|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پنجاب یونیورسٹی پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ جہاں ملک کے پسماندہ ترین خطوں کے طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کرتی ہے۔ پہلے بھی کرونا وبا کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رکھا مگر طلبہ کو کوئی بھی سہولیات فراہم نہ کی گئیں۔ اب حکمرانوں کی جانب سے یکم فروری سے آن کیمپس کلاسز کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس میں 50 فیصد تک طلبہ کو کیمپس میں بُلانے کی اجازت دی گئی ہے، تو پنجاب یونیورسٹی کے اکثر ڈیپارٹمنٹس نے صرف پہلے اور آخری سمیسٹر کے طلبہ کو آن کیمپس کلاسز کی شروعات کے لیے یونیورسٹی بلایا ہے اور باقی طلبہ مزید دو ماہ تک یعنی 31 مارچ تک آن لائن کلاسیں لیں گے اور ان کی آن کیمپس کلاسوں کا انعقاد یکم اپریل سے ہو گا۔
لیکن ان تمام طلبہ سے جنہوں نے اگلے دو ماہ آن لائن کلاسز لینی ہیں ان سے آن کیمپس کلاسز کی پوری فیس بٹوری جا چکی ہے، جس میں یونیورسٹی کے بجلی کے بِل، ٹرانسپورٹ، لائبریری وغیرہ کی فیسیں شامل ہیں جبکہ طلبہ ان میں سے ایک بھی سہولت استعمال نہیں کر سکیں گے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ تمام اضافی مدوں میں وصول کردہ فیس فی الفور طلبہ کو واپس کی جائے۔ اسی طرح طلبہ نے پچھلا پورا سال آن لائن کلاسز کے نام پہ مذاق سہا ہے جس میں طلبہ کو یونیورسٹی کی جانب سے نہ تو لیپ ٹاپ میسر تھے، نہ انٹرنیٹ، نہ ورچوئل لائبریریاں اور حتیٰ کہ گھروں میں بجلی بھی میسر نہیں تھی۔ اس کے علاوہ سائنس کے مضامین کے طلبہ جن کا اکثر عملی کام ہوتا ہے ان کا عملی کام بھی سلائیڈ شئیر پر سلائیڈز دکھا دکھا کر آن لائن کروایا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال میں آن لائن کلاسز کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہیں۔
اس وقت طلبہ کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی نے آن لائن کلاسیں جاری رکھنی ہیں تو طلبہ کی آدھی فیس ری فنڈ کی جائے، اور آن لائن کلاسز کی سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ بصورتِ دیگر طلبہ کو آن کیمپس کلاسوں کے لیے بلایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو طلبہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے ان تمام مطالبات کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ طلبہ کے حقوق کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ وہیں ہم طلبہ کو بھی یہ باور کرواتے ہیں کہ انہیں خود منظم ہو کر ان حکمرانوں سے اپنے حقوق چھیننے ہوں گے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں اور تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ پر مشتمل ایک کمیٹیاں تشکیل دیں جو کسی قسم کی انتظامیہ کی پالتو قیادت سے آزاد ہوں۔ اسی منظم جدوجہد سے طلبہ نہ صرف حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ سے آن لائن کلاسوں کی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ فیسوں کے مکمل خاتمے کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں۔