سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی، حقیقت کیا ہے؟

|تحریر: آنند پرکاش|

فروری کے مہینے میں سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کا بِل متفقہ طور پر منظور ہوگیا۔ مختلف سیاسی حلقوں میں اس کی خوب چرچا کی گئی اور پیپلز پارٹی حکومت کے سندھ میں جاری محنت کشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کا میڈیا سیل تو خیر اس میں مصروف تھا ہی مگر کئی اور نام نہاد بائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے بھی تعریفوں کے پُل باندھ دیے گئے اور یہ تاثر د ینے کی کوشش کی گئی کہ اب طلبہ کو تمام حقوق مل گئے ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ 1984ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگنے کے بعد پیپلز پارٹی تین بار اقتدار میں رہ چکی ہے جس میں ایک تو پانچ سالہ اقتدار بھی تھا، تو پھر ان ادوار میں مستقل بنیادوں پر طلبہ یونین کیوں بحال نہیں کی گئی؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست پاکستان کی یہ پالیسی رہی ہے، کہ طلبہ کو کسی بھی صورت منظم نہ ہونے دیا جائے تاکہ عالمی سامراجی اداروں جیسے آئی ایم ایف کی ایما پر شعبہ تعلیم کو باآسانی پرائیویٹ ہاتھوں میں منتقل کیا جا سکے۔ ریاست کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح تعلیم اور صحت کو سرکاری کنٹرول سے نکال دیا جائے تا کہ ان پر خرچہ نہ کرنا پڑے۔ مگر یہ سب کرنے کیلئے پہلے طلبہ کے اتحاد کو توڑنا لازمی تھا جس کیلئے طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی تھی، اور پھر اسے آج تک بحال نہیں کیا گیا۔ اس ملک میں طلبہ تحریک کی بہت ہی بھرپور انقلابی روایات ہیں اور انہوں نے عوام دشمن اقدامات اور خونی آمروں کو نہ صرف للکارا ہے بلکہ محنت کشوں کے ساتھ مل کر ان کو اکھاڑا بھی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ یونین کی بدولت تعلیمی اداروں سے انقلابی نظریات سے لیس ایسے نوجوان نکلتے تھے جو حکمرانوں کی پالیسیوں پر کڑی اور تنقیدی نگاہ رکھتے تھے، ہر نا انصافی پر سوال اٹھاتے تھے، اور بالخصوص محنت کش طبقے کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ طلبہ کے اس کردار سے خوفزدہ ہو کر ضیا الباطل نے اس پر پابندی لگائی جو بعد کے نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی موجود رہی۔ ایک اور اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ ملک میں نظریاتی سیاست کے زوال کے باعث طلبہ کی کوئی ملک گیرتحریک موجود نہ تھی جو حکمرانوں پر دباؤ ڈالتی، لہٰذاحکمران اس عوام دشمن اقدام کو طاقت کے زور پر قائم رکھے ہوئے ہیں جبکہ تعلیم دشمن اقدامات کا سلسلہ تمام انتہائیں عبور کر چکا ہے۔

پھر اب کیوں پیپلز پارٹی نے سندھ میں طلبہ یونین بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟ دراصل گزشتہ چند سالوں سے فیسوں میں ہونے والے بے تحاشہ اضافے سمیت دیگر مسائل کے خلاف ملک بھر میں طلبہ کے کئی چھوٹے بڑے احتجاج ہوئے، جن میں کرونا وبا کے عرصے میں خاصااضافہ دیکھنے کو ملا۔ ان احتجاجوں میں بائیں بازو کے کارکنان، جن میں پی وائی اے کے کارکنان سرفہرست ہیں، نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ پی وائی اے نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں لاتعداد سٹڈی سرکلز اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جن کی بدولت طلبہ تک فوری مسائل کے حل کیلئے مزاحمت کا رستہ اپنانے اور اس مزاحمت میں منظم ہونے کیلئے طلبہ یونین کی اہمیت کا پیغام بھی لے جا یا گیا۔ اس سب کی بدولت طلبہ میں بڑی تیزی کے ساتھ سوشلزم کے انقلابی نظریات بھی مقبول ہونا شروع ہوئے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکمران طبقے کے سنجیدہ لوگوں کی جانب سے اب یہ پالیسی اپنائی جا رہی ہے کہ اس سے پہلے کہ طلبہ کی ملک گیر تحریک جنم لے اور اپنے زور بازو پر فیسوں کے خاتمے سے لے کر طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبات منظور کروا لیں، اوپر سے پہلے ہی فی الحال طلبہ یونین کو مکمل کنٹرول کے ساتھ جزوی طور پر بحال کرنے کا ناٹک کیاجائے۔ اس سے یہ تاثر بھی جائے گا کہ حکمران کتنے جمہوریت پسند اور طلبہ دوست ہیں اور معاملات بھی کنٹرول میں رہیں گے۔ البتہ اس فیصلے میں پیپلز پارٹی کے قائدین کی مکارانہ انداز میں نوجوانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش اور اقتدار کی بندر بانٹ میں مزید حصہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ اسی مذموم منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی کو ایک ”جمہوری چہرے“ کے طور پر سامنے لانے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ خیر بنیادی وجہ شعبہ تعلیم کو بیچنا اور تعلیم دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنا ہی ہے۔ لہٰذا پہلے صوبہ سندھ میں اس کا ٹیسٹ کیا جائے گا اور اس کے بعد طلبہ کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے آگے کی منصوبہ بندی کی جائے گی اسی طرح سندھ حکومت کی جانب سے طلبہ یونین کا ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کی ذمہ داری تعلیمی اداروں کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں انتظامیہ کی مرضی اور کنٹرول کا سیٹ اپ بنوایا جائے جو یقینا یونیورسٹی میں موجود سوسائٹیوں کی طرز پر ہی مشتمل ہوگا۔ گو کہ اس پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی طلبہ کے خدشات اور تحفظات موجود ہیں۔

اس بل کے اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد بھی سندھ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد تمام تر جمہوری آزادیوں کے ساتھ ممکن دکھائی نہیں دیتا اور اس میں حکمران طبقہ اپنے مختلف اداروں بشمول عدلیہ، حکومتی اہلکاروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ملی بھگت سے مختلف رخنے ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کو یونین بحالی کا لالی پاپ دے کر فیسوں میں اضافے اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ شدت اختیار کرے گا۔ اسی طرح ریاستی اداروں کی جمعیت جیسی پالتو غنڈہ گرد طلبہ تنظیموں کی بدمعاشی کو بھی کھلی چھوٹ دی جائے گی اور انہیں استعمال کرتے ہوئے عام طلبہ کو یونین سے متنفر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سندھ میں طلبہ یونین کے نام پر اگر کچھ تھوڑی بہت سرگرمی کی انتہائی محدود اجازت دی بھی جاتی ہے تو وہ بھی طلبہ تحریک کے دباؤ کے ذریعے ہی ممکن ہو گی اور اس سرگرمی میں بھی اپنے پالتوغنڈوں کے ذریعے ہنگامے کروا کر اس جمہوری ادارے کو بدنام کروانا اس ملک کے حکمرانوں کے لیے آزمودہ حربہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود تمام طلبہ کو یونین کے انتخابات منعقد کروانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ بنیادی جمہوری حق حاصل کرتے ہوئے حکمران طبقے کے تمام ہتھکنڈوں کا جواب دینا چاہیے۔ طلبہ کے منتخب نمائندوں کے لیے مضحکہ خیز طور پر ضابطہ اخلاق تیار کرنے کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ کو دی گئی ہے جو خود طلبہ کے جمہوری حقوق پر حملہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی یونیورسٹی انتظامیہ خوفزدہ ہے اور طلبہ کو انتہائی محدود حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں اور انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت تمام حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔ حکمرانوں کو خوف ہے کہ ایک دفعہ طلبہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے سفر پر چل نکلے تو یہ اس ظالمانہ اور استحصالی نظام کو گرانے کی جدوجہد کا بھی آغاز کر سکتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب اگر یہ یونین انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور طلبہ پر مزید قدغنیں لگائی جاتی ہیں تو بھی طلبہ تحریک کے ابھرنے کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہے کہ انتہائی مہنگائی کے عالم میں جب دو وقت کی روٹی پوری کر نا ناممکن ہوتا جا رہا ہے، طلبہ بے روزگار پھرنے کیلئے خاموشی کے ساتھ سالانہ لاکھوں روپوں کی فیسیں ادا کرتے رہیں گے۔ ایک دفعہ طلبہ اپنے جائز حقوق کے لیے متحرک ہو گئے تو یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ جنسی ہراسانی، انتظامیہ کی غنڈہ گردی، فیسوں میں اضافے سمیت دیگر تمام مسائل کے خلاف مجتمع شدہ غصہ ایک آتش فشاں کی صورت پھٹے گا، جسے پھر شو کاز نوٹسز، سکیورٹی اہلکاروں کے دھونس اور جبری بے دخلیوں کے ذریعے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

اس تمام تناظر میں ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ یونین کو ملک بھر میں مستقل بنیادوں پر فوری طور پربحال کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں انتخابات کے انعقاد کا سلسلہ اب شروع کیا جائے۔ ضابطہ اخلاق بنانے کی قدغن ویسے ہی مضحکہ خیز ہے۔ ملک میں پہلے سے موجود تمام تر قوانین اور آئین موجود ہونے کے باعث کسی نئے ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کچھ بنانا بھی ہے تو اس میں تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کی جمہوری رائے شامل ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں یونین انتخابات میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی اور پیپلز پارٹی کے ان تاخیری حربوں کیخلاف وسیع تراحتجاجی سلسلے کا آغاز کرنا طلبہ کا اخلاقی اور قانونی حق ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.