|پروگریسیو یوتھ الائنس|
21اپریل بروز جمعہ کی اخبارات میں لاہور میں ہونے والے وائس چانسلرز کے اجلاس کی خبریں لگیں۔ اس اجلاس میں حکومت سے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا مضحکہ خیز مطالبہ کیا گیا۔ طلبہ تنظیموں پر پہلے ہی پابندی عائد ہے جبکہ ریاستی پشت پناہی اور انہی وائس چانسلرزاور یونیورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی سے دہشت گرد تنظیمیں تعلیمی اداروں پر مسلط کی گئی ہیں۔ اس نام نہاد ’’فروغِ امن کانفرنس‘‘ میں مشعل خان کے قتل کی مذمت کی گئی اور نہ ہی اس قتل میں ملوث یونیورسٹی انتظامیہ کے گھناؤنے کردار پر بات کی گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام وائس چانسلرز اس قتل کی حمایت کرتے ہیں اور مردان یونیورسٹی کی گھناؤنی انتظامیہ اور دہشت گردوں کے ساتھی ہیں اور اس بیان کے بعد انہیں بھی شامل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان وائس چانسلرز کا کردار انتہائی بھیانک ہے اور یہ حکومت کی گماشتگی کرتے ہوئے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ پر بد ترین مظالم ڈھا رہے ہیں اور سکیورٹی گارڈز کے ذریعے اور دیگر طریقوں سے ظلم کیخلاف آواز اٹھانے والے طلبہ پر جبر جاری رکھتے ہیں۔ یہی جبر انہیں فیسوں میں اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کے ذریعے محنت کشوں کے بچوں سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا ہے لیکن ان وائس چانسلرز کی زندگیاں پر سکون گزر رہی ہیں۔
مشعل کے قتل کے بعد بھی ابھرنے والی تحریک سے ریاست اور حکمران اشرافیہ جہاں ایک طرف بوکھلا گئے ہیں وہاں اس واقعے کو جواز بناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں ابھرنے والی نوزائیدہ طلبہ تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت منعقد ہونے والی یہ دو روزہ ’’فروغ امن کانفرنس‘‘ بھی انہی سازشوں کا حصہ ہے۔ اس نام نہاد کانفرنس کی متفقہ سفارشات میں تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے نام نہاد اساتذہ کے ٹولے نے نمک کا حق ادا کرتے ہوئے نہ تو مشعل کے قتل میں ملوث یونیورسٹی انتظامیہ پر کوئی بات کی اور نہ ہی دہشت گردی کی کھلم کھلا پشت پناہی کرنے والے ریاستی اداروں کی مذمت۔ اساتذہ کا روپ دھارے ہوئے ان ریاستی گماشتوں نے تو اس حقیقت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں 1984ء سے طلبہ یونین پر پابندی ہے جس کی بدولت طلبہ گزشتہ 33سال سے اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسی تمام عرصے میں ریاست نے تعلیمی اداروں میں بے شمار مسلح طلبہ تنظیموں بالخصوص اسلامی جمعیت طلبہ کو بزور طاقت مسلط کیا۔ جن کا بنیادی مقصد اپنی غنڈہ گردی کے ذریعے طلبہ کو سیاست سے متنفر کرنا اور مشعل جیسے ذہن رکھنے والے نوجوانوں کو خون میں نہلا کر تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کی فضا کو قائم رکھنا تھا۔ مشعل کے قتل کے بعد بھی ان دہشت گردوں کی سرپرست ریاست ایسی ہی چالبازیوں کا سوچ رہی ہے اور سکیورٹی کے نام پر تعلیمی اداروں کو جیلوں میں بدل دینے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ جبکہ ساتھ ہی ریاستی آشیر باد رکھنے والی غنڈہ گرد مسلح تنظیموں کو پہلے سے بھی زیادہ کھلی چھوٹ دی جائے گی تا کہ وہ طلبہ میں ریاست کی ختم ہوتی ہوئی رٹ کو بزور طاقت بحال کر سکیں۔
عبدالولی خا ن یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشعل خان کے بہیمانہ قتل نے پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قتل کے بعد منظر عام پر آنے والی تفصیلات یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس اندوہناک واقعے کے اصل محرکات کچھ اور تھے اور ماضی میں ہونے والے لا تعداد واقعات کی طرح اس مرتبہ بھی توہین مذہب کے الزام کو محض اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ بائیں بازو کے نظریات سے وابستگی رکھنے والے مشعل خان نے اپنے قتل سے چند روز قبل ایک ٹی وی انٹرویومیں یونیورسٹی کی فیسوں میں اضافے‘ انتظامیہ کی کرپشن اور تعلیم کو کاروبار بنانے کیخلاف احتجاج کیا تھا۔ مشعل کے اس جرات مندانہ مؤقف کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ اس سے شدید خوفزدہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام طلبہ کے حق میں اٹھنے والی اس آواز کو خاموش کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں نہ صرف طلبہ میں مشعل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان مختلف غنڈہ گرد تنظیموں کا تعاون حاصل تھا بلکہ ایک ممکنہ طلبہ تحریک کے آغاز سے خوفزدہ ریاست کی بھی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔ گزشتہ چند روزمیں سامنے آنے والے حقائق سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مشعل خان کا قتل یونیورسٹی انتظامیہ، اسلامی جمعیت طلبہ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بعض غنڈہ گرد عناصر، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ اس گھناؤنی سازش کا نتیجہ مشعل خان کے قاتلوں کی توقعات کے بالکل برعکس نکلا اور اس قتل کیخلاف مشعل کے آبائی علاقے سے لے کر ملک کے درجنوں شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان مظاہروں میں طلبہ، مزدور لیڈروں، دانشوروں اور بائیں بازو کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور مشعل کے وحشیانہ قتل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کوسر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاجی تحریک سے بوکھلا کر حکمران طبقے اور ریاست کومجبوراًمشعل کے قتل کی مذمت کرنی پڑی تاکہ عوام کا غصہ ٹھنڈا کیا جا سکے۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، مولویوں، امام کعبہ اور دیگر ’’اہم شخصیات‘‘ کے منافقانہ مذہبی بیانات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
پاکستانی ریاست کی دہشت گردی کی کھلے عام سر پرستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 1980ء کی دہائی میں ہونے والے نام نہاد ’’ڈالر جہاد‘‘ میں امریکی سامراج کے ساتھ مل کر ’’مجاہدین‘‘ کی تخلیق سے لے کرطالبان جیسے وحشیوں کی تشکیل خودکش بمبار پیدا کرنے والے ہزاروں مدرسوں کی مالی سرپرستی سے لے کر غنڈہ گرد مسلح مذہبی تنظیموں کو دی جانے والی کھلی چھوٹ اور نصاب تعلیم میں رجعتی نظریا ت کی ترویج سے لے کر ریاستی مشینری میں رجعتی عناصر کی بھاری موجودگی سب دہشت گردی کی بھرپور ریاستی پشت پناہی کا واضح ثبوت ہیں۔ ایسے میں دہشت گردی کے واقعات کے ہر واقعے کو بہانہ بنا کر ریاست سماج پر اپنا جبر بڑھانے‘ عوام کو خوفزدہ کرنے اور آزادی اظہاررائے کو سلب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سے لے کر ایسے تمام اقدامات کا حقیقی مقصد بھی یہی تھا نہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ۔ دہشت گروں کی کمر توڑنے جیسی لفاظیوں کے پس پردہ ان تمام اقدامات کے ذریعے ریاست نے ہمیشہ محنت کشوں اور طلبہ کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دہشت گرد اور امن کے حمایتی ہمیشہ کی طرح ریاستی اداروں کی ناک کے نیچے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی سماج میں دہشت گردی ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس کی جڑیں جرائم پر مبنی کالی معیشت کی دلدل میں پیوست ہیں۔ یہ کالی معیشت پاکستان کی کل معیشت کا لگ بھگ چالیس سے پچاس فیصد بناتی ہے اور حکمران طبقہ ‘ ملا اشرافیہ اور اعلیٰ ریاستی اہلکار اسی کالے دھن کے کاروبار میں پوری طرح ملوث ہیں۔ اس کالی معیشت کے بڑھنے میں ہی ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقے کا مالی فائدہ ہے۔ کالے دھن میں حصہ داری کے ساتھ ساتھ اس سے جنم لینے والے دہشت گردریاست کے سامراجی عزائم کی تکمیل اور سماج پر حکمران اشرافیہ کا خوف مسلط کیے رکھنے کا بھی اہم اوزار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا رجعتی حکمران طبقہ اور ریاست کبھی بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کریں گے بلکہ مستقبل میں وہ ایک انقلابی تحریک کے خوف سے دہشت گردوں کی پشت پناہی میں مزید اضافہ کریں گے۔ دہشت گردی کو جنم دینے والی کالی معیشت، اس کی پروردہ یہ رجعتی ریاست اور اس کا وحشی حکمران طبقہ سب اس گلے سڑے سرمایہ د ارانہ نظام کی ہی پیداوار ہیں جو کہ سماج کے کروڑوں محنت کشوں اور کسانوں اور طلبہ کی زندگیوں کو تاراج کر رہا ہے۔ اس گلی سڑی سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے اور ریاست کو ’’روشن خیال‘‘ بنانے کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ صرف محنت کشوں، طلبا اور کسانوں پر مشتمل ایک انقلابی تحریک ہی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اس رجعتی ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کر سکتی ہے۔ جس کی کھلی فضاؤں میں مشعل جیسا ہر نوجوان آزادی سے سانس لے سکے گا۔