عالمی سطح پر تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو اس کرۂ ارض پر رہنے والے تمام افراد کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کی معیشت اس وقت شدید بحرانوں کا شکار ہے اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی مہنگائی اور بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے نوجوان اور محنت کش بھی احتجاجوں اور عوامی تحریکوں میں بڑے پیمانے پر شرکت کر رہے ہیں۔ معیشت کے ان بحرانوں نے دنیا بھر کی سیاست کو بھی مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اب انقلابی سوشلزم کے نظریات دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں طالبعلم اب مارکس اور لینن کی تحریروں میں بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں اور خود کو فخر سے سوشلسٹ اور مارکسسٹ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اسی دوران وہ اپنے اپنے ملک کے حکمران طبقات کیخلاف بھی منظم ہو کر انقلابی تحریکوں میں شامل ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی خواتین پر صنفی جبر، مظلوم قومیتوں کے استحصال، رنگ، مذہب اور نسل کے نام پر تفریق، سامراجی جنگوں اور دیگر تمام مسائل کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے محنت کشوں سے اظہار یکجہتی بھی کر رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال دنیا بھر میں رائج الوقت سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کر رہی ہے اور ماضی میں کئی دہائیوں سے قائم اسٹیٹس ٹوٹ رہا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں جو ایک طویل عرصے سے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے ایک ہی جیسی پالیسیاں بناتی چلی آ رہی تھی اور جن کے نام تو مختلف تھے لیکن کردار اور اصلیت ایک ہی تھی، وہ اب صفحہ ہستی سے مٹتی جا رہی ہیں۔ ان کی جگہ اب نئی پارٹیاں اور نئی تحریکیں اُبھر رہی ہیں جو عوام کی وسیع اکثریت کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔ خاص طور پر ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں بد ترین استحصال کا شکار پرتیں تیزی سے ان انقلابی نعروں اور پروگراموں کی جانب متوجہ ہو رہی ہیں اور تیزی سے ان میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں۔
گزشتہ عرصے میں خواتین کے حقوق کے لیے دنیا بھر میں وسیع عوامی تحریکیں اُبھری ہیں۔ ان تحریکوں کے مطالبات میں عورتوں کے لیے مردوں کے برابر تنخواہوں کی ادائیگی، جنسی ہراسانی اور عورت دشمن قوانین کا خاتمہ شامل تھا۔ حکمران طبقات نے ریاستی جبر کے ذریعے ان تحریکوں کو کچلنے کی بہت سی کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں عورتوں کے متحرک ہونے اور انقلابی مردوں کے شانہ بشانہ موجودگی کے باعث بہت سی جگہوں پر یہ تحریکیں اپنے بہت سے مطالبات منوانے میں کامیاب بھی ہوئیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور چلی سے لے کرایران، انڈیا اور بنگلہ دیش تک عورتوں کے حقوق کے لیے بہت سے احتجاج ہوئے اور انہیں کسی نہ کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔ جہاں ان تحریکوں کو ریاستی جبر کا مقابلہ کرنا پڑا وہاں بہت سے ہمدردوں کے غلط نظریات سے بھی لڑائی لڑنی پڑی۔ کچھ لوگ اس لڑائی کو حکمران طبقے اور ظالمانہ ریاست کیخلاف لڑائی کی بجائے اسے عورت اور مرد کی لڑائی بنا کر پیش کرتے ہیں جس کا مقصد اس عوامی تحریک کو کمزور کر کے زائل کرنا اور اس کی توجہ حکمرانوں کے مظالم کی بجائے باہمی چپقلشوں کی جانب موڑ دینا ہے۔ یہ درست ہے کہ خواتین پر ہونے والے جبر کا الزام مردوں پر ہی آتا ہے اور ایک طبقاتی نظام میں عورت کو ہمیشہ نچلے درجے کا انسان ہی سمجھا گیا ہے اور اسے سماجی عمل سے کاٹ کر گھر کی چا ردیواری تک محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کا الزام پورے سماجی ڈھانچے اور تاریخی طور پر موجود سماجی-معاشی نظام کو دینے کی بجائے صرف مردوں پر عائد کر دینا درست نہیں۔ اسی طرح مردوں کی حاکمیت پر مبنی پدر شاہی کا خاتمہ موجود ہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مساوات پر مبنی نظام مقائم کیا جائے جس میں، جہاں امیر اور غریب کی تقسیم کا خاتمہ ہو گا وہاں ایک مزدور ریاست میں خواتین کو مردوں کے جبر سے بھی آزادی ملے گی۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق پر مبنی موجودہ نظام میں خواتین بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہیں۔ ایک طرف حکمران طبقے کی خواتین ہیں جن کے لیے دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کش خواتین ہر طرح کے معاشی جبراور سماجی گھٹن کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی صورتحال مزید بد تر ہے کیونکہ یہاں ریاست کے تمام اداروں اور قوانین میں عورت دشمنی جڑتک سرایت کر چکی ہے۔ اس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کے بہت سے بیانات میں واضح ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کی حالت زار میں یہ ملک دنیا کے ڈیڑھ سو سے ذائد ممالک کی فہرست میں آخری نمبروں پر ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی عام ہے اور بہت سی طالبات پروفیسروں کی بلیک میلنگ کے باعث خود کشی تک پر مجبور ہو جاتی ہیں جبکہ اکثر یا تعلیم کا سلسلہ بند کر دیتی ہیں یا خاموشی سے یہ ظلم برداشت کرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں خواتین کی خواندگی کی شرح مردوں کی نسبت پہلے ہی انتہائی کم ہے اور کروڑوں بچیاں سکول تک ہی نہیں پہنچ پاتیں۔ اسی طرح لڑکیوں کی پیدائش کو ایک المیہ، ایک بوجھ اور قدرت کا امتحان قرار دیا جاتا ہے جبکہ الٹرا ساؤنڈ کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہزاروں بچیاں پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دی جاتی ہیں۔ ریاستی مظالم کے ساتھ اسی حکمران طبقے کی گماشتگی کرتے ہوئے ملا، میڈیا اور دیگر ذرائع سے بھی عورتوں کیخلاف ہر طرح کازہر مسلسل اُگلا جاتا ہے اور عورت کیخلاف ہونے والے جرم کا ذمہ دار بھی اسی عورت کو ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ ریپ ہو، پسند کی شادی کے بعد کارو کاری یا غیرت کے نام پر قتل اس ملک کی عدالتیں، پولیس، ملا ئیت اور دیگر تمام سماجی اور ریاستی ادارے عورتوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ایسے میں انقلابیوں کا فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ اس سماجی جبر کیخلاف آواز بلند کریں اور اس کے خاتمے کی جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد میں عورتیں تنہا نہیں بلکہ اپنے مردمحنت کش اور انقلابی ساتھیوں کے شانہ بشانہ میدان میں اتریں گی اور صرف عورتوں پر مظالم کیخلاف ہی نہیں بلکہ مہنگائی، بیروزگاری، قومی جبر اور ہر طرح کی سماجی نا انصافی کیخلاف بھی تحریک برپا کریں گی۔ آج سے ایک صدی قبل انقلاب روس کا آغاز بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہوا تھا اور آج بھی خواتین پر ہونے والا جبر اور ان میں پنپتی بغاوت کسی بہت بڑے انقلابی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ ایک دفعہ یہ طوفان اُمڈ آیا تو اس سرمایہ دارانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔