دادو: پی وائی اے کے زیر اہتمام’’ڈارونزم اور مارکسزم‘‘ کے عنوان پر لیکچر پروگرام کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس دادو|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے بروز اتوار 21اکتوبر کو دادو میں ’’ڈارونزم اور مارکسزم‘‘ کے عنوان پر لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں چیئرمین کے فرائض کامریڈ سلیم نے ادا کیے اور لیکچر کامریڈ فرمان جمالی نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا سائنس کی دنیا میں دیے گئے نظریوں میں سب سے زیادہ حقیقی اور جدید ہے۔ ایسا کوئی نظریہ ابھی تک نہیں آیا جو ارتقا کے نظریے کو رد کرے۔ بعد میں آنے والے سب عظیم سائنسدان ڈارونزم کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی نقطہ نظر سے تحقیق و تشریح کرتے آرہے ہیں۔ کائنات، زمین اور زمین پر زندگی کا وجود یہ سب ارتقا ہی کے ذریعے وقوع پزیر ہوا ہے۔ ڈارون نے اپنے نظریے کو تحقیق کی بنیاد پر کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ سچ ہے۔ ڈارون نے اپنے بحری سفر میں ہر قسم کے حیاتیاتی اجسام جمع کئے اور رکازیات پر تحقیق کی۔ ڈارون نے دیکھا کہ ایک ہی قسم کے پرندے مختلف علاقوں اور ملکوں میں مختلف ہیں اور ان میں ہم آہنگی بھی ہے۔ اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ان سب جانداروں کے جد ایک ہی رہے ہوں گے۔ جس سے اس نے شجر۔حیات کی تشریح کی۔ 
لیکچر کے کے اختتام پرسوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر شرکاء نے بھی بحث میں حصہ لیا۔کامریڈ فرمان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ جو ایک ہی جنس کے حیوانات میں ظاہری اختلاف ہم دیکھتے ہیں یہ ماحول اور جینز کی مشترکہ وجوہات سے عمل میں آتا ہے۔ جس کو ڈارون نے “فطری انتخاب” کا نام دیا ہے۔ اس نے کہا کہ ڈارونزم پر مارکسسٹ تنقید بجا ہے اور مارکسسٹ تنقید ڈارون کی تحقیق کو رد نہیں کرتی بلکہ اسے مکمل اور درست کرتی ہے۔ اور وہ تنقید یہ ہے کہ فطرت میں بھی سماجوں کی طرح چھلانگیں لگتی ہیں جس سے حیاتیات کی ایک جنس آگے چل کر ایک اور مگر مختلف جنس میں بدل جاتی ہے۔ یہ جدلیات کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ کامریڈ فرمان نے کہا کہ مارکس اور اینگلز کے نزدیک ڈارون کی تحقیق سے انہیں جدلیات کا فطرت سے ثبوت ملتا ہے۔ 
اس کے بعد کامریڈ شہزور بزدار نے بحث میں حصہ لیا۔ شہزور نے انسانی ارتقا پر ڈارونزم کے موقف کی تشریح کی اور وہ سماجی حالات بتائے جن کے تحت انسان بن مانس سے وجود میں آیا۔ اس نے کہا کہ دو ٹانگوں پر چلنا، ہاتھ کا آزاد ہو جانا اور گوشت خوری کی وجہ سے انسان کا ارتقا ہوا ہے۔ جدید سائنس ڈارون کی ارتقا کی تھیوری کو مانتی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جب ڈارون نے حیاتیاتی ارتقا کی تھیوری دی تھی تو اسی دور میں کارل مارکس نے سماجوں کے ارتقا کی تھیوری دی۔ مارکس نے جدلیاتی مادیت کے نظریے کے تحت سماجوں کی تاریخ واضح کی اور ’ارتقا‘ میں چھلانگوں کو شامل کیا۔ جدید سائنس کی ڈارونزم پر تحقیق ڈارونزم کی مارکسی تشریح سے ہم آہنگ ہے۔ یہ جدلیات اور مارکسزم کی درستگی کا عمل نمونہ ہے ۔
اس کے بعد کامریڈ ستار نے بحث میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ارتقا کا نظریہ فطرت اور سماج کے علاوہ انسانی ضروریات کی پیداوار میں بھی ثابت ہوتا ہے۔ پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ارتقائی ہے اور پیداوار میں بھی آسانی اور خوبصورتی ارتقائی ہے۔ ارتقا کا نظریہ ہر جگہ زیر عمل ہے۔ 
آخر میں کامریڈ خالد جمالی نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے ڈارون کی زندگی کا مختصر تعارف کرایا اور ڈارون کے 5 سالہ بحری سفر اور اس کی سائنسی تحقیق کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مارکسزم اور ڈارونزم میں ہم آہنگی اور اختلاف کو واضح کیا اور کہا کہ مارکسزم ڈارونزم میں تصحیح اور اضافے کا نام ہے۔ انہوں نے کہا جدید سائنسی تحقیق جو ڈی این اے پر کی گئی ہے اس سے بھی پتہ چلا ہے کہ ڈی این اے کا مالیکیول اپنے اندر چار حروف کی کوڈنگ رکھتا ہے جس میں اے،ٹی،سی اور جی شامل ہیں جو ہر جاندار کی بنیاد ہیں۔ ان چار حروف کی محدود دائرے میں ردوبدل کسی جنس کے ظاہری روپ میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے جو آگے چل کر بڑی مدت کے بعد کسی نقطے پہ چھلانگ لگا کر جنس کی تبدیلی کی وجہ بنتی ہے۔ ہر طرح کے جانداروں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ان کے ڈی این ایز کی کوڈنگ مختلف ہوتی ہے۔ کامریڈ خالد نے بتایا کہ ’فطری انتخاب‘ او ر ’بقا کے لئے جدوجہد ‘ ڈارون کے دو خاص نظریے ہیں۔ اس نے ڈارونزم کے نظریے ’بقا کے لئے جدوجہد‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ فطرت میں یہ لازم نہیں ہوتا کہ سب سے زیادہ طاقتور یا ذہین اپنی بقا کر پائیں۔ بہت سے مواقعوں پر سب سے زیادہ کمزور بھی اپنی بقا میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اسی طرح ’فطری انتخاب‘ کا عمل چلتا ہے۔
آخر میں کامریڈ سلیم نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور پروگرام کا اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.