یوتھ کنونشن بہاولپور: مشال خان کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم

|رپورٹ : پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

16مئی 2017ء کو دربار محل ہال نزد یونیورسٹی چوک بہاولپور میں4 بجے پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ بہاولپور میں منعقد ہونے والا یہ یوتھ کنونشن طلبہ حقوق کی جنگ لڑنے کی پاداش میں 13اپریل کو قتل ہونے والے مشال خان کو منسوب کیا گیا تھا۔ کنونشن کا انعقاد نہایت ہی مشکل حالات میں کیا گیا۔ ریاست کی جانب سے جاری نام نہاد ہشت گردی کے خلاف لڑائی کے ناٹک کی وجہ سے آج ہر شہر میں ہی دفعہ 144 نافذ ہے جس کا مقصد دہشت گردوں کو روکنا قطعاً نہیں ہے بلکہ ان دہشت گردوں اور نجکاری، فیسوں میں اضافے، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔ اس تمام تر دہشت گردی کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے۔ چاہے وہ سوات ہو، بلوچستان ہو یا بہاولپور ہر جگہ پولیس، فوج اور بیوروکریسی کا صرف ایک ہی کام ہے کہ عوامی مسائل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا جائے۔ دہشت گردی کیخلاف جاری اس نام نہاد جنگ کو بنیاد بناتے ہوئے بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ نے کنونشن کے انعقاد کو روکنے کے لئے بے تحاشا مشکلات کھڑی کیں۔ نجی ہالوں کی نسبت کرایہ کم ہونے کی وجہ سے کنونشن کیلئے پہلے پریس کلب بہاولپور کا انتخاب کیا گیا۔ پریس کلب انتظامیہ کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ جگہ مل جائے گی جس کے بعد کنونشن کی تیاریاں شروع کردی گئیں اور 16مئی بمقام پریس کلب کے نام سے لیف لیٹ بھی چھپوا لئے گئے اور کمپین شروع کردی گئی۔ مگر کچھ دنوں بعد انتظامیہ نے سیکیورٹی خدشات کا ناٹک شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ ضلعی انتظامیہ سے اجازت نامہ لے کر آئیں جو کہ کبھی بھی نہیں ملنا تھا۔ سونے پہ سہاگہ پریس کلب انتظامیہ نے معمول کی نسبت دگنا کرایہ طلب کیا۔ کافی دنوں تک معاملہ لٹکائے رکھنے کے بعد پریس کلب انتظامیہ نے 11مئی کو صاف انکار کر دیا گیا۔

اس کے بعد بہاولپور کی پروگریسو یوتھ الائنس کی ٹیم کو فوری طور پر متبادل جگہ کا نتظام کرنا پڑا اور پریس کلب کے قریب ہی موجود ایک پرائیویٹ ہال کرایہ پر لیا گیا۔ جبکہ کنونشن میں محض 5 دن رہ گئے تھے۔ کنونشن کیلئے پوسٹر، دعوت نامے، لیف لیٹس، فنڈز، پروگرام کیلئے شاعری، موسیقی اور تھیٹر وغیرہ الغرض تمام تر تیاریاں انہی 5دنوں میں کرنا تھیں۔ بہاولپور کی ٹیم نے اتنے قلیل عرصے میں نا صرف یہ سب تیاریاں مکمل کیں بلکہ طلبہ ایک بہت بڑی تعداد تک PYA کا پیغام بھی پہنچایا۔

ان تمام تر مشکلات کے بعد بالآخر 16مئی کو کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ کنونشن میں 200سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ کنونشن میں شرکت کرنے والے طلبہ کا تعلق مختلف تعلیمی اداروں سے تھاجن میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولپور، یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب، ایس ای کالج بہاولپور، علامہ اقبال کالج بہاولپور، پوسٹ گریجویٹ کالج بہاولپور، پنجاب کالج بہاولپور اور دیگر کے طلبہ شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملتان اور ڈیرہ غازیخان سے بھی طلبہ کا ایک وفد کنونشن میں شریک تھا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض اخرم اسدی نے سرانجام دیے۔ کنونشن کے پہلے مقرر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طالب علم اشفاق تھے۔ اشفاق نے آج طلبہ کے مسائل، ان کی وجوہات اور ان کو حل کرنے کے لائحہ عمل اور طریقہ کار پر بات کی اور پروگریسو یوتھ الائنس کے تعارف اور اغراض و مقاصد پر بات کی۔اس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، بی بی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے عروسہ خان، ڈیرہ غازیخان سے آصف لاشاری، اسلامیہ یونیورسٹی کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ سے معراج ہاشمی اورگلستان ٹیکسٹائل ملز سے ساجد، گورنمنٹ کالج بہاولپور سے فیض انیب اور ایمرسن کالج ملتان سے راول اسد نے خطاب کیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں ہونے والے قتل، طلبہ مسائل، ان کی وجوہات اورریاستی ڈرامہ بازی پر بات کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ مشال خان ایک نڈر طالب علم تھا جو طلبہ کے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہا تھااور یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن کو ننگا کر رہا تھا۔ بس یہی اس کا سب سے بڑا گناہ تھاکہ وہ دھرتی پر موجود خداؤں کو للکار رہا تھا اور بے نقاب کر رہا تھا۔ اسی گناہ کی پاداش میں اسے قتل کروایا گیا۔ مشال کے قاتلوں میں سب سے پہلے پاکستانی ریاست شامل ہے جو ڈالروں اور ریالوں کیلئے شدت پسندی کی سوچ کو نا صرف ابھارتی ہے بلکہ ان دہشت گردوں کو مکمل امداد بھی فراہم کرتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ بھی مکمل طور پر اس قتل میں شامل ہے جس کو اپنی کرپشن پر سے پردہ اٹھنے کا خوف تھا اور اس خوف کی وجہ سے اس نے ایک چراغ کو بے دردی سے بجھا دیا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی بھی ریاست کا ایک گھناؤنا جرم ہے جس کی وجہ سے مشال خان کے قتل جیسے بے شمار واقعات ہو رہے ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غنڈوں کی فوج رکھی گئی ہے جس کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ طلبہ کو مسلسل یہ احساس دلائے کہ بہت خطرہ ہے۔ اس کا کام طلبہ کو اکٹھا ہونے سے روکنا ہے۔نام نہاد سیکیورٹی کے یہ غنڈے محض طلبہ کو ہی ڈرا دھمکا کر منتشر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات کو روکنا اس کا کام ہی نہیں ہے۔ اے پی ایس اور مشال خان کا واقع اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ آج طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی اور اپنے یونٹ بنانے ہوں گے جو کسی بھی قسم کے دہشتگردی کے واقعات کیلئے پہلے سے ہی تیار ہوں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی ریاست کی جانب سے ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد طلبہ کو سیاست سے دور رکھنا اور طلبہ کو منظم ہونے سے روکنا ہے۔ مگر یہ پابندی صرف ان طلبہ کیلئے ہے جو اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں ،ان غنڈوں کیلئے قطعاً نہیں جن کا کام کاٹن کا سوٹ پہن کر اور بڑی بڑی مونچھیں رکھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں عام طلبہ کو ڈرانا دھمکانا، کینٹینوں پر مفت کھانا کھانا اور طلبہ کی حقیقی لڑائی کو ختم کرانا ہوتا ہے۔ نام نہاد طلبہ تنظیموں جیسے ایم ایس ایف، پی ایس ایف، جمعیت، اے ٹی آئی اور آئی ایس ایف وغیرہ کو ہر تعلیمی ادارے میں انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور ان کا کام انتظامیہ کے مختلف دھڑوں کی دلالی کرنا ہوتا ہے۔طلبہ یونین پر پابندی کا سب سے بڑا فائدہ تعلیمی اداروں کی کرپٹ انتظامیہ اور ریاست کو ہے اور اس کا نقصان طلبہ اٹھا رہے ہیں۔ آج طلبہ کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ طلبہ اپنے حقوق صرف لڑ کر ہی حاصل کر سکتے ہیں یہ حکمران کبھی بھی ان کے حقوق انہیں تحفے میں نہیں دینگے اور وہ لڑائی صرف اور صرف پورے ملک میں منظم ہو کر ہی لڑی جا سکتی ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔ تعلیم کا کاروبار آج سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور چین سے لئے گئے ان حکمرانوں کے سامراجی قرضوں کو واپس کرنے کیلئے آئے روز سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے یا پھر فیسوں میں اضافہ کر کے دوبارہ محنت کشوں پر ہی اس کا عذاب ڈالا جا رہا ہے۔ تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے اور عام آدمی کیلئے ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہایت ہی مشکل سے اگر کوئی طالب علم ڈگری حاصل کر بھی لے تو نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ان تمام حالات میں آج طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم ہونا ہوگا اور منظم ہو کر لڑائی لڑنا ہوگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس آج پورے ملک میں طلبہ کیلئے واحد پلیٹ فارم ہے جو درست نظریات پر قائم ہے اور حقیقی معنوں میں طلبہ کو منظم کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پروگرام میں موسیقی، انقلابی شاعری اور تھیٹر بھی شامل تھے۔ استاد ظفر علی خان نے نظم ’’میں بھی تو مشال ہوں‘‘ نئی دھن کے ساتھ پیش کی اور شرکاء سے خوب داد وصول کی۔ اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی کے نوجوانوں کے ایک بینڈ (ڈسٹورشن بینڈ) نے انقلابی گیت گا کر شرکاء کو بہت محظوظ کیا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے روہما فاطمہ اورحمنہ مشعل نے انقلابی شاعری پیش کی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ڈرامہ سوسائٹی نے ایک تھیٹر پیش کیا۔

کنونشن کے اختتام پر پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور کی نومنتخب باڈی سے فضیل اصغر نے حلف لیا۔ نومنتخب باڈی میں نعمان قادر بطور صدر، عروسہ خان بطور نائب صدر، خالد بطور جنرل سیکرٹری، فیض انیب بطور جوائنٹ سیکرٹری، ہنزہ گل بطور وومن سیکرٹری، جواد منصور بطور فنانس سیکرٹری، اشفاق گجر بطور انفارمیشن سیکرٹری، غلام مصطفی بطور کلچرل سیکرٹری اور حمزہ مشاتق بطور سٹڈی سرکل انچارج ذمہ داریاں سرانجام دیں گے۔

کنونشن کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس آج پورے ملک میں طلبہ کو منظم کر رہی ہے اور پورے جوش و جذبے کیساتھ یہ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔پی وائے اے کے کارکنان آج ملک کی ہر بڑی یونیورسٹی میں موجود ہیں اور وہاں طلبہ کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں محنت کشوں اور طلبہ کو ذلیل و رسو اکر رہا ہے اور پوری دنیا میں اس کے خلاف محنت کشوں اور طلبہ کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام سے لڑ کر ہی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی واحد راہ نجات ہے۔ اس لڑائی کیلئے ہمیں طلبہ کو متحد کرتے ہوئے اور طلبہ تحریک کو مزدور تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرناہوگا۔ قدم بڑھاؤ دوستو آخری فتح ہماری ہوگی!

کنونشن کے اختتام پر مشعل خان کے قتل کے خلاف اور مفت تعلیم، روزگار اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے ہال سے یونیورسٹی چوک تک ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے مشعل خان کے بہیمانہ قتل اور قاتلوں کی گرفتاری کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔ یونیورسٹی چوک ’’ تعلیم کی نجکاری بند کرو‘‘، ’’طلبہ یونین بحال کرو‘‘، انقلاب! انقلاب! سوشلسٹ انقلاب!‘‘، مشعل کی راہ ہماری ہے! جنگ ہماری جاری ہے! کے نعروں سے گونجتا رہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.