سندھ یونیورسٹی (جامشورو): پروگریسو یوتھ الائنس یونٹ کا اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا اعلان!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،سندھ یونیورسٹی|

آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ انسانی تاریخ کا بھیانک ترین عہد ہے۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کرکے زوال پذیری کے اس نہج پر ہے کہ اس کا خاتمہ کرنا ناگزیر بن چکا ہے، جس کے سبب سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں تباہی و بربادی پھیلا رہا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی دولت دن بدن بڑھتی جارہی ہے جبکہ انسانی آبادی کی اکثریت بھوک، لاعلاجی، مہنگی تعلیم، بیروزگاری اور غربت کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔

مختصراً حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں، طلبہ اور کسانوں کے پر ڈال رہا ہے۔جس کے سبب مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور لاعلاجی سمیت دیگر مسائل میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ اسی تسلسل میں تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی جارہی ہیں، روزگار کے مواقع ناپید ہورہے ہیں اور طلبہ کو ان مسائل کے خلاف متحد ہونے سے روکنے کیلئے جبر،غنڈہ گردی اور لسانی گروہوں کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔ معاشی بحران کا اظہار سماج میں موجود اخلاقی گراوٹ کی صورت میں بھی نکل رہا ہے۔ ہر روز ٹی وی چینلز سے لیکر سوشل میڈیا پر بچوں کے ریپ او جنسی ہراسانی کے واقعات گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کا بھیانک ترین اظہار حالیہ دنوں میں چانڈکا میڈیکل کالج میں جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی نمرتا چندانی اور نوشین کاظمی کے ڈی این اے رپورٹس تھے جس میں ثابت ہوچکا کہ دونوں طالبات کو ایک ہی درندے نے اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا۔ یہ سندھ سمیت پاکستان بھر کے طلبہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اسی طرح پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ پروین بلوچ کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ درسگاہیں مقتل گاہوں میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں ہی اگر دیکھا جائے تو لاتعداد جنسی ہراسانی، جبری مذہب تبدیلی اور ریپ کے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں خود مقامی وڈیرے، وزراء، ملا، پیر اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور انتظامیہ کے دلال لوگ ملوث ہوتے ہیں مگر عہدوں کی طاقت کے استعمال سے ان واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔

مگر ہراسانی کا مسئلہ ان چند ایک رپورٹ ہونے والے کیسز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ کلاس رومز سے لے کر بسوں اور کینٹینوں تک طالبات کی ہراسانی ایک معمول کی بات ہے اور اس غلیظ فعل کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہوئے انتظامیہ اور وحشی اساتذہ بخوبی سرانجام دیتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ اسی طرح ایک تو نمبروں کا خوف دوسرا بدنامی کا خوف طالبات کو اس جبر کو زبان پر مہر لگا کر برداشت کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مگر یہ ہراسانی کا معاملہ نہ صرف طالبات تک محدود ہے اور نہ ہی صرف جنسی ہراسانی تک محدود ہے بلکہ طاقت کے زور پر طلبہ کو ہراساں کرنا اور اپنی بدمعاشی کی دھاک بیٹھانا بھی غنڈہ گرد تنظیموں، اور انتظامیہ و سیکیورٹی کے عملے کا معمول بن چکا ہے۔ جیسا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کو کلچرل ریلی اور فیسوں کیخلاف احتجاج کرنے کے پاداش میں شوکاز نوٹسز کے ذریعہ، ہاسٹل میں داخلہ بند کر دیا گیا۔
ان تمام تر ہراسانی اور جبر کیخلاف طلبہ کی مزاحمت کو روکنے، ان پر خوف قائم رکھنے کیلیے انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹیوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

ٹرانسپورٹ کی حالت بھی دگرگوں ہے، ناقص بسوں کی وجہ سے ناجانے کتنے طالب علم حادثات میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان تمام تر مسائل کے پیش نظر، پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے طلبہ کو خود ان تمام مسائل کے خلاف منظم ہونا ہوگا۔ جنسی ہراسانی کے خاتمے کیلئے طلبا و طالبات پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی۔

اسی طرح فیسوں کے اضافے کو روکنے، ہاسٹلز اور بسوں کی تعداد میں اضافے اور دیگر تمام سہولیات کے حصول کیلئے طلبہ کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہونا ہوگا جو طلبہ یونین کے بغیر ممکن نہیں۔ سندھ گورنمنٹ نے حال ہی میں طلبہ یونین بحالی کا بل منظور کیا ہے جو کہ ایک سرا سر جھوٹ ہے کیونکہ اس پر عمل درآمد ہوتا کہیں نظر نہیں آ رہا۔ سینکڈوں ایسے قوانین اور بل پاس ہوچکے ہیں مگر ان پر کسی قسم کا عمل نہیں کیا گیا جسکی سب سے بڑی مثال چائلڈ لیبر کے خلاف بننے والے قوانین ہیں۔ ان قوانین کے ہونے کے باوجود لاکھوں بچے محنت کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقے کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کرنا جو خود ان کیلئے خطرہ ہے صرف ایک ڈھونگ ہے اور الیکشن کیمپئین کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لیے طلبہ کو ان مکرار حکمرانوں سے کسی قسم کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور اپنے زورِ بازو متحد ہو کر ا طلبہ یونین کی بحالی کیلئے جدوجہد کو تیز کرنا چاہیے۔

ان تمام مسائل کے گرد پروگریسو یوتھ الائنس سندھ یونیورسٹی کے یونٹ نے 8 مارچ کو اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ دوپہر 12 بجے آرٹس فیکلٹی سے سینٹرل لائبریری تک مارچ کیا جائے گا۔
ہم تمام طلبہ ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اس قافلے کا حصہ بن کر نوشین کاظمی، نمرتا کماری، مشال خان سمیت تمام طلبہ کے ناحق قتل کیخلاف آواز بلند کریں۔ آئیں یونیورسٹیوں میں جاری غنڈہ گردی، بدمعاشی، ہراسانی اور لوٹ مار کے خلاف جدوجہد میں ہمارا حصہ بنیں اور ایک ایسے پلیٹ فارم پر منظم ہوں جس کے لیے میدان عمل ہی جدوجہد کا حقیقی راستہ ہے۔

جنسی ہراسانی نامنظور!

نمرتا اور نوشین کے قاتلوں کو گرفتار کرو!

ایک کا دکھ سب کا دکھ!

طلبہ اتحاد زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.