لورالائی: ”آرٹ اور سیاست“ کے موضوع پر سیمینار اور مشاعرے کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لورالائی|

13 دسمبر، بروز اتوار پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے لورالائی میں وہاں کی مقامی ادبی سوسائٹی (پشتو ادبی ملگری) کے دفتر میں ”آرٹ اور سیاست“ کے موضوع پر ایک شاندار سیمینار اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس میں لورالائی سے تعلق رکھنے والے 60 سے زیادہ نوجوانوں، سیاسی کارکنوں اور شعراء نے شرکت کی۔ سیمینار کے پہلے حصے میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض حضرت عمر پشتون نے سر انجام دئیے۔ سٹیج سیکرٹری نے ”سیاست اور آرٹ“ پر بات کرنے کے لیے سب سے پہلے لورالائی کے ڈگری کالج میں اردو ادب کے پروفیسر اور ترقی پسند نقطہ نظر رکھنے والے یونس نورزئی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ یونس نورزئی نے اپنی بحث کے اندر آرٹ کے تاریخی ارتقاء کو پیداواری قوتوں کی مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی رفتار سے جوڑتے ہوئے کہا کہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور آرٹ کے اس کے ساتھ تعلق کو میکانکی انداز میں نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی مارکسزم کا طریقہ کار ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مارکسزم کا طریقہ کار اگر آرٹ کو پروپیگنڈا میں تبدیل کرنے کو رد کرتا ہے تو دوسری طرف وہ آرٹ کو سماج سے یکسر کاٹنے کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ انہوں نے پلیخانوف کے مشہور آرٹیکل ”تاریخی مادیت اور آرٹ“ کو بنیاد بناتے ہوئے تاریخی مادیت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں آرٹ کے کردار کا تعین کیا۔

اس کے بعد انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی کی نمائندگی پر کامریڈ رزاق غورزنگ نے آرٹ اور سیاست کے جدلیاتی تعلق پر مفصل گفتگو کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آرٹ، فلسفہ اور مختلف علوم کا پھیلاؤ اور اس کی بلندی ہمیں تاریخی طور اس وقت نظر آتی ہے جب معاشرہ طبقات میں بٹ جاتا ہے۔ معاشرے کی طبقات میں تقسیم اور زائد پیداوار کے نتیجے میں اقلیتی پرت کو وہ مادی بنیادیں میسر آئیں جن کی تحت اس کو محنت اور مشقت سے آزادی ملی۔ حکمران طبقے کی اقلیتی پرت نے اسی آزادی اور فراغت کو استعمال کرتے ہوئے آرٹ، فلسفہ اور دوسرے علوم پر کام کیا۔ قدیم یونان میں آرٹ، فلسفے، بیالوجی، کاسمولوجی اور ریاضی کے اندر جو عظیم کام ہمیں ملتا ہے اس کی مادی بنیادیں غلام داری کے اندر پیوست ہیں۔ معاشرے کا طبقات میں بٹنا ایک طرف پیداواری قوتوں کے ارتقاء اور آرٹ اور فلسفے کی ترقی کے حوالے سے ایک ترقی پسند قدم تھا تو دوسری طرف اس طبقاتی تقسیم نے معاشرے کی اکثریتی آبادی کو آرٹ اور فلسفے میں اپنا تخلیقی حصہ ڈالنے سے انتہائی جابرانہ اور ظالمانہ طور پر باہر کیا۔ تب سے لے کر آج تک آرٹ، فلسفے اور دوسرے علوم پر اقلیتی حکمران طبقے کی اجارہ داری ہے جس کو وہ اپنی طبقاتی حکمرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رزاق غورزنگ نے آرٹ اور سیاست کے متعلق بات میں آرٹ کی دو انتہاوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک انتہا پر کھڑے لوگ آرٹ کی آزادی سے یکسر انکار کرتے ہوئے اس پر تنظیمی، سیاسی اور نظریاتی پہلو لاگو کرتے ہیں اور آرٹ کو احکامات کے ذریعے تخلیق کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے کبھی بھی عظیم آرٹ اور فن تخلیق نہیں ہو سکتا۔ جبکہ دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جو آرٹ کے تخلیقی عمل کو آرٹسٹ کی داخلیت تک محدود کرتے ہوئے اس کو پورے معاشرے سے کاٹ دیتے ہیں اور آرٹسٹ کو سماج سے بالاتر کوئی آسمانی مخلوق تصور کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ”آرٹ برائے آرٹ“ کا پرچار کرتے ہیں اور اس طرح کی آرٹ نے ہمیشہ حکمران طبقے اور رجعتی قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔

مارکسزم ان دونوں انتہاوں کو رد کرتے ہوئے آرٹ کے اوپر متوازن موقف رکھتا ہے۔ جہاں وہ آرٹ کی نسبتی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے آرٹ کو انسانی شعور کا مخصوص خاصہ مانتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آرٹ کو ان کا داخلی ارتقاء اور قوانین کے تحت جائزہ لینا چاہیے۔ دوسری طرف مارکسزم کا نظریہ ہے کہ آرٹ اور آرٹسٹ کو معاشرے سے کبھی بھی جدا نہیں کیا جا سکتا اور اعلیٰ آرٹ کی تخلیق تب ہی ممکن ہے کہ جس میں سماجی تضادات کی تصویرکشی موجود ہو۔ کامریڈ رزاق نے پشتو شاعری میں سلیمان لائق، اجمل خٹک، رحمت شاہ سائل اور حمزہ شینواری کے کلام کے ذریعے ان کی شاعری میں موجود سماجی حقیقت نگاری پر بات کی۔ اردو زبان سے فیض احمد فیض کی نظموں میں موجود حقیقت نگاری کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ آخر میں آج کے بحران میں جکڑے ہوئے آرٹ کو سماج کی انقلابی آزادی سے جوڑتے پروگرام میں موجود شعراء اور ادیبوں سے درخواست کی گئی کہ آرٹ کی آزادی کے لیے لازمی ہے کہ ہم انقلابی جدوجہد کا حصہ بنیں۔

پروگرام کا دوسرا حصہ مشاعرے پر مشتمل تھا جس کی نِظامت کے فرائض صناواللہ حباب نے سنبھالے۔ مشاعرے میں لورالائی کے نوجوان شعراء نے اپنے خوبصورت کلاموں سے سامعین کو محظوظ کیا اور اس طرح اِس پُروقار تقریب کا اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.