لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کیساتھ فراڈ، فیسوں میں اضافہ کر دیا گیا

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

Fraud with students in Punjab University Lahore fees have been increased

تمام تعلیمی اداروں کی طرح پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ  نے بھی لاک ڈاؤن میں آن لائن کلاسز کا آغاز کیا تھا جس کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے بھرپور آواز اٹھائی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد نے چند ہفتوں پہلے اعلان کیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ سے صرف ٹیوشن فیس وصول کی جائے گی اور  ٹرانسپورٹ اور دیگر مدوں میں فیسیں وصول نہیں کی جائیں گی، بلکہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے لاک ڈاؤن میں طلبہ کو مفت پڑھانے کی مہم بھی چلائی تھی۔ یہ سن کر طلبہ جشن منا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ شاید وائس چانسلر واقعی ہی طلبہ کو  کسی قسم کا ریلیف دینے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات کا مقصد طلبہ کو بیوقوف بنانا تھا۔

لیکن اب چند روز پہلے پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کو ڈپارٹمنٹ سے جلد از جلد تمام اخراجات سمیت فیسیں جمع کروانے کا حکم صادر کیا گیا ہے اور ایک نیا جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ یہ فیسیں احتیاطاً وصول کی جا رہی ہیں۔ فیسیں معاف کرنا یا کم کرنا تو دور اس بار فیس چالان میں ڈپارٹمنٹل ڈیوز کی اضافی فیس بھی شامل کر دی گئی ہے اور اسی طرح رجسٹریشن فیس اور امتحانی فیسوں میں بھی ہزاروں روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

اسی طرح جہاں ایک طرف طلبہ کے تعلیمی اخراجات میں اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اساتذہ کی تنخواہوں میں لاک ڈاؤن کے باعث کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ معاہدے کے مطابق اب سرکاری ملازمین جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں ان کی تنخواہ میں کوئی سالانہ اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

اگر اساتذہ کی تنخواہوں میں اسطرح کٹوتیاں کرنی ہیں تو فیسوں میں اضافہ کر کے کیا کرنا ہے؟ کیا طلبہ سے وصول کی جانی والی یہ فیسیں بھی عوام سے لیے جانے والے ٹیکسوں کی طرح حکومت کے خزانے میں جمع ہونی ہیں؟ کیا اب یہ ریاست بجائے عوام کی تعلیم اور علاج پر عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کرنے کے ان اداروں کو بھی لوٹ مار کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے؟

تعلیمی اداروں کے اندر جاری نجکاری کا حالیہ حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حکومت تعلیمی اداروں کو خود کفیل کرنے کے نام پر ان کی نجکاری کرنے کے در پے ہے اور چاہتی ہے کہ ان اداروں کو بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن پاکستان کے طالب علم اس سارے ڈرامے سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے حملوں سے با خبر ہیں۔ یہ حکومت کی بھول ہے کہ وہ طالب علموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس سمیسٹر میں تو جیسے تیسے کر کے طلبہ نے فیسیں بھر دیں مگر معاشی تباہی کی صورت حال میں اگلے سمیسٹر کی فیس ادائیگی اکثریت کیلئے ناممکن ہے، لہٰذا طلبہ کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ ملک گیر احتجاجی تحریک کی جانب بڑھیں۔

پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ آج طلبہ کو سماج کی دیگر پرتوں جیسے مزدوروں اور کسانوں، کو بھی اپنے ساتھ اس جدوجہد میں شامل کرنا ہوگا۔ آج مزدوروں پر پے در پے حملے کیے جا رہے ہیں۔ کہیں انہیں نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے، کہیں مہینوں کی تنخواہیں نہیں دی جارہیں اور کہیں سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے ان سے روزگار چھینا جا رہا ہے، اور دوسری طرف کسان بھی تباہ حال ہیں۔ بالخصوص ٹڈی دل کے حملے کے بعد اور مہنگی کھادوں سمیت دیگر مہنگے لوازمات کو پورا نہ کر پانے کی وجہ سے کسان خود کشیاں کرنے مجبور ہیں۔ ریاست، سرمایہ داروں کیلئے عام عوام کا خون چوسنے میں آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ ایسے میں ہمیں بھی اپنی جدوجہد کو وسیع اور تیز کرنا ہوگا۔ آج نوجوان طلبہ کے اصل اتحادی مزدور اور کسان ہی بنتے ہیں۔ ہمیں آج انکے ساتھ مل کر ملک گیر عام ہڑتال کرنی ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.