حیدرآباد: سندھ شاگرد اتحاد کا جنسی ہراسانی کے خلاف مارچ

|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|

3 نومبر 2019ء بروز اتوار، سندھ شاگرد اتحاد کے زیر اہتمام نسیم نگر چوک قاسم آباد سے حیدرآباد پریس کلب تک جنسی ہراسانی کے خلاف پیدل مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ مارچ میں عورت مانگے آزادی، صنفی جبر سے، سرمایہ داری سے، آزادی کے نعرے پرجوش انداز میں لگائے گئے۔ یہ مارچ جوش و ولولے کے ساتھ پریس کلب پر پہنچ کر ایک جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔

اس مارچ میں وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھرپور شرکت کی۔ کامریڈ انیل نے سندھ شاگرد اتحاد کی پوری ٹیم کو مبارک باد دے کر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراسانی ایک ادارے یا ملک کا نہیں بلکہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس کی روک تھام کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ، طلبہ اداروں کے اندر منظم ہو کر اسکے خلاف جدوجہد کریں جو صرف طلبہ یونین کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا تعلیمی اداروں میں اسکی روک تھام کیلئے ہمیں طلبہ یونین کی بحالی کیلئے جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔ اسی طرح دوسری طرف لبرل خواتین و حضرات کہتے ہیں کہ یہ مسائل یورپ و امریکہ میں نہیں اور اس طرح وہ نوجوانوں کو جھوٹے خواب دکھا کر حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’می ٹو‘ تحریک، جو اکتوبر 2017 میں شروع ہوئی، میں ہالی ووڈ کے پروڈیوسرز اور نام نہاد انسانی حقوق کے سربراہان کے نام منظر پر آئے۔ آج کل یہ نام نہاد ’انسانی حقوق‘ کی جدوجہد کرنے والوں میں ایک فیشن بن چکا ہے۔

بلوچستان سکینڈل میں واضح طور پر یہ وردی والے جرنیل، کرنیل اور اسمبلی میں بیٹھے سردار و بیروکریٹ نیا کچھ نہیں کر رہے بلکہ یہ سامراجی گماشتے اپنے باپ اور آقا کی پیروی کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ ”عورت آزاد، سماج آزاد“، یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوتا جارہا ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ عورت کو کوئی بھی انتظامی عہدہ دے کر عورتوں کو آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے دفتر، تعلیمی اداروں، مارکیٹ اور ٹرانسپورٹ وغیرہ میں جنسی ہراسانی ختم ہوگئی؟ جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ مسئلہ کا حل نظام کی تبدیلی ہے جو عورت اور مرد، دونوں کی حقیقی آزادی یعنی معاشی آزادی کا ضامن ہو۔ جو موجودہ دور میں سوشلزم کے علاوہ کوئی دوسرا ماڈل نہیں، جو عورت کو سب سے پہلے مفت محنت یعنی خاندان کی بے مطلب ذمہ داریوں سے آزاد کرئے۔ اجتماعی لانڈری اور اجتماعی باورچی خانوں کا انتظام کر کے عورت کو سماج میں اپنا حقیقی کردار ادا کر نے اور سماج کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے کا ماحول فراہم کرے، جس کی واضح مثال سویت یونین سے ملتی ہے۔

یہ لبرل و فیمنسٹ خواتین و حضرات یہاں ایک سوال ضرور اٹھائیں گے کہ، جب تک سوشلزم نہ آئے تب تک عورتوں پر جبر جاری رہے؟ یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ ہم تمام تر جمہوری مطالبات کی حمایت کرتے ہیں جن میں عورت کی سماجی آزادی بھی شامل ہے اور اگر کہیں خواتین کو کوئی مراعات مل رہی ہوں، سماجی جبر سے کسی بھی شکل میں آزادی مل رہی ہو تو ہم اسکی حمایت کریں گے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ نظام باقی ہے خواتین کو ”مکمل“ اور ”مستقل بنیادوں پر“ آزادی نہیں مل سکتی۔ پدر سری سماج کا خاتمہ صرف ذاتی ملکیت کے خاتمے کیساتھ ہی ممکن ہے، جس کیلئے ہمیں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا جو پھر عالمی انقلاب کی صورت میں اس طرز پیداوار کو عالمی سطح پر لے جائے گا اور اس طرح بتدریج ذاتی ملکیت کے مکمل خاتمے سمیت سماج میں موجود جبر کے تمام تر آلات مثلا ریاست، خاندان وغیرہ کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے پدر سری کی بنیادوں کا بھی کاتمہ کرے گا اور عورت کو حقیقی معنوں میں آزاد کروئے گا۔

لہٰذا تمام تر جمہوری مطالبات کی جدوجہد (صنفی جبر، قومی جبر وغیرہ) مختلف دریاوں کی صورت میں طبقاتی جدوجہد کے ایک بڑے سمندر میں اتر جاتی ہے۔ اس لیے ان تمام جبر و امتیازات کے خاتمے کا واحد ضامن سوشلزم، سوشلزم اور سوشلزم ہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.