نیشنل سکول (کشمیر) کی تیاری کے سلسلے میں بہاولپور میں 3 اگست بروز جمعہ ایک روزہ مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا جو کہ دو سیشنوں پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن عالمی اور پاکستان تناظر پر اور دوسرا سیشن ما بعد جدیدیت کی مارکسی تنقید کے بارے میں تھا۔ پہلے سیشن میں کامریڈ فرحان نے لیڈ آف دی اور کامریڈ فیضان نے چیر کیا۔ فرحان نے اپنی بات کا آغاز سرمایہ داری اور اس کے ناگزیر بحران سے کیا کہ موجودہ عہد سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بدترین عہد ہے اور اب بحرانات سے کوئی راہ فرار موجود نہیں رہی اور دن بہ دن بحران مزید گہرا ہوتا جارہا جو ہرجگہ عدم استحکام کا موّجب بن رہا ہے۔ اور عالمی سطح پہ نئی دھڑے بازی اور تجارتی جنگ کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو فقط امریکہ کی خاطر ساری دنیا کو آگ میں جھونکنے کےلیے تیار نظر آتا ہے اب اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی خاطر تمام ممالک پر ٹیرف لگا رہا ہے۔ اور اس کے جواب میں دیگر ممالک بھی اتنا ہی ٹیرف لگا رہے ہیں جن میں چین اس وقت سرِفہرست ہے۔ امریکہ جہاں 1970 کے بعد سے آج تک کبھی مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ نہیں ہوا آج اپنے شہریوں سے مزید سہولیات پہ کٹوتیاں کر رہا ہے۔ مزید امریکی صدر جو دراصل امریکی بورژوازی کا ہی نمائندہ ہے نیٹو ممالک کے کل خرچے میں کم شمولیت پر بھی شدید غصے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ اور روس میں دوروں کے دوران بھی اسے شدید عوامی ردِ عمل سہنا پڑتا ہے۔ برطانیہ خود اس وقت بحرانات کے حملے سہتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے اور اپنے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پہ نظر ثانی کی توقع رکھتا ہے۔ مزید یورپی یونیینز کے ممالک جرمنی, یونان اور اٹلی بھی بری طرح مہاجرین کا دباؤ جھیل کے معاشی و سیاسی عدم استحکام کا شکار نظر آرہے ہیں جو مزید بڑھے گا, اس کے بعد لاطینی امریکہ میں میکسیکو میں آملو کی فتح دوبارہ لاطینی امریکہ میں امید کی کرن ہے۔ مگر سوشلسٹ بنیادوں پر اگر سیاست کو آگے نہیں بڑھایا جاتا تو ردِ انقلابی قوتیں طاقت پکڑیں گی اور مزید عدم استحکام ہوگا۔ وہیں برازیل اور ارجنٹینا میں بھی عدم استحکام واضح نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف اگر وینیزویلا پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں مستقبل قریب میں ایک بڑی مزدور تحریک کے آثار نظر آتے ہیں جو لمبے عرصے سے جاری شدید ترین معاشی پریشانیوں اور خاص طور پر شدید ترین افراط زر کا نتیجہ ہوگی۔ وہیں مشرق وسطیٰ میں عراق اور ایران میں بنیادی سہولیات کے مطالبات پر احتجاج دیکھے گئے۔ اسی طرح عالمی صورتحال کے بعد پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرحان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ انتخابات کے بعد واضح اقتدار میں نظر آنے والی پارٹی تحریک انصاف مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے جارہی ہے جسکا مطلب ہے مزید اداروں کی نجکاری اور محنت کش طبقے کی تنخواہوں میں کٹوتیاں اور بے روزگاری۔ پاکستان کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال پر تفصیل سے بات کرنے کے بعد فرحان کا یہ کہنا تھا کہ مستقبل میں پاکستان میں ہمیں بڑی بڑی تحریکیں دیکھنے میں ملیں گی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یاسر ارشاد نے پاکستان کے حالات کا تذکرہ کیا کہ اگلی حکومت دو سو کمپنیوں کی نجکاری کی طرف جارہی ہے جو ایک وسیع پیمانے پر بےروزگاری پیدا کرے گی۔ وہیں سی پیک بھی گلے میں طوق ثابت ہورہا اور دن بدن مزید حالات بدتر ہوں گے اور تحریکیں پھوٹیں گیں۔ اسکے بعد فضیل اصغر نے ساری دنیا کے حالات کے درمیان ربط جوڑا اور پوری دنیا میں ہونے والی سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں میں مشترکہ رجحانات کو واضح کیا اور انکے پاکستان پر پڑنے والے اثرات بیان کیے۔ اسی طرح پاکستان میں محنت کش طبقے اور طلبا کی تحریک کا تناظر پیش کیا۔
آخر میں فرحان نے اختتامی الفاظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ عہد جس میں سرمایہ داری مزید بحرانات میں دھنس رہی ہے محنت کش طبقہ اب مزید جبر سے تھک چکا ہے اور لڑنے کی طرف جائے گا ہم سوشلسٹوں کا فرض ہے کہ نہ صرف محنت کش طبقے کو جوڑیں بلکہ ان کو مارکسی نظریات سے لیس قیادت دیں اور ایک عظیم سوشلسٹ انقلاب کو نہ صرف راہ دِکھائیں بلکہ اس کو کامیاب بنائیں اور سرمایہ داری کے آہنی شکنجے سے چھٹکارا پائیں۔
دوسرے سیشن، جس کا عنوان پوسٹ ماڈرن ازم (ما بعد جدیدیت) پر مارکسی تنقید تھا، میں کامریڈ عرفان نے لیڈ آف دی۔ کامریڈ نے بیان کیا انسان ایک باشعور فطرتی نوع ہے اوریہ فطرت کو تسخیر کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے اور اس کے علاوہ گروہی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف نظریات اور فلسفوں کی تشکیل کرتا آیا ہے۔ اینگلز نے ان تمام کو دو بڑے گروہوں کو دو بڑے کیمپس میں تقسیم کیا ہے (عینیت پسندی اور مادیت پسندی)۔
ایک سماج میں حاکم نظریہ درحقیقت حاکم طبقے کا نظریہ رہا ہے اور سرمایہ داری میں کانٹ کا نظریہ مقبول ترین ہونے کا سبب بھی یہی ہے کیونکہ یہ ایک طرف مادے کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ انسانی تجربے سے مادے کی حقیقت معلوم نہیں کی جاسکتی۔ اسطرح سے یہ فلسفہ مادیت پسند ہونے کے باوجود خیال پرستی کی جانب لے جاتا ہے۔ آج کے دور میں خیال پرستی اپنی تعمیری صلاحیت کھو چکی ہے۔
مابعد جدیدیت، درحقیقت ایک ردعمل کا نتیجہ ہے جو پوسٹ کالونیل دور میں پرولتاریہ کی ناکامی نے پیدا کیا اور جس کا ایک بہت بڑا سبب سٹالنزم کی میکانکی تھیوری تھی۔ اور پس جدیدیت، اسکی کلچرل تھیوری اور شناخت کی سیاست (identity politics) نے تمام دنیا کے اندر مائیکرو پالیٹکس کا رجحان پیدا کیا۔ انقلاب اور سماجی تبدیلی کے تمام تصورات کو رد کر دیا اور ادب کو صرف ذات کے اظہار کا مریضانہ رنگ دے دیا اور ان نظریات نے بنی نوع انسان کو مادیت کی نسبت بیگانگی، نظریہ اور فلسفے سے محرومی اور تصوریت پسندی عطا کی جس کا تمام تر فائدہ حکمران سرمایہ دار طبقے کو ہے۔ مگر آج لوگ بے چین ہوکر ایک نئے نظریے کو تلاش کررہے ہیں اور وہ نظریہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ جس نے 1917 میں دنیا کے سامنے عملی طور پر فاشزم کی طرف جانے کی بجاے حقیقی آذادی کا راستہ دکھایا۔ یہ انقلابیوں کا فرض ہے کہ وہ اس نظریے کو پرولتاریہ تک پہنچائیں۔ اسکے بعد فضیل اصغر نے بات کرتے ہوئے مابعد جدیدیت کے موجودہ جمہوری مطالبات پر مبنی تحریکوں، جن میں نسوانیت پرستی (فیمنزم) اور قومی حق خود ارادیت کی تحریکیں شامل ہیں میں موجودگی کی نشاندہی کی اور اسکے ساتھ ساتھ سٹالنزم کے جرائم پر بھی بات کی اور مابعد جدیدیت جیسے فلسفے، جو خیال پرستی کی ایک گھٹیا شکل ہے کے ابھار میں سٹالنزم کے کردار پر بھی بات کی اور دور حاضر کے جدید ترین فلسفے، جدلیاتی مادیت کی اہمیت پر بات کی۔