی وقت، طلبہ پر بوجھ 24 فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہو گیا۔ 2012ء کے آخر میں طلبہ کا واجب الادا قرضہ 2.6 ارب رینڈ سے بڑھ کر 3.4 ارب رینڈ ہو گیا۔ NSFAS بھی بحران میں چلی گئی۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کا بحران اور قرضوں کی واپسی کی نا اہلی کا مطلب ہے کہ NSFAS کو واجب الادا بقایا قرضہ 20 ارب رینڈ تک بڑھ چکا ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری 55 فیصد ہو گئی جس کا مطلب ہے کہ بہت سے نئے گریجوایٹس محنت کی منڈی میں جذب نہیں ہو سکتے۔ نام نہاد ’ہنر کا فقدان ‘جس کی معیشت میں ضرورت ہوتی ہے درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ بہت بڑی انسانی قابلیت ضائع ہوتی ہے کیونکہ یہ نظام اس کا بہترین استعمال نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے جو نظام میں اصلاحات کے لیے ابتدائی اقدام کے طور پر شروع ہوئے تھے سرمایہ دارانہ نظام کے قوانین سے ٹکرا گئے ہیں۔ بحران نے ایک مرتبہ پھر اصلاح پسندی کی کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔

طلبہ اور محنت کش طبقے کے مطالبات ذرائعِ پیداوار کی نجی ملکیت کے ساتھ براہِ راست تصادم میں ہیں۔ سماج کی تمام دولت معمولی اکثریت، سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں ہے۔ باوجودیکہ یہ تمام دولت محنت کش طبقے نے پیدا کی ہے۔ یہ اس وجہ سے محنت کش طبقے کے لیے لازمی ہے کہ معیشت کی ملکیت سرمایہ دارانہ طبقے کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے معمولات کی اس حالت کا خاتمہ کرے۔ فریڈم چارٹر کہتا ہے: ’عوام لازمی ملک کی دولت بانٹیں گے، زمین کے نیچے معدنی دولت، بینک اور اجارہ دارانہ صنعتیں مجموعی طور پر عوام کی ملکیت میں منتقل کیے جائینگے‘۔ صرف سرمایہ داروں کو بے دخل کرتے ہوئے یہ ممکن ہوگا کہ ملک کے بڑے وسائل تمام سماج کے استعمال میں لائے جائیں نہ کہ چندافراد کے فائدے کے لیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.