|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
یہ سال محنت کشوں کے عظیم راہنما اور فلسفی کارل مارکس کی 200ویں سالگرہ کا سال ہے۔ اسی سال عالمی سرمایہ داری کی تاریخ کے سب سے گہرے بحران کو بھی دس سال بیت چکے ہیں۔ اور ایک ایسے وقت میں کارل مارکس کا 200واں جنم دن منایا جارہا ہے جب عالمی حکمران طبقہ سخت مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہے اور اس کے مقابلے میں پوری دنیا میں طبقاتی جدوجہد نئی انگڑائیاں لے رہی ہے، جس سے اس سال کہ اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیامیں ایک بار پھر اس فلسفی کے نظریات نوجوانوں اور محنت کشوں میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں جس کو حکمران طبقات کئی بار موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ اس عظیم فلسفی کی 200ویں سالگرہ منانے کا اس بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا کہ مارکسزم کے نظریات کو پڑھا جائے، سیکھا جائے اور ان نظریات کو اس دنیا کو بدلنے کے لئے مادی طاقت کا روپ دیا جائے۔ اسی مناسبت سے پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام ملتان میں تین روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔
اس مارکسی سکول میں شرکت کے کے لئے پاکستان کے طول وعرض سے نوجوانوں اور محنت کشوں کے وفود 15مارچ کی شام ملتان پہنچنا شروع ہوگئے جن میں کراچی، کوئٹہ، حب، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان،فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد، کشمیر اور پشاور کے ساتھ ساتھ میزبان ریجن ملتان شامل تھے۔ تین روزہ مارکسی سکول میں 85 سے زائد نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ اس سکول کو کامیاب انعقاد کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس جنوبی پنجاب کے کامریڈز نے دن رات محنت کی جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
16مارچ کی صبح 10بجے مارکسی سکول کے باقاعدہ آغاز ہوا۔ پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان کے سرگرم کارکن فضیل اصغر نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا اور تین روزہ مارکسی سکول کا ایجنڈا پیش کیا۔ اس کے بعد سکول کے پہلے سیشن کی جانب بڑھتے ہوئے فضیل نے کوئٹہ سے بلاول بلوچ کو سکول کے پہلے موضوع پر بحث کے آغاز کے لئے دعوت دی جس کا عنوان ’’عالمی و پاکستان تناظر‘‘ تھا۔ بلاول نے انتہائی جامع انداز میں عالمی و ملکی سیاست اور معیشت کی موجودہ کیفیت کی منظر کشی کی۔ بلاول نے کہاکہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کے ان دس سالوں میں پوری دنیا کا نقشہ تبدیل ہوچکا ہے۔ آج ہم ایک مختلف دنیامیں جی رہے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عالمی معیشت کے بحران نے سماجی بنیادوں میں شدید اتھل پتھل پیدا کردی ہے۔ جہاں ایک طرف حکمران طبقات میں تضادات شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں تو دوسری جانب معاشی بحران کے زیر اثرطبقاتی جدوجہد کے دھماکے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ واقعات کی رفتار اتنی شدید ہے کہ بڑے بڑے جغادری دانشور بھی روزانہ کی بنیادوں پر حیرانی کے عالم میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ مارکسی نظریات کا طرۂ امتیاز ہے کہ آئے روز ہونے والے حیران کن واقعات مارکسسٹوں کو قطعی طور پر حیران نہیں کرتے۔ مارکسسٹوں نے اس کا تناظر کئی سال پہلے تخلیق کیا تھا جو آج ہمیں درست ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ سے لے کر ہندوستان تک سٹیٹس کو ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور معتدل سیاسی قوتیں رد ہوچکی ہیں اور سماج میں پولرائزیشن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ امریکہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول نے ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی ریاست کے مابین جاری شدید کشمکش اور اس کے عالمی صورتحال پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا۔ بلاول نے کہا کہ عالمی سرمایہ داری کا دل امریکہ اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سرمایہ داری کے بحران کا مجسم اظہار ہے۔ امریکی سرمایہ داری کے بحران کا اس کی کمزور ہوتی سامراجی قوت میں بھی اپنا اظہار کر رہا ہے اور جس کے نتیجے میں عالمی تعلقات میں تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ماضی کے دشمن آج کے دوست اور دوست دشمن بنتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی سامراج کے اس خصی پن کی وجہ سے علاقائی سامراجی طاقتوں کو ابھرنے کا موقع ملا جس کا اظہار ہمیں مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ملتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عالمی تعلقات میں شدید اتھل پتھل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا ورلڈ آرڈر آج بس کتابوں میں ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یورپ کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے بلاول نے کہا کہ 2008ء کے بحران کے نتیجے میں محنت کشوں اور نوجوانوں پر ہونے والے معاشی حملوں کے بعد سوشل ڈیموکریسی اپنی موت آپ مرچکی ہے اور یورپ طبقاتی جدوجہد کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک کے بعد ایک ملک میں سیاسی زلزلے اور دیوہیکل واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ماضی کی سیاسی روایتیں دم توڑتی اور نئی سیاسی فارمیشنز بن رہی ہیں۔ انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں کی سیاست کا احیا ہوچکا۔ بحران کی وجہ سے عوامی غم وغصے کا لاوا پک رہا ہے۔ یورپ کے محنت کش اور نوجوان حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سڑکوں پر آکر اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ جیرمی کوربن کا ابھار ہو یا جرمنی کے حالیہ انتخابات، کیٹالونیا کا ریفرنڈم ہو یا بریگزٹ یہ سب واقعات عوامی شعور میں ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ بریگزٹ نے یورپی یونین کو بکھرنے کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے تو کیٹالونیا کے آزادی ریفرنڈم نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے قومی جبر کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔
بلاول نے کہا کہ عالمی دنیا میں رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں براہ راست پاکستان کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ عالمی معیشت کا بحران نے جہاں پاکستانی معیشت کو متاثر کیا وہیں اس بحران کے سیاسی و سماجی مضمرات سے بھی پاکستانی سماج علیحدہ نہیں رہ سکا۔ امریکی سامراج اور چینی سامراج کی بیک وقت گماشتگی نے پاکستان ریاست کے بحران کو شدید تر کردیا ہے اور یہ ریاست اندر سے ٹوٹ رہی ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ سطح پر آکر اپنا اظہار کررہی ہے تو دوسری طرف ان پارٹیوں کو عوام نے مکمل طور پر رد کردیا ہے۔ پاکستان کے محنت کش اور نوجوان چھوٹے چھوٹے احتجاجوں اور تحریکوں کی شکل میں تاریخ کے میدان میں اپنی آمد کا عندیہ دے رہے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے ہونے والی ساری بحث میں حالیہ پشتون تحریک شدومد کے ساتھ زیر بحث آتی رہی۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پشتون عوام کی حالیہ تحریک نے ہمارے اس تناظر کو درست ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں جہاں ایک طرف بحران کی وجہ سے قومی سوال شدت اختیار کرچکا ہے تو دوسری طرف روایتی قوم پرست قیادتیں تاریخ کی بدترین زوال پذیری کا دلدل میں دھنس چکی ہیں اور کوئی بھی عوامی تحریک ان کو تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بنا دے گی۔ پاکستانی ریاست کے سامراجی جبر کے خلاف فاٹا سے ابھرنے والی تحریک اس وقت پورے پشتونخوا میں پھیل چکی ہے اور منظور پشتین اس کے لیڈر کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ تحریک اس ظالم سامراجی ریاست کے جبر کے خلاف پشتون عوام میں برسوں سے پلنے والے نفرت کے لاوے کا اظہار ہے۔ اس تحریک بڑے پیمانے پر عوامی شمولیت نے اے این پی اور پی کے میپ سمیت روایتی قوم پرست پارٹیوں کو رد کردیا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے جلسوں میں عوام سر عام ریاست کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ایسے میں مارکسسٹوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کی حمایت کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل فراہم کریں اور اس تحریک کو ملک کے دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ جوڑیں۔ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے بلاول نے کہا کہ آئے روز رونماہونے والے واقعات ہمارے تناظر کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید تحریکیں ابھریں گی، یہ ہماری ذمہ داری کہ تیز ترین طریقے سے اپنی قوتوں میں اضافہ کریں تاکہ آنے والے دنوں میں مزید تحریکیں ابھریں تو ان کو حتمی فتح سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کیا جاسکے۔
بلاول کے بعد دیگر ریجنز سے آئے شرکا نے بحث میں حصہ لیا اور دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس دوران شرکاکی جانب سے عالمی صورتحال، معاشی بحران اور پاکستان کی سیاسی صورتحال اور پشتون تحفظ تحریک کے حوالے سے سوالات بھی کیے گئے۔ لاہور سے رائے اسد نے نوجوانوں کو درپیش مسائل اور پاکستان میں طلبہ تحریک کے تناظر پر بات رکھی۔ رائے کا کہنا تھا کہ فیسوں میں اضافے اور انتظامیہ کے جبر کے خلاف آنے والے دنوں میں بڑی تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ پنجاب یونیورسٹی سے مشعل وائیں نے معاشی اور سیاسی بحران کے خواتین پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بحران نے جہاں عمومی طور پر سارے محنت کشوں اور نوجوانوں کو متاثر کیا ہے تو پاکستان میں موجود خواتین دہرا نشانہ بنی ہیں۔ ایک طرف جہاں معاشی جبر میں اضافہ ہوا ہے تو سماجی جبر نے خواتین کی زندگیوں کو مزید اجیرن کردیا ہے۔ لاہور سے ولید خان نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ حلب میں امریکی سامراج کی شرمناک شکست کے بعد روس اور ایران فاتح بن کر سامنے آئے تھے مگر دو سال گزرنے کے بعد بھی زمینی صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آئی۔ مارکسسٹوں نے اس وقت لکھا تھا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پرمشرق وسطیٰ میں مستحکم ریاستیں تعمیر کرنا تو دور کی بات ہے یہاں امن بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ دو سال بعد یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔ مشرقی غوطہ میں عوام کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ترکی شامی کردوں کے خلاف فوجی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران جو اس ساری صورتحال میں فاتح بن کر ابھرا تھا، سال کے اختتام پر ابھرنے والی احتجاجی تحریک نے ایرانی ریاست کو بنیادوں تک ہلا تک رکھ دیا ہے۔ حکمران طبقے میں تضادات کھل کے سامنے آرہے ہیں۔ ایک دھڑا اصلاحات چاہتا ہے تو دوسرا اصلاحات کے خلاف کھڑا ہے۔ خطے کی سب سے رجعتی طاقت کا اندرونی بحران بڑھتا جارہاہے۔ یمن پر مسلط کی گئی خونی جنگ محمد بن سلمان کے لئے مہلک ثابت ہوئی ہے۔ معاشی بحران کے زیر اثر معیشت کو کھولا جارہا ہے تو دوسری جانب اصلاحات کی بات کی جارہی ہے جو کہ حکمران طبقے کو لاحق خوف کی غمازی کرتی ہے۔ محنت کش تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا رہا ہے جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔کوئٹہ سے ایاز امیر نے بولان میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ میں دھاندلی کے خلاف ابھرنے والی تحریک اور اس میں پروگریسو یوتھ الائنس کی مداخلت اور اثرات پر بات رکھی۔ پشاور یونیورسٹی سے خالد مندوخیل نے پشتون تحفظ تحریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس تحریک کو ایک زندہ عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس میں اپنے نظریات کے ساتھ بھرپور مداخلت کرنی چاہیے۔ بہاولپور سے عرفان نے کسانوں کے کٹھن حالات زندگی اور زراعت کی بربادی کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماہ بلوص اسد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی جنگ کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسی صورتحال میں جب عالمی معیشت تاریخ کی کمزور ترین سطح پر کھڑی ہے یہ تجارتی جنگیں عالمی معیشت کو 1930ء کی عظیم کساد بازاری کی جانب لے کر جاسکتی ہیں اور ایک نئے بحران کی وجہ بن سکتی ہیں۔ لاہور سے راشد خالد نے سرمایہ داری کے اثرات اور اایسی کیفیت میں ابھرنے والی تحریکوں میں مارکسسٹوں کی مداخلت اور تنظیم سازی پر گفتگو کی۔ کراچی سے پارس جان نے کہا کہ پشتون عوام کی ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے والی یہ تحریک بنیادی طور پر ہمارے تناظر کو درست ثابت کرتی ہے لیکن ہمارا کام یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔ مارکسسٹوں کا یہ فریضہ ہے کہ جرات اور بہادری سے مارکسی نقطہ نظر تحریک میں شامل عام محنت کشوں اور نوجوانوں تک لے کر جائیں اور تحریک کو درست پروگرام اور نعروں سے لیس کریں۔ جہاں ہم اس تحریک کی حما یت کرتے ہیں اور ہر قسم کے ریاستی و قومی جبر کی مخالفت کرتے ہیں وہیں ہم اس تحریک کی خامیوں کو بھی سامنے لے کر آئیں گے۔یہی مارکسی طریقہ کار ہے۔ سوالات کی روشنی میں بلاول نے ساری بحث کو سمیٹا اور کہاکہ ہم اس تناظر کو عملی جدوجہد کا حصہ بناتے ہوئے وہ قوت تعمیر کریں گے جو اس خطے میں سرخ سویرے کی نوید بنے گی۔
کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کا موضوع کارل مارکس کی شہرۂ آفاق کتاب ’داس کیپیٹل‘ کا ساتواں باب ’’سرمائے کا ارتکاز‘‘ تھا۔ اس سیشن کو چیئر کراچی سے انعم خان نے کیا۔ لاہور سے آفتاب اشرف نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بہت ہی جامع انداز میں اس مشکل سمجھے جانے والے موضوع پر روشنی ڈالی۔ آفتاب نے اپنی لیڈ آف کے آغاز میں مارکسی معیشت کی مختلف اصلاحات جیسے قدرِ استعمال، قدرِ تبادلہ، قدر وغیرہ کی وضاحت کی تاکہ موضوع پر ہونے والی بحث کو آسان فہم بنایا جاسکے۔ اس کے بعد زر اور سرمائے میں فرق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر جس بھی شخص کے پاس دولت جمع ہواس کو دولت کو سرمایہ کہا جاتا ہے جبکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ سرمائے کو سرمایہ رہنے کے لئے اس کو اگلے معاشی چکر میں پھر سے کھپانا درکار ہوتا ہے ۔ صرف اسی وقت تک سرمایہ بطور سرمایہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے جب تک وہ معاشی چکر میں گردش میں رہے۔ اس کے بعد آفتاب نے Simple Reproduction of Capitalکی وضاحت کی کس طرح ایک معاشی چکر کے دوران سرمایہ پیدا ہوتا ہے۔ آفتاب نے یہاں مارکس کے طریقہ کار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ مارکس سرمایہ میں اس عمل کو بیان کرتے ہوئے بالکل مثالی اور خالص حالات کو فرض کرتا ہے جس پر کسی طرح کے کوئی بیرونی عوامل اثر انداز نہیں ہو رہے ہوتے۔ آفتاب نے کہا کہ یہ صرف اور صرف انسانی محنت ہی ہے جوکہ قدر پیدا کرتی ہے اور ایک معاشی چکر میں اسی انسانی قوت محنت کے استحصال سے سرمایہ دار مزدور کی غیر اداشدہ اجرت کی صورت میں قدر زائداکٹھی کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آفتاب نے سرمائے کی تخلیق سے متعلق مختلف بورژوا معیشت دانوں جیسے ایڈم سمتھ اور ریکارڈو وغیرہ کی غلطیوں کا پردہ چاک کیا۔ اس کے بعد آفتاب نے قدر زائد کے سرمائے میں تبدیل ہونے کے عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک معاشی چکر میں پید اہونے والی قدر زائد کی سرمایہ دار باز سرمایہ کاری کرتا ہے اور یوں قدر زائد ہر اگلے معاشی چکر میں مزید سرمائے کو جنم دیتی ہے۔ مزید برآں آفتاب نے ’سرمائے کے ارتکاز کے عمومی قانون‘ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاشی چکر کے اختتام پر پیداواری قوتوں کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔ ہر معاشی چکر کے آغاز پر سرمایہ دار کو پچھلے چکر سے زیادہ خام مال، افرادی قوت اور مشینوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے مگر تکنیک میں جدت آنے سے جہاں استحصال بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایک معاشی چکر میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ تخلیق ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ تکنیک میں جدت کے وجہ سے بیروزگار افراد کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے جسے مارکس’صنعتی ریزرو فوج‘ کا نام دیتا ہے۔ اس سارے عمل میں جہاں ایک طرف دولت کے انبار لگتے چلے جاتے ہیں تو دوسری جانب ایک وسیع اکثریت غربت اور افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستی چلی جاتی ہے۔
اس انتہائی مشکل سمجھے جانے والے موضوع پر شرکا کی شمولیت اور انہماک کا اندازہ لیڈ آف کے اختتام پر آنے والے سوالات سے ہوا اور بیشتر کامریڈز نے موضوع کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے سوالات اٹھائے جن میں سرمایہ داری کے زائد پیداوار کے بحران کی وجوہات، سروسز سیکٹر کے کردار، ایک انفرادی سرمایہ دار کے کردار وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد لاہور سے راشد خالد نے ’سرمائے کے ابتدائی ارتکاز‘ کے عمل کو بیان کیا۔ فیصل آباد سے تصور ایوب، کراچی سے پارس جان اور ملتان سے فضیل اصغر اور لاہور سے عدیل زیدی نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آفتاب نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی بات کااختتام اس بات پر کیاکہ داس کیپیٹل کو مارکسی فلسفے میں خاص اہمیت اور مقام حاصل ہے اور اس کی وجہ مارکس کا خالصتاً جدلیاتی مادیت کا سائنسی طریقہ کار تھا اور اقبالؔ نے صحیح معنوں میں مارکس کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔۔۔
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن دربغل دارد کتاب
رات کے کھانے کے بعد بالشویک انقلاب کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے ریلیز کی گئی اکتوبر انقلاب کے عظیم لیڈر اور سرخ فوج کے قائد لیون ٹراٹسکی کی سیاسی جدوجہد پر بنائی گئی ڈاکیو منٹری دکھائی گئی جس میں سبھی کامریڈز نے جوش وخروش سے حصہ لیا۔
اگلے روز صبح 10:30 بجے مارکسی سکول کے تیسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کو چیئر کشمیر سے پروگریسو یوتھ الائنس کے سرگرم کارکن عبید ذوالفقار نے کیا۔ سکول کے تیسرے سیشن کا موضوعِ بحث ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ تھا۔ لاہور سے زین العابدین نے بحث کے سلسلے کو شروع کرتے ہوئے کہا کہ اس تاریخی دستاویز کو منظر عام پر آئے 170سال بیت چکے ہیں مگر یہ دستاویز آج بھی ناصرف متعلقہ ہے بلکہ اس کی تروتازگی بھی ایسے ہی برقرار ہے جیسے مارکس اور اینگلز نے اسے تحریر کیا تھا۔ ہم 170سال قبل لکھی گئی کوئی بھی کتاب اٹھا لیں مگر آج کے حوالے سے بالکل غیر اہم ہو چکی ہوگی مگر یہ مینی فیسٹو کا طرۂ امتیاز ہے کہ یہ ناصرف عہد حا ضر سے متعلقہ ہے بلکہ اس کو بدلنے کی عملی جدوجہد میں ایک بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ مینی فیسٹو کو مارکسزم کے نظریات کا نچوڑ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا جس میں ہمیں مارکس اور اینگلز کے نظریاتی سفر کی بنیادیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ زین کا کہنا تھا کہ اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ دنیا بہت بدل گئی ہے اور یہ مارکسسٹ آج بھی اس سالوں پرانی دستاویز کو لیے پھرتے ہیں مگر جب کوئی اس دستاویز کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو قاری کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کل ہی یہ چھپ کر آئی ہو۔یہی مینی فیسٹو کا کمال ہے۔1847ء میں کمیونسٹ لیگ نے مارکس اور اینگلز کو پارٹی کے لئے منشور لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس وقت مارکس اور اینگلز کی عمر محض 29 اور 27سال تھی مگر اس کم عمری کے باوجود انہوں نے نا صرف وہ دستاویز تخلیق کی جس نے مستقبل کی طبقاتی جدوجہد کا اہم ہتھیار بننا تھا بلکہ رائج الوقت تمام نظریات کے ساتھ حساب بھی چکتا کیا۔
مینی فیسٹو کے مواد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے زین نے کہا کہ مینی فیسٹو میں پہلی بار مارکس اور اینگلز نے ’تاریخ کا مادی نظریہ‘ پیش کیا جو کہ ایک بہت بڑا کارنامہ اور انسانی سوچ اور شعور میں ایک آگے کی جست ہے۔ مینی فیسٹو کا یہ جملہ کہ’’اب تک کی تمام انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے‘‘ تاریخ کے مادی تصور کا احاطہ کرتا ہے۔زین نے کہا کہ کمیونزم مارکس اور اینگلز کے دماغ کی اختراع نہیں تھی بلکہ مارکس اور اینگلز سے قبل رابرٹ اوون، سینٹ سائمن اور دیگر لوگ کمیونزم کے نظریات کا پرچار کرتے تھے مگر مارکس اور اینگلز کا حقیقی کارنامہ ان نظریات کو خیال پرستی سے آزاد کرواتے ہوئے ان کو مادی اور سائنسی بنیادیں مہیا کرنا تھا جو کہ ایک تاریخ ساز کام ہے۔ اس کے بعد زین نے بتایا کہ کس طرح مارکس اور اینگلز تاریخ کے مادی تصور کی بنیاد پر سرمایہ دار طبقے کے ظہور اور سرمایہ دارانہ نظام کے ابھار اور اس کی حرکیات کو بیان کرتے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے نے جاگیرداری اور بادشاہت کے مقابلے میں ایک عہد میں ترقی پسند کردار ادا کیا۔ پیداواری قوتوں کی ناقابل تصور بڑھوتری کے ساتھ ساتھ تسخیر دنیا، عالمی تجارت اور اس کے اوپر عالمی منڈی کی تشکیل، قومی ریاستوں کا بننا ایک آگے کا قدم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مارکس اور اینگلز نے مینی فیسٹو میں پرولتاریہ کے بطور طبقے ظہور اور اس کے انقلابی کردار کو سامنے لے کر آئے۔ بلانکی اور پرودھون کے نظریات کے مقابلے میں مارکس اور اینگلز نے یہ واضح کیا کہ یہ سرمایہ داری کا تخلیق کردہ صنعتی پرولتاریہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جو کہ پیداوار میں اپنے بنیادی کردار کی بدولت ایک انقلابی طبقے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے بعد زین نے مینی فیسٹو کے دیگر حصوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ مارکسی معیشت ہو یا سرمایہ داری کے بحران کا تجزیہ، سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے لازمیت کا حامل پرولتاری انقلاب، انقلابی پارٹی کا طبقے کے ساتھ تعلق غرض مینی فیسٹو میں ہمیں مارکسزم کے نظریات کا نچوڑ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنی بات کا اختتام زین نے مینی فیسٹو کے ان جملوں کے ساتھ کیا کہ سرمایہ داری میں جہاں ایک طرف دولت کا انبار لگتا چلا جاتا ہے تو دوسری طرف اس ساری دولت کو پیدا کرنے والے محنت کش طبقے کے حالات زندگی بد سے بد تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ حکمرانی کا جواز کھو بیٹھتا ہے اور اسی سرمایہ دار طبقے کا پیدا کردہ پرولتاریہ ہی اس نظام کا گورکن بنے گا۔
زین کے بعد ڈیرہ غازی خان آصف لاشاری اور ملتان سے راول اسد نے مینی فیسٹو کے دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس کو آج تک کی سب اہم اور جدید دستاویز قرار دیا۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے زین نے کہا کہ جس دن کمیونسٹ مینی فیسٹو چھپ کر منظر عام پر آیا تو پورا یورپ انقلابات کی لپیٹ میں تھا۔ فرانس سے اٹھنے والی انقلابی چنگاری نے پورے یورپ کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج مینی فیسٹو کو چھپے 170سال بیت چکے اور پوری دنیا ایک بار پھر طبقاتی جدوجہد کے لئے صف آرائی ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہ ہمارا فریضہ ہے کہ اس تاریخی دستاویز کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی عالمی پارٹی تعمیر کریں جو مستقبل کے انقلابات کی قیادت کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھ سکے۔
یہ سال 1968ء کے انقلابی سال کی پچاسویں سالگرہ کا سال بھی ہے۔ اس سال دنیا بھر میں امریکہ سے لے کر پاکستان تک بڑی بڑی انقلابی تحریکیں ابھریں جن سے حکمرانوں کے ایوان کانپنے لگے۔ انہیں انقلابات اور تحریکوں کی حاصلات اور ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے انقلابیوں کی نئی پود کو روشناس کروانے کے لئے اس مارکسی سکول میں ’’1968ء: انقلابات کا سال‘‘ کا موضوع رکھا گیا تھا۔ سکول کے آخری سیشن میں اسی کو زیر بحث لایا گیا۔ اس سیشن کو چیئر فیصل آباد سے تصور ایوب نے کیا۔ اسلام آباد سے عمر ریاض نے 1968ء کے انقلابی واقعات کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس واقعات کو زیر بحث لانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آج جو اس سماج اور دنیا کو بدلنے کی عملی جدوجہد میں شریک ہیں، ان انقلابی واقعات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے آج کے لیے اسباق مرتب کرسکیں۔ اس سال پوری دنیا میں طبقاتی جدوجہد کا ابھار دیکھنے میںآیا۔ امریکہ میں سول رائٹس اور جنگ مخالف تحریک، میکسیکو، چیکوسلواکیہ میں عوامی بغاوت، مئی 1968ء کے فرانس کی انقلابی تحریک اور اسی سال ہی پاکستان میں محنت کش اور نوجوان طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اترے۔ اس سیشن میں پاکستان میں برپا ہونے والے 1968ء کے انقلاب میں شریک ایک بزرگ انقلابی ساتھی ملک الطاف کھوکھر بھی موجود تھے جنھوں نے ان انقلابی واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور اس انقلاب کی قیادت کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی۔ لاہور سے آفتاب اشرف، رائے اسد اور محمد شہزاد اور فیصل آباد سے اختر منیر نے بھی بحث میں حصہ لیا۔
سکول کا آخری روز پروگریسو یوتھ الائنس کی جنرل باڈی میٹنگ کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ میٹنگ کا ایجنڈا پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی کنونشن2018ء کی تیاریوں کے حوالے تھا۔ اس میٹنگ کی صدارت اسلام آباد سے ماہ بلوص اسد نے کی۔ میٹنگ کے دوران زین العابدین نے نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو درپیش مسائل، بحران کے نوجوانوں کے شعور پر اثرات، عمومی تنظیمی لائحہ عمل اور مرکزی کنونشن کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس سال نومبر کے آخری ہفتے میں لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس کا مرکزی کنونشن منعقد کیا جائے گا۔ اس کنونشن کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اس موقع پر ایک مرکزی آرگنائزنگ باڈی بھی منتخب کی گئی جس میں کراچی سے عادل راؤ، کوئٹہ سے ولی خان، بہاولپور سے عرفان، ڈیرہ غازی خان سے آصف لاشاری، ملتان سے وقاص سیال، فیصل آباد سے ساحر جان، لاہور سے رائے اسد، اسلام آباد سے ماہ بلوص اسد اور ہمراز سروانی، پشاور سے ستار کاکڑاور کشمیر سے عبید زبیر شامل ہیں۔ اس کے بعد تمام ریجنز سے اس کنونشن کی تیاریوں اور شرکت کے حوالے سے ٹارگٹس پیش کیے گئے۔
سکول کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پارس جان نے کہاکہ یہ سکول یہاں ہونے والے نظریاتی بحثوں کے حوالے سے ایک انتہائی شاندار سکول رہا ہے۔ مگر ہم نے ان نظریات کو عملی طاقت کا روپ دینا ہے۔ لوگ ہمیں ’’دقیانوسی مارکسسٹ‘‘ کہتے ہیں، ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم کٹر مارکسسٹ ہیں اور ہم محنت کشوں کے ان نظریات میں ہر طرح کی ترمیم پسندی کی شدید مخالفت اور ایسے رجحانات کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔ انہیں بنیادوں پر ہم ایک حقیقی انقلابی پارٹی تعمیر کرسکتے ہیں۔ واقعات اور حالات کی رفتار بہت تیزہے اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم اپنی قوتوں میں تیز ترین اضافہ کریں۔ اس کے لئے یہاں موجود ہر کامریڈ کو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا اور خود کو انقلاب کے لئے پیش کرنا ہوگا۔ سکول کا اختتام جوش و جذبے کے ساتھ انٹرنیشنل گا کر کیا گیا۔