کمیونزم کے نظریات کی مقبولیت دنیا بھر کے نوجوانوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے نوجوانوں کے ہونے والے مختلف سروے میں یہ رجحان واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ 18 سال سے لے کر 34 سال تک کے نوجوانوں کی اکثریت کمیونزم کے نظریات کو پسند کرتی ہے اور اپنے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام ختم کر کے کمیونسٹ نظام رائج کرنا چاہتی ہے۔ فریزر انسٹیٹیوٹ نامی ادارے کے ایک سروے کے مطابق اس عمر کے نوجوانوں میں برطانیہ کے 29 فیصد، امریکہ کے 20 فیصد، آسٹریلیا کے 20 فیصد اور کینیڈا کے 13 فیصد نوجوان کمیونزم کو اپنے لیے آئیڈیل نظام مانتے ہیں۔ دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے نوجوانوں میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے کروڑوں نوجوان اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے عوام دشمن حملوں سے تنگ آ چکے ہیں اور ایک انقلابی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ دنیا کے پسماندہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریاں اور بربادی پہلے ہی سے دیکھی جا رہی ہے جو ہر جگہ جنگیں، بھوک، بیماری اور قحط مسلط کر رہا ہے۔ لیکن اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ نظام پہلے جیسا معیار زندگی دینے کے قابل نہیں رہا اور وہاں بھی بڑے پیمانے پر مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پھیلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں لاکھوں افراد حکمرانوں کی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں اور وہاں پر مزدور طبقے کی ہڑتالوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نوجوانوں کے لیے سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ مستقبل میں بھی اس نظام میں بہتری کے کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہے اور خود اس نظام کے رکھوالے یہ کہہ رہے ہیں کہ آنے والی ایک سے دو دہائی تک عالمی معیشت کو بحرانوں سے نہیں نکالا جا سکتا۔ دوسرے الفاظ میں کروڑوں نوجوانوں کے لیے اس نظام میں کوئی مستقبل نہیں اور وہ دو وقت کی روٹی اور سر پر چھت کے حصول کے لیے دن رات مشقت کرنے پر مجبور رہیں گے اور پوری زندگی انہیں سکون اور آرام نصیب نہیں ہو سکے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سٹوڈنٹس کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور وہاں پر تعلیم کے لیے قرضے مہنگے ہوتے جا رہے ہیں جبکہ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد میں طلبہ ڈیلیوری کا کام کر کے یا ٹیکسی چلا کر گزارہ کر رہے ہیں لیکن دن رات کام کرنے کے بعد بھی مستقل روزگار کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس دوران وہاں علاج اور دیگر بنیادی سہولیات ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور جو سہولیات پہلے ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جاتی تھیں اب حکمرانوں کی کٹوتیوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں یا مہنگی ہوتی جا رہی ہیں یا بالکل ہی ختم ہو چکی ہیں۔ اسی طرح پنشن سسٹم سمیت دیگر بنیادی سہولیات بھی ختم کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں تمام نوجوانوں کو اپنے سامنے سرمایہ دارانہ نظام میں ایک تاریک مستقبل کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
ترقی یافتہ ممالک میں نام نہاد جمہوریت اور فلاحی ریاست کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے۔ نوجوانوں پر آئے روز پولیس کے تشدد اور دیگر کاروائیوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں اور اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے کی پاداش میں فرانس جیسے نام نہاد جمہوری ملک میں بھی جھوٹے مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ حال ہی میں فلسطین کی آزادی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی یورپ اور امریکہ میں لاکھوں افراد نے حصہ لیا جن کو بد ترین ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سی یونیورسٹیوں نے بھی فلسطین کے حق کے لیے ہونے والے پروگرام کینسل کر دیے اور منتظمین کو یونیورسٹی سے نکالنے یا معطل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اس تمام عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور نوجوانوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر براجمان تمام سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں سے نفرت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم کے نظریات کا پرچار کرنے والی تنظیمیں اب بڑی پارٹیوں کا روپ دھارنے کی جانب بڑھ رہی ہیں اور ان کی ممبر شپ میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ رجحان صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں انقلابی نظریات مقبول عام ہوتے جا رہے ہیں اور ایک طویل عرصے سے براجمان حکمران طبقات اور ان کی ریاستیں، عقائد اور نظریات کی بنیادیں ہل رہی ہیں جو آنے والے عرصے میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنیں گی۔ سری لنکا اور ایران کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ کیسے عوام جب اپنے حقوق کے لیے باہر نکلتے ہیں تو حکمرانوں کے ایوان کانپ اٹھتے ہیں اور وہ اپنی تمام تر طاقت، جبر اور فرعونیت کے باوجود عوامی تحریکوں کا رستہ نہیں روک سکتے۔
پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ یہاں بھی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی مسلط کردہ تمام سیاسی پارٹیوں کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور نوجوانوں میں ان سب کیخلاف شدید نفرت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے الیکشنوں کے حوالے سے بھی کسی نوجوان کو کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی کسی کو امید ہے کہ ان الیکشنوں کے بعد ان کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل ہو سکے گا۔ بیروزگاری اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن تمام پارٹیوں بشمول تحریک انصاف کے پاس آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں۔ درحقیقت آج ملک کے تمام مسائل کی بنیاد ہی یہی پالیسیاں ہیں جنہیں اب بھی حل قرار دیا جا رہا ہے۔
ایسے میں نئی عوامی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں جن کی قیادت ایسے لوگ کر رہے ہیں جن کا کسی بھی رائج الوقت سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی تحریکوں کو میڈیا میں کوریج نہیں دی جاتی اور نہ ہی کوئی بھی سیاسی لیڈر ان پر تبصرہ کرتا ہے۔ ان کو خوف ہے کہ ان تحریکوں کی کسی بھی حوالے سے پبلسٹی ان کے نظام اور ان کی سیاست کو ختم کرنے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ تحریکیں نہ صرف ابھر رہی ہیں بلکہ ان کے حجم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ بجلی کے بل دینے سے انکار کر چکے ہیں اور گزشتہ چھ ماہ سے بجلی کے بل ادا نہیں کر رہے۔ ان کے میٹر کاٹنے کی کوششوں یا گرفتاریوں کا جواب انہیں عوامی رد عمل سے دیا ہے اور لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں جن میں گاؤں کی بوڑھی خواتین تک نے بھی بھرپور شرکت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت مذاکرات کے ذریعے اس تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے گاؤں سے لے کر مرکزی سطح تک منظم عوام ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کی تحریک نے بھی پچھلے ماہ حکمرانوں کے ایوان ہلا کر رکھ دیے۔ پنجاب میں 48 ہزار سرکاری سکول بیچنے کی کوشش پر لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ اور طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور بد ترین ریاستی جبر کے باوجود اپنی تحریک کو کامیابی سے آگے بڑھاتے رہے۔ ان کے ساتھ کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر اداروں کے ملازمین بھی اپنے بنیادی مطالبات کے لیے باہر نکل آئے تھے۔ جب مرکزی قیادت کو لاہور سے گرفتار کیا گیا اس کے بعد ہونے والے احتجاجوں میں لاکھوں کی تعداد میں افراد نے حصہ لیا اور پورے پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں میں یہ تحریک پھیل گئی تھی۔ تحریک کے دباؤ پر ہی قیادت کو رہا کیا گیا۔ آنے والے عرصے میں اس سے بھی بڑے احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ خاص طور پر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ اپنے مسائل کے خلاف بھرپور احتجاج کر سکتے ہیں جس کی شاندار مثال گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ نے قائم کی ہے۔
اس صورتحال میں جو کمی محسوس کی جا رہی ہے وہ انقلابی نظریات کی ہے۔ اگر اس وقت ملک بھر کے نوجوان خود کو کمیونزم کے انقلابی نظریات سے خود کو لیس کریں اور ان تحریکوں تک یہ پیغام لے کر جائیں تو یہاں ایک ایسی نئی پارٹی کی تعمیر کی جا سکتی ہے جو یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے اور یہاں سے ہر قسم کا ریاستی جبر، بھوک، بیماری، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے۔