|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے بہاولپور میں موسم گرما کے پہلے ایریا مارکسی سکول کا انعقاد 13 جولائ بروز جمعہ کیا گیا۔ سکول میں 15 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جن میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا اور محنت کش شامل تھے۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن داس کیپیٹل چیپٹر (2-3) ”زر اور گردشِ اشیاء (اجناس)” پر تھا جس کو چیئر عرفان نے کیا اور لیڈ آف فرحان رشید نے دی۔
فرحان نے بات کا آغاز اشیاء کی دوہری فطرت یعنی قدر استعمال اور قدر تبادلہ سے کیا اور پھر اشیاء کے تبادلے کی ابتدا جو اشیاء بہ اشیاء کی صورت میں ہوا سے لے کر اشیا بہ عوض زر تک کا سفر بیان کیا۔ فرحان نے وضاحت کی کہ دو اشیاء آپس میں صرف اس بنا پر قابلِ تبادلہ ہوسکتی ہیں جب وہ آپس میں قابلِ موازنہ ہوں اور موازنے کی یہ قدر دراصل ان اشیا کو بنانے کےلیے ”ضروری سماجی محنت” ہے۔ جوں جوں شرح تبادلہ بڑھتی ہے تمام پیداواری قوتیں تبادلے کے لیے اشیاء پیدا کرنے لگتی ہیں اور ان کی قدر تبادلہ ان کی قدر کا تعین کرتی ہے۔ مارکیٹ کی وسعت سے ایک شے کیسے زر کا روپ دھارتی ہے اور تمام اشیاء اس میں اپنی قدر ظاہر کرتیں ہیں۔ اس کے بعد کیسے قیمتی دھاتیں زر کا روپ لیتیں ہیں۔ اس کے بعد فرحان زر کا مارکیٹ میں کردار اور اشیاء کی گردش میں کردار پر نظر ڈالتے ہیں اور زر کا سونا چاندی سے دیگر دھاتوں اور پھر پیپر منی اور ڈیجیٹل منی تک کا سفر بیان کرتے ہیں جو کہ مارکیٹ کے پھیلاؤ کے لیے ناگزیر تھا۔ اس کے بعد زر کی محدودیت اور بحران کے ادوار میں اس کے کردار پر بات کی اور آخر میں زر کے مستقبل (سوشلسٹ سماج میں) پر بات کرتے ہوئے لیڈآف ختم کی کہ زر چونکہ ذاتی ملکیت کی وجہ سے اشیاء کے ہونے والے تبادلے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے لہذا کمیونسٹ سماج میں ذاتی ملکیت کے خاتمے کیساتھ اشیاء کا تبادلہ (بیچنے کیلئے بننا) بھی ختم ہوجائیگا۔ اسکے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کے بعد فضیل اصغر نے بات کرتے ہوئے سرمایہ میں استعمال ہونے والی مختلف اصطلاحات جیسے شے، قدر، قدر تبادلہ، قدر استعمال، قدر کے تعین کا پیمانہ (سماجی ضروری وقت محنت) وغیرہ کی تشریح کی اور یہ بتایا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بحرانات کیوں جنم لیتے ہیں اور کیوں منصوبہ بند معیشت (سوشلسٹ نظام) ہی سماجی ارتقاء کی واحد ضامن ہے۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں فرحان نے پہلے سیشن کا سم اپ کیا۔
پہلے سیشن کے اختتام کے بعد پانچ منٹ کا وقفہ کیا گیا اور پھر دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ دوسرے سیشن کا عنوان لینن کی کتاب ‘ریاست اور انقلاب’ سے ماخوذ تھا جسے چیئر فضل نے کیا اور لیڈ آف یاسر ارشاد نے دی۔ یاسر نے کہا کہ ریاست اور اسکے تمام
ادارے درحقیقت موجودہ سماج کو قائم رکھنے، اسے ازلی و ابدی ثابت کرنے اور اسکے نظریات کو مقدم و مقدس ثابت کرنے کے آلہ کار ہیں اور ریاست کا وجود بھی طبقاتی سماج کے ساتھ آیا اور طبقاتی سماج میں ریاست کا مقصد ذرائع پیداوار پر قابض طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اسکے تمام ادارے چاہے وہ فوج ہو یا پولیس، تجارت ہو یا معاشرت، سب استحصال کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ایک سماج کے نظریاتی ادارے بھی درحقیقت حاکم طبقات کے نظریات کے پرچارک ہوتے ہیں۔ ریاست کے جنم اور کردار پر تفصیلا بات کرنے کے بعد یاسر ارشاد نے موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینک کر اسکی جگہ پر ایک مزدور ریاست کے قیام کی اہمیت پر بات کی۔ لیڈ آف کے اختتام پر مزدور ریاست کی بنت اور اہمیت کے حوالے سے بات کی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور سوالات کے بعد مختلف کامریڈوں نے اس بحث میں حصہ لیا جن میں عرفان، فرحان اور فضیل شامل ہیں۔ انہوں نے موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کے کردار اور اس کے بارے میں پائے جانے والے عمومی مغالطوں (جو حکمران طبقے کی جانب سے پھیلائے جاتے ہیں) پر بات کی اور انکے جوابات دیے۔ اسی طرح ریاست کے خلاف ہونے والی لبرل اور مارکسی تنقید میں فرق کو بھی واضح کیا اور یہ بتایا کہ ریاست پر لبرلوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید بنیادی طور پر طبقاتی کشمکش کے خوف کی بنیاد پر کی جاتی ہے (خاص طور پر بحرانی عہد میں) اور اس تنقید کا مقصد ‘اچھے طریقے’ سے سرمایہ دارانہ نظام (محنت کش طبقے کے استحصال پر چلنے والا نظام) کو چلانا ہوتا ہے نہ کہ اسکا خاتمہ کرنا۔ جبکہ ریاست پر مارکسی تنقید طبقاتی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے اور اسکا مقصد اس سرمایہ دارانہ ریاست کو مزدور ریاست بنانا ہوتا ہے۔
آخر میں یاسر ارشاد نے دوسرے سیشن کا اختتام کرتے ہوئے پاکستانی ریاست کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح آج عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں یہ ریاست بھی ایک شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے جس نے جہاں اسے ایک طرف کھوکھلا کر دیا ہے تو وہیں دوسری طرف اس حکمران طبقے کی نمائندہ ریاست کے اندرونی تضادات کی شدت کو بھی بڑھاتے ہوئے انہیں منظر عام پر لے آیا ہے۔ اسی طرح پاکستانی ریاست کے ارتقاء، اسکے کردار اور مستقبل کے حوالے سے بات کی۔ اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے یہ کہا کہ ریاست کے تمام ادارے استحصال کو قانونی تحفظ اور نجی ملکیت کو تقدس مہیا کرتے ہیں جبکہ یہی برائی کی حقیقی بنیادیں ہیں اور ایک سوشلسٹ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف ان اداروں کو تہس نہس کردے بلکہ انکی جگہ نئے سماجی ادارے قائم کرے جوکہ اپنی بنیادیں استحصال میں نہیں رکھیں گے اور نہ ہی نجی ملکیت کا تحفظ کرنے کا عزم رکھیں گے اور پرولتاریہ کی اقدار کو مقدس و مقدم جانیں گے۔
دوسرے سیشن کے اختتام کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ بہاولپور کے آرگنائزر کامریڈ رفیق چنڑ نے تمام دوستوں کو گلستان ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کو تین سال کے بعد ملنے والی عظیم الشان کامیابی جس میں تین سال کے بعد انہیں ملنے والی تنخواہ میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے کردار اور تمام کامریڈوں کے کردار پر سب کو خراج تحسین پیش کیا اور گلستان ٹیکسٹائل ملز کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا۔