یونیورسٹیوں کی بندش، کورونا کے پیچھے چھپتی تعلیم دشمن حکومت

|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس|

چھ ماہ کی طویل بندش کے بعد بالآخر حکومت پاکستان نے چند روز پہلے مرحلہ وار تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے فیصلہ کیا اور 15 ستمبر سے ملک بھر میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس حوالے سے ایس او پیز جاری کی گئیں اور کہا گیا کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مرحلہ وار کھولا جائے گا۔ 15 ستمبر کو تعلیمی ادارے کھلنے کے ساتھ ہی ملک بھر کے سکولوں میں پہلے مرحلہ پر نویں اور دسویں جماعتوں کے طلبہ کو بلا یا گیا اور اب دوسرے مرحلہ میں چھٹی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ سکول جا سکیں گے۔ مگر جب یونیورسٹیاں کھولنے کی بات آئی تو کم و بیش ہر بڑی سرکاری یونیورسٹی نے ہائبرڈ ماڈل متعارف کروایا جس میں چند ایک سیشنز کو چھوڑ کر طلبہ کی ایک بھاری اکثریت کے لیے آن لائن کلاسز کو ہی جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں تشویش کی ایک لہر پائی جاتی ہے۔ اس گومگو کی کیفیت میں کوئی صورتحال واضح نہیں کی جا رہی ہے اور ابھی تک جاری کردہ نوٹسز کے مطابق مستقبل قریب میں کوئی بڑی یونیورسٹی حقیقی معنوں میں کھلتی نظر نہیں آ رہی۔ اس پالیسی کو وضع کرنے والوں کی عقل پر ہنسی آتی ہے جیسے، جن طلبہ کو فزیکل امتحانات کے لیے بلایا گیا ان کو ہاسٹل کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی جیسے کورونا صرف انہیں یونیورسٹیوں کے ہاسٹل میں چھپا بیٹھا ہے اور جیسے ہی طلبہ ہاسٹلوں میں قدم رکھیں گے تو وہ حملہ کر دے گا۔ پنجاب یونیورسٹی نے تو ایک قدم آگے جاتے ہوئے آن لائن کلاسز لینے والے طلبہ کے لیے فیسوں میں کمی کا اعلان بھی کر دیا۔ اس ساری صورتِ حال میں جہاں ایک طرف یونیورسٹیوں کے طلبہ میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں بچی کھچی خستہ حال اعلیٰ تعلیم کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا نظر آ رہا ہے۔ عوام دشمن حکومت کرونا کی آڑ میں کر اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کرنے کے درپے ہے۔

گو کہ حکومت کی جانب سے کرونا وباء پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں پایا جا سکا اس لیے حکومت نے اموات کی کم شرح بتاتے ہوئے پہلے تو میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کورونا کے کیسز پاکستان میں ختم ہو چکے ہیں اور پھر ٹیسٹنگ کا بھی تقریباً خاتمہ کر دیا تاکہ کاروبارِ زندگی کو بحال کیا جا سکے اور لاک ڈاؤن کو ختم کیا جا سکے۔ ویسے تو پاکستان میں لاک ڈاؤن میں بھی مؤثر لاک ڈاؤن نہیں رہا (پہلے ایک ڈیڑھ ماہ کو چھوڑ کر) لیکن کہنے کی حد تک کم از کم موجود تھا۔ اب لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد تمام شعبوں کو کھول دیا گیا ہے اور ہر طرف معمول کے مطابق زندگی رواں دواں ہے۔ ریل، بسیں اور ہوائی سفر پر کوئی پابندی نہیں۔ ہسپتالوں میں روزانہ لاکھوں افراد علاج معالجے کی غرض سے آتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ہسپتال کا منظر دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ تمام بڑی مارکیٹیں کھلی پڑی ہیں جہاں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ فیکٹریاں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہی ہیں جہاں محنت کش انتہائی بدترین حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور جہاں کسی بھی ایس او پی پر عملدر آمد نہیں کیا جا رہا۔ جیسے ہی سیاحت کی اجازت دی گئی تو شمالی علاقہ جات میں ملک بھر سے آئے سیاحوں کا رش دیدنی تھا اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں صحت کی بنیادی ترین سہولیات بھی ناپید ہیں۔ اب تو شادی ہال کھولنے اور تقریبات کی بھی اجازت دی جا چکی ہے۔ یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی سر پرستی میں کئی شہروں میں سینکڑوں کی ریلیاں بھی نکالی گئیں اور پھر سے فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کی جار ہی ہے۔ مگر کیا ان سب جگہوں پر کرونا وباء کے پھیلاؤ کا خطرہ نہیں۔ کیوں کرونا کا سارا خطرہ صرف تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں در پیش ہے؟

آئیے ذرا مرحلہ واریت پر مبنی کلاسوں کو شروع کرنے کی منطق کو کھنگال کر دیکھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے جو یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر کھولنے کی بجائے مرحلہ وار کھولا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان واضح طور پر اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ پاکستان میں کرونا پر کنٹرول کیا جا چکا ہے اور اب کیسز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام پیداواری شعبوں اور معمولات زندگی کو بھی مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان شعبہ جات کے کھلنے سے کورونا کے پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گلیوں بازاروں اور منڈیوں میں لوگوں کا رش لگا رہتا ہے جس سے کورونا نہیں پھیل رہا تو پھر تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھولنے کے پیچھے کورونا کے پھیلنے کی منطق بالکل ہی غیر سائنسی معلوم ہوتی ہے۔

پھر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے جو صرف یونیورسٹیوں کے ساتھ یہ تفریق کی جا رہی ہے؟ اس سوال کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ درحقیقت کرونا وباء کے دوران طلبہ پر بغیر سہولیات کی فراہمی کے آن لائن کلاسوں کو مسلط کیا گیا اور فیسیں بھی نچوڑی گئیں جس کے خلاف ملک کے کونے کونے سے طلبہ نے آواز بلند کی اور عملی طور پر احتجاج اور دھرنے بھی دیے۔ اب حکومت کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ جب یونیورسٹیاں کھلیں گی تو فیسوں سے لے کر آن لائن امتحانات کے نتائج کے خلاف طلبہ ناگزیر طور پر احتجاجی سلسلے کا آغاز کر سکتے ہیں۔ نہ صرف تعلیمی مسائل بلکہ پچھلے چھ ماہ میں گہرے معاشی بحران کے زیر اثر روز افزوں پتلی ہوتی معاشی صورتحال اور بڑھتے معاشی دباؤ نے طلبہ کی اس پرت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جو خوش قسمتی سے یونیورسٹیوں تک پہنچتی ہے۔ والدین کا روزگار چھن جانے یا ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک تعداد تو ایسے طلبہ کی ہے جن کے لیے مزید اس تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا ہی مشکل ہو چکا ہے۔ ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی پالیسی ساز کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد ملک کے طول و عرض میں طلبہ میں بڑے پیمانے پر ہلچل ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے حوالے سے یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں اس وقت طلبہ سیاست کا مرکز و محور بڑی یونیورسٹیاں ہی ہیں۔ ریاستی پالیسی سازوں کے یہ شکوک و شبہات اس وقت درست ثابت ہوئے جب 15 ستمبر کو تعلیمی ادارے کھلنے کے پہلے ہی روز کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے فزیکل امتحانوں کے انعقاد کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

نہ صرف کراچی یونیورسٹی بلکہ دیگر بڑی یونیورسٹیوں اور ڈگری کالجوں میں بھی طلبہ کے احتجاج دیکھنے میں آئے۔ ملتان میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، لاہور میں پنجاب یونیورسٹی، کشمیر میں ڈگری کالج راولاکوٹ، پشاور میں میڈیکل کے طلبہ اور دیگر شامل ہیں جہاں طلبہ نے آن کلاسز کو جاری رکھنے سے لے کر فیسوں کی وصولی اور امتحانات کے خلاف احتجاج کیا۔ ان احتجاجوں کے رونما ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں تعلیمی اداروں کو دوبارہ بند کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، خاص کر بلوچستان اور کشمیر میں اور ایسے ہی دیگر علاقوں میں، کیونکہ حکومت کا یہ خوف اب یقین میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے کہ طلبہ کے سلگتے ہوئے مسائل کے گرد طلبہ کی ملک گیر تحریک پھٹ سکتی ہے۔
دوسری طرف طلبہ کا یہ مطالبہ کہ آن لائن کلاسوں کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر کھولا جائے اور تعلیمی سلسلے کو باقاعدہ جاری رکھا جائے بالکل بجا بھی ہے اور منطقی بھی، کیونکہ ایک طرف سب کچھ چلنے سے کرونا نہیں پھیل رہا تو دوسری طرف کورونا پر (حکومت کے مطابق) مکمل کنٹرول کے باوجود اس کے پھیلنے کا بہانہ کر کے تعلیمی اداروں کو بند رکھنا درحقیقت ریاست کے کرونا کو لے کر متضاد بیانات ہیں۔

پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں کرونا پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں کیا جا سکا بلکہ اس کے برعکس اس پر کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت مکمل ناکام رہی ہے، لیکن چونکہ اس خطے کے اندر کرونا بہت زیادہ اموات کا باعث نہیں بنا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے کورونا کو پھیلنے کے لیے چھوڑ دیا، ٹیسٹنگ کا خاتمہ کر دیا اور لاک ڈاؤن ختم کرتے ہوئے کاروبارِ زندگی کو مکمل فعال کر دیا۔لیکن تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کی صورت میں سائنسی طور پر تو یہ ڈیمانڈ ہی بنتی ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے، لوگوں کو گھروں میں راشن مہیا کیا جائے اور تعلیمی اداروں کو مکمل بند رکھتے ہوئے طلبہ کو آن لائن کلاسوں کے تمام وسائل مہیا کرتے ہوئے آن لائن کلاسوں کو جاری رکھا جائے۔ لیکن چونکہ حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کر دیا ہے اور سب کام کاج بحال کر دیے ہیں اور اب طلبہ کی بھی بڑی تعداد یونیورسٹیوں کو کھولنے کا مطالبہ کر رہی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن کلاسوں اور مرحلہ وار اداروں کو کھولنے یا دوبارہ کرونا کو بہانا بنا کر صرف تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا ناٹک مکمل طور پر بند کیا جائے اور تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر فعال بنایا جائے۔ کرونا اگر واقعی پھیل رہا ہے تو پھر مکمل لاک ڈاؤن ہونا چاہیے کیونکہ طلبہ کے علاوہ بھی باقی لوگوں کی زندگیاں اہم ہیں لیکن جب باقی اداروں میں کورونا کے پھیلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں تو پھر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے پیچھے کرونا کے پھیلاؤ کا خوف نہیں بلکہ طلبہ کی ممکنہ تحریک کا خوف ہے۔ ایسے میں طلبہ کو تعلیمی اداروں کی مکمل فعالی کے مطالبے کے گرد منظم ہونا پڑے گا تاکہ مزید تعلیمی ضیاع سے بچا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.