راولاکوٹ (کشمیر): تین روزہ مارکسی سکول میں سینکڑوں کی شرکت، سوشلسٹ انقلاب کی جانب ایک اور قدم!

|رپورٹ: عرفان منصور، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری، پی وائی اے|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے کشمیر میں راولاکوٹ کے قریب بنجوسہ جھیل کے مقام پر 21، 22، اور 23 جولائی کو تین روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک بھر سے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ یہ سکول پاکستان میں بڑھتی ہوئی معاشی زبوں حالی اور سیاسی پراگندگی کے ماحول میں مارکسی قوتوں کی بڑھوتری کے لیے ایک شاندار اور پُرامید پروگرام تھا۔ جس میں پورے پاکستان سے تقریباً 220 لوگوں نے شرکت کی اور پاکستانی اور عالمی سیاست کے ساتھ ساتھ فلسفے اور معاشی تھیوری پر سیر حاصل گفتگو کی۔

سکول کا پہلا سیشن 21 جولائی کو شروع ہوا۔ جس میں ولید خان نے ملکی اور عالمی سیاست پر مارکسی تناظر پیش کیا،جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض عبید ذولفقار نے ادا کیئے۔ ولید خان کا کہنا تھا کہ سائنس کی اس قدر معجزاتی ترقی کے باوجود عوام کی اکثریت کی زندگیاں تباہ حال ہیں اور اس کی وجوہات کو جاننے کے لیے ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سٹیگفلیشن (Stagflation) کی عالمی سطح پر بات چل رہی ہے۔ اس وقت عالمی جی ڈی پی تقریبا ً96 ٹریلین ڈالر تک ہے جبکہ مجموعی قرضے 305 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہ قرضے ہیں جو کبھی واپس نہیں کیے جائیں گے جس کا مطلب ہے کہ ایک نیا عالمی معاشی بحران سر پر کھڑا ہے۔ یہ عالمی معاشی بحران امریکی سامراج کے بحران میں بھی اپنا اظہار کر رہا ہے۔ ہم پوری دنیا میں امریکی سامراج کے اثر و رسوخ میں کمی دیکھ رہے ہیں جس کا سب سے بڑا اظہار ہمیں روس اور یوکرائن کی جنگ میں نظر آتا ہے۔ یہ جنگ اس وقت یورپی یونین، امریکہ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے دیگر براعظموں کی معیشت کو بُری طرح سے متاثر کر رہی ہے۔ عوامی اخراجات پر ٹیکسوں کی بھرمار نے عالمی سطح پر تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ برطانیہ میں افراط زر 10 فیصد سے اوپر ہو چکا ہے اور وہاں پر ٹرانسپورٹ، صحت اور اس کے علاوہ بجلی کے اداروں کو مزید نجکاری کی باتیں چل رہی ہیں۔ چین بھی ایک سامراجی کرداراختیار کر چکا ہے اوراس کا بحران شدت پکڑتا جارہا ہے،وہاں بھی کم ہوتی معاشی ترقی اور اسی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے عوامی احتجاجوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

ایسی ہی سیاسی اتھل پتھل ہمیں مشرق وسطی کے ممالک میں نظر آتی ہے جہاں پہ سعودی جیسا ملک اپنے روایتی حلیفوں کو چھوڑ کر نئی دوستیاں بنا رہا ہے۔ اسرائیل میں بھی سیاسی اتھل پتھل اور معاشی زوال انتہائی عروج پر ہے۔ انڈیا کی بات کی جائے تو وہاں پر 60 فیصد سے زیادہ لوگ تین ڈالر سے کم آمدن پر زندگی گزار رہے ہیں اور حال ہی میں کسان تحریک اور سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (Citizen Amendment Act) کے خلاف ابھرنے والی تحریک انڈیا کے اندر محنت کش طبقے کی مستقبل میں ابھرنے والی تحریکوں کی نوید سنا رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو در حقیقت یہ ایک دیوالیہ شدہ معیشت ہے اور یہاں پر کسی پارٹی کے پاس کوئی سیاسی یا معاشی پروگرام نہیں ہے۔ اسی لیے ہمیں پاکستان کے اندر اور اسی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہو گا۔ کیونکہ سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے۔ ولید خان کے بعد پارس جان، ساجد خان، حضرت عمر، صدام حسین، اختر سندیار، منصور ارحم، آدم پال اور ثاقب اسماعیل نے اپنی اپنی کنٹریبیوشنز میں پاکستان اور عالمی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر بات کی اور سوالوں کے جوابات دیے۔

دوسرا سیشن ”جدلیاتی مادیت“ پر تھا۔ جسے صدیق جان نے چیئر کیا اور لیڈ آف فضیل اصغر نے دی۔ فضیل اصغر نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں فلسفے کے حوالے سے عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ یہ دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حکمران طبقات ٹینکوں اور رائفلوں سے پہلے سوچ اور فلسفے کے میدان میں اپنی حاکمیت قائم کرتے ہیں اور اپنے فلسفوں کی مدد سے عوام کے ذہنوں سے ہر ایک تبدیلی کو رد کرتے ہیں، جبکہ فطرت کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر ایک پہلو میں تبدیلی ہونا حقیقت ہے۔ جدلیات کیا ہے؟ فطرت، انسانی سماج اور سوچ کی حرکت کے قوانین کی سائنس کا مطالعہ جدلیات ہے۔ رسمی منطق ایک محدود طریقہئ کار ہے جو کسی مظہر کی مکمل تفہیم نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اسے تبدیلی کے عمل میں نہیں دیکھتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسمی منطق کو بالکل رد کردیا جائے بلکہ اس کا جدلیات سے وہی تعلق ہے جو عمومی ریاضی کا اعلیٰ ریاضی سے ہے۔

جدلیات کا فلسفہ اپنے مکمل انداز میں تو ہیگل نے ہی مرتب کیا مگر ماضی بعید میں بھی کچھ فلسفی ہمیں جدلیات پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیگل، جو عینیت پرست فلسفی تھا، نے جدلیاتی طریقہ کی بجائے خیال ِ مطلق (Absolute Idea) کی صورت میں غلطی کا ارتکاب کیا۔ مارکس نے اس جدلیاتی طریقہئ کار کا استعمال کرتے ہوئے فلسفے کو مادی بنیادوں پر منظم کر کے ہیگل کے فلسفے کو درست کیا اور یہ بتایا کہ تاریخ کا اور سماج کا ارتقا کسی ایبسولیوٹ آئیڈیا کے تحت نہیں بلکہ سماج میں مادی ارتقا کے تحت ہوتا ہے۔ جس میں انسان کوئی مجبور محض نہیں بلکہ سرگرم کارکن ہوتا ہے اور انسان کا فطرت کے ساتھ تعامل ہی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ مادیت پسندی کی بھی دو اقسام ہیں۔ مکینیکل مادیت پسندی اور جدلیاتی مادیت پسندی۔ چودہویں، پندرھویں صدی میں ہابز، جان لاک، ڈیکارٹ نے مکینیکل مادیت پسندی کو بنیاد بناتے ہوئے مذہب اور چرچ کی حاکمیت کو للکارا اور یہ اپنے دور کا ایک انقلابی مظہر ہے۔ مگر اس تجربیت پسندی نے مادے کو اولیت دیتے ہوئے خیال کی اہمیت سے مکمل انکار کر دیا۔ فضیل اصغر نے اپنی لیڈ آف میں جدلیات کے تین بنیادی اہم اصولوں کی بھی وضاحت کی۔فضیل کی لیڈ آف کے بعد صبغت وائیں، سلمٰی ناظر، زاہدہ، آصف لاشاری، فرہاد علی، لقمان رحمانی، شعیب، آنند پرکاش اور آدم پال نے پوچھے گئے سوالات کی نظر میں جدلیاتی مادیت کے فلسفے کو مزید سمجھانے کی کوشش کی اور اس کے بعد سکول کے پہلے دن کے سیشنز کا اختتام ولولے سے بھرپور انقلابی نعروں کی صورت میں کیا گیا۔

سکول کے دوسرے دن اور تیسرے سیشن میں جویریہ ملک نے عالمی شہرت یافیہ انقلابی ٹیڈ گرانٹ کی کتاب ”روس: انقلاب سے ردِ انقلاب تک“ پر لیڈ آف دی اور علی عیسٰی نے اس سیشن کو چیئر کیا۔ جویریہ کا کہنا تھا کہ یہ کتاب روس میں انقلاب کے آنے سے لے کر ردِ انقلاب اور پھر سوویت یونین کے خاتمے تک کا درست تجزیہ کرتی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب روس میں قومی بورژوازی کے کچھ نہ کر سکنے کی اہلیت کا ناگزیر نتیجہ تھا جسے بالشویک پارٹی نے کامیاب بنایا اور صحت، تعلیم، انڈسٹری الغرض زندگی کے ہر شعبے میں معجزاتی ترقی حاصل کی۔ مگر انقلاب کے تنہا رہ جانے، صنعت کی تاریخی تاخیر زدگی اور قلت نے بیوروکریسی کو جنم دیا جس نے اپنا اظہار سٹالن ازم کی صورت میں کیا۔ اس کے نتیجے میں قومی سوشلزم کا غیر سائنسی نعرہ دیا گیا اور دیگر ملکوں میں انقلاب کو کچلا گیا اور اس کا ناگزیر نتیجہ سوویت یونین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی کی صورت میں نکلا۔جویریہ کی لیڈ آف کے بعد امیر ایاز، آدم پال، صہیب حنیف، پارس جان، ارسلان دانی، فرمان رشد، یاسر ارشاد، مجیدپنہور، عدیل زیدی اورسلمیٰ ناظر نے بات کی۔

چوتھا سیشن، کارل مارکس کی کتاب ”داس کیپٹل“ کے پہلے باب ’کموڈیٹی‘پر تھا۔ اس سیشن میں آدم پال نے لیڈ آف دی اور سلمٰی ناظر نے چیئر کیا۔ آدم پال نے کہا کہ کتاب ’داس کیپٹل ‘ سرمایہ داری کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ صرف معیشت کی نہیں بلکہ فلسفے کی بھی کتاب ہے۔ کسی بھی انسانی جسم کی اکائی جس طرح سیل ہے اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد شے (کموڈیٹی) ہے، جس میں اس سماج کے تمام تر تضادات موجود ہوتے ہیں۔ اس باب میں مارکس شے میں قدرِ استعمال اور قدرِ تبادلہ کی وضاحت کرتا ہے اور انہیں سمجھانے کے بعد وہ لازمی سماجی وقت یعنی محنت کی بھی بات کرتا ہے۔ جسے آدم پال نے تفصیل سے سمجھایا۔ اس کے بعد مارکس کنکریٹ اور مجرد محنت کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے دوہرے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کے درمیان تعلق اور فرق کی وضاحت کرتا ہے۔ تبادلہ دو مختلف معیاری اشیاء کے درمیان مقداری بنیاد پر ہوتا ہے، جس میں دونوں اشیاء میں موجود قدر کو جانچا جاتا ہے اور تمام قدریں، انسانی قوتِ محنت کی پیداوار ہوتی ہیں۔ اس سب کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد مارکس اشیاء کی استصنام پرستی کے مظہر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسانوں کی بنائی جانے والی اشیاء خود انسانوں پر حکومت کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اشیاء کی پیداوار جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی انسان کی غلامی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آدم پال کی لیڈ آف کے بعد صبغت وائیں، فرحان رشید، ثناء جلبانی اور عمر ریاض نے مارکس کی اس کتاب کے مختلف پہلوؤں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے حوالے سے بات کی۔

سکول کے تیسرے روزکا اختتامی سیشن ”نوجوان اور انقلاب“ کے موضوع پر تھا جس کو فضیل اصغر نے چیئر کیا۔ عرفان منصور نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج کی نوجوان نسل کے پاس اس سماج میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہے بے روز گاری، صنفی جبر، چائلڈ لیبر اور مہنگی ہوتی تعلیم نوجوانوں کا مستقبل ہیں۔ اس لیے آج سوشلزم ماضی سے کہیں زیادہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ محنت کش طبقے کا انقلاب ہی نوجوانوں کو ان مسائل سے نجات دِلا سکتا ہے اور اسی مقصد کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس اپنے نظریات کو طلبہ اور نوجوانوں تک لے کر جا رہی ہے۔ عرفان نے پی وائی اے کی کامیابیوں کا ذکر کیا اور مستقبل کے حوالے سے بتایا کہ ہم ’واحد حل سوشلسٹ انقلاب‘ کی بنیاد پر مہم کا آغاز کر رہے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ صنفی جبر کے خلاف اینٹی ہراسمنٹ مہم کا بھی آغاز کر رہے ہیں، جس کی بنیاد پر ہم اکتوبر میں ’ڈے آف ایکشن‘کا انعقاد کر کے یہ ثابت کریں گے کہ پورے پاکستان میں پروگریسو یوتھ الائنس ہی طلبہ اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی واحد تنظیم ہے۔

اس کے بعد بلوچستان، سندھ، کراچی، جنوبی پنجاب، لاہور، گوجرانوالہ، نارتھ پنجاب، کشمیر، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں پی وائے کی مستقبل کی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی اور پھر آدم پال نے انقلابی پیغام کے ساتھ اسکول کا باقاعدہ اختتام کیا۔ سکول کے دوران شرکاء میں نظریات کی پیاس اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے قربانی اور جوش کا عالم دیدنی تھا۔ سکول کے دوران 20 سے زائد نوجوانوں نے تنظیم کا حصہ بننے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ سکول میں انقلابی کتابون کا سٹال بھی لگایا گیا تھا، شرکاء کی جانب سے ان کتابوں کو خوب پسند کیا گیا۔

سکول کا اختتام انقلابی نعروں اورمحنت کشوں کا عالمی ترانہ’انٹرنیشنل‘ گا کر کیا گیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیئے یہاں کلک کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.