ملتان: خود مختاری کے نام پر ایمرسن کالج کی نجکاری نامنظور، نجکاری مخالف تحریک عروج پر!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

آئی ایم ایف کے حالیہ دیئے جانے والے قرضے کی شرائط میں تعلیمی اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ جس کی واضح نشانی حالیہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے بجٹ میں کٹوتی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ان اداروں کو دی جانے والی امداد کا خاتمہ کرتے ہوئے سرکاری اداروں کو خودمختار کر دیا گیا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں نجکاری کہا جاتا ہے۔

اسی سلسلے میں ایم ٹی آئی ایکٹ کی صورت میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ قرضے کی ادائیگی کے لیے تمام سرکاری اداروں کو اپنے اخراجات کم کرنے اور ان کو زیادہ سے زیادہ خود مختار کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں ایمرسن کالج ملتان سمیت پنجاب بھر میں ابتدائی طور پر 40 سرکاری کالجوں کی خود مختاری کے نام پر نجکاری کی جا رہی ہے۔ اس کا آغاز گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے کیا جا رہا ہے۔

اسی سلسلے میں 2 دسمبر کو پرنسپل گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی قیادت میں کالج نمائندگان کی ملاقات ڈائریکٹریٹ کالجز ملتان سے ہوئی، جس کے بعد ڈائریکٹریٹ کالجز نے یہ اعلان کیا کہ ایمرسن کالج کی صد سالہ سالگرہ کی تقریب کے موقع پر حکومت کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا چاہتی ہے، جس کے بعد کالج ڈگری دینے میں خودمختار ہوگا۔ اس کے علاوہ ملتان ٹریننگ کے دوران سیکرٹری تعلیم نے ایمرسن کالج سمیت چالیس دیگر کالجوں کی خودمختاری کا عندیہ دیا تھا۔ 2020 میں کالج کو بنے سو سال ہو جائیں گے۔ اس کی سالگرہ کی تقریبات کا آغاز 18 دسمبر سے کیا جا رہا ہے، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سیکرٹری تعلیم سمیت پاکستان اور بیرونی ممالک سے بھی ڈیلیگیشن اس تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ اسی تقریب میں عثمان بزدار کالج کی خود مختاری کا اعلان کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں خودمختاری کے خلاف چلنے والی طلبہ اور اساتذہ کی تحریک کے پیشِ نظر کالج انتظامیہ نے اپنا موقف تبدیل کر تے ہوئے کہا کہ کالج کی خودمختاری کا عمل منسوخ کردیا گیا ہے مگر اس حوالے سے کوئی بھی واضح نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

خود مختاری کے اثرات

کالج کو خود مختار کرنے سے مراد یہ ہے کہ کالج کے تمام تر اخراجات، جس میں فیکلٹی کی تنخواہیں اور انفراسٹرکچر کے اخراجات شامل ہیں، کالج خود پیدا کرے گا۔ کالج کا ذریعہ آمدن صرف طلبہ کی جانب سے ادا کی جانے والی فیسیں ہیں جن سے کالج کے اخراجات پورے نہیں کیے جاسکتے۔ خود مختاری سے پہلے صوبائی حکومت تعلیمی بجٹ سے فنڈز جاری کرتی ہے، جس کے ذریعے یہ اضافی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں، جو خودمختاری کے بعد کالج کو خود پورے کرنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فیسوں میں کئی سو فیصد اضافہ کردیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اس وقت BS اورMSc کی فیسیں 4 ہزار سے 7 ہزار تک ہیں تو خودمختاری کے اس عمل کے بعد یہ بڑھ کر 25 ہزار سے 35 ہزار تک ہوجائیں گی اور اس سے بھی بڑھ سکتی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور وومن ڈگری کالج کچہری چوک ملتان اس کی واضح مثال ہیں، جن کی فیسیں خود مختاری کے بعد کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ کیونکہ خودمختاری کے بعد کالج HEC کی سرپرستی میں آجائے گا اور HEC نے رواں مالی سال میں یہ بات پورے پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کو واضح کر دی ہے کہ تمام یونیورسٹیاں اپنے اخراجات خود پورے کریں گی۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے محنت کش طبقے تو درکنار درمیانے طبقے کے لیے بھی تعلیم کا حصول مشکل بنادیا ہے۔

انٹر میڈیٹ کی کلاسز کا خاتمہ

گورنمنٹ ایمرسن کالج، جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا کالج ہے جہاں پورے خطے سے طلبہ پڑھنے آتے ہیں۔ ایمرسن کالج میں ہر سال تین سے پانچ ہزار طلبہ داخلہ لینے کے لئے آتے ہیں اور انٹر میڈیٹ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر انٹرمیڈیٹ سیشنز کا خاتمہ کردیا جاتا ہے تو ایسے طلبہ کی بہت بڑی تعداد تعلیم کے حصول سے محروم ہوجائے گی جو نجی کالجز کی فیسیں دینے کی سکت نہیں رکھتے۔

سٹاف میں کمی

اس کے ساتھ ساتھ کالج فیکلٹی کو ریشنلائزیشن (طلبہ کی تعداد کے حساب سے اساتذہ کی تعداد کا تعین) کے نام پر مختلف کالجوں میں ٹرانسفر یا ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا جائے گا۔ اخراجات میں کمی کو بہانہ بناتے ہوئے سٹاف میں کمی کی جائے گی۔ اس سب کا نتیجہ معیار تعلیم کی مزید بربادی کی صورت میں نکلے گا۔ یعنی کہ آخری تجزئیے میں ایمرسن کالج کے دروازے غریبوں اور محنت کشوں کے بچوں پر بند کر دئیے جائیں گے اور بس وہی داخلہ لے سکے گا جو بھاری بھر کم فیسیں ادا کرنے کی سکت رکھتا ہوگا۔ یعنی تعلیم کو دولت مند طبقے تک محدود کردیا گیا ہے۔

طلبہ کا ردعمل

طلبہ کی بڑی تعداد کو کالج کے یونیورسٹی میں تبدیل ہونے کو انتظامیہ کی جانب سے ایک بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ فیسوں میں بے تحاشا اضافے کی بات کو چھپایا جا رہا ہے۔ مگر اس کے حقیقی چہرے اور اس کے اثرات کو طلبہ کے سامنے لانے کے لئے طلبہ متحرک ہیں اور اس کے اثرات کو سب طلبہ تک اجاگر کرنے کے لیے ایک پمفلٹ بھی لکھا گیا ہے جس کے گرد کالج کے ہر ڈپارٹمنٹ میں جا کر آگاہی مہم کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ایمرسن کالج، نامی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کے ذریعے اس کے حوالے سے طلبہ کی بڑی تعداد کو آگاہ کیا گیاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دستخط مہم کا بھی آغاز کیا گیا ہے جس میں ہر طالب علم خودمختاری کے خلاف اپنی رائے شامل کر رہے ہیں۔ ابھی تک تقریباً ایک ہزار کے قریب طلبہ نے اس پٹیشن پر اپنے دستخط دے دیئے ہیں، جن میں بڑی تعداد انٹر میڈیٹ کے طلبہ کی ہے۔ اس پٹیشن کی ایک ایک کاپی سیکرٹری تعلیم، ڈائریکٹریٹ کالج اور کالج پرنسپل کو دی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ فیس بک پر بھی Students Action Committee Emerson College کے نام سے ایک پیج بنایا گیا ہے جس کے ذریعے طلبہ کو رابطے میں رکھا جا رہا ہے۔ تحریک کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:

مطالبات:

1۔ خودمختاری کے نام پر نجکاری کا فیصلہ فی الفور واپس لیاجائے۔
2۔ انٹرمیڈیٹ کی کلاسز کا خاتمے کی صورت میں غریب اور محنت کش طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرنا نامنظور۔
3۔ کالج فیکلٹی اور سٹاف کی ڈی پورٹیشن اور ریشنلائزیشن نامنظور۔ کالج میں اساتذہ اور سٹاف کی کمی کو فی الفور پورا کیا جائے۔
4۔ خودمختاری اور نجکاری سمیت تمام تر عوام دشمن پالیسیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے آبادی کے تناسب سے پورے ملک میں سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔
5۔ مفت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
6۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ تمام پرائیویٹ تعلیم اداروں کو نیشنلائز کرتے ہوئے تعلیم کا بیوپار بند کیا جائے اور مفت تعلیم فراہم کی جائے۔
7۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے طلبہ یونین بحال کی جائیں اور فی الفور الیکشن کروائے جائیں تاکہ طلبہ اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوسکیں۔

One Comment

  1. Pingback: Progressive Youth Alliance – بولان میڈیکل کالج اور قوم پرستی کا المیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.