بونیر: سواڑی میں ”پختونخوا امن کانفرنس؛ دہشتگردی کیخلاف طبقاتی جدوجہد“ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، خیبرپختونخوا|

20 نومبر 2022ء کو سواڑی، بونیر میں پروگریسو یوتھ الائنس، خیبرپختونخوا اور محنت کشوں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ”پختونخواہ امن کانفرنس؛ دہشتگردی کے خلاف طبقاتی جدوجہد“ کے نام سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمنار میں بڑی تعداد میں طلبہ، محنت کشوں اور اولسی پاسون تحریک سے وابستہ لوگوں نے شرکت کی۔

خیبر پختونخوا میں پچھلے لمبے عرصے میں دہشتگردی اور دہشتگردی مخالف مصنوعی جنگ کی وجہ سے عوام کا بے اتحاشہ نقصان ہواہے۔ عوام کے کاروبار، مال اور گھر تباہ ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوئے اورہزاروں لوگ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اور اب دوبارہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ لیکن تما م سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے آپسی لڑائی میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی دلالی پر معمور میڈیا بھی ان واقعات پرخاموشی سادھے ہوئے ہے اور ہر وقت حکمرانوں کی غلیظ اور عوام دشمن سیاست کا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہے۔ اس سے میڈیا کا کردار بھی واضع ہو گیا ہے کہ اس میڈیا کا کام عوام کے حقیقی مسائل کو منظر عام پر لانا نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کی دلالی کر کے اپنی جیبیں بھرنا ہے۔

یہ سیمینار ایسے حالات میں کیا گیا کہ جب خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخواماضی میں بھی ریاست کی غلط پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام دشمن رویوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر کن صوبہ رہا ہے اور ابھی بھی ریاستی دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے چنگل سے آزاد نہیں ہواہے۔ ایک دفعہ پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ کچھ دن پہلے ضلع لکی مروت، ٹانک اور باجوڑ میں دہشت گردو ں نے پولیس وین پر ظالمانہ حملے کیے جس میں کئی پولیس اہلکارجاں بحق ہوئے۔ جس کے رد عمل میں لکی مروت میں جمعے کے نماز کے بعد عوامی احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ حالیہ دنوں سوات میں دہشت گردوں کے دخول اور دہشت گردی کی واقعات نے سوات، بونیر اور دیر کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ سوات، دیر اوربونیر میں بھی عوام نے کھل کر احتجاجی مظاہرے اور امن مارچ کئے۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ ان دہشگردوں اور ان کے پشت پناہوں کو فوراً کیفر کردار تک پہنچایا جا ئے۔ ان احتجاجوں اور مظاہروں کا مطلب ہے کہ خیبرپختونخوا کی عوام اب اس دہشتگردی کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔

سیمینار میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض یاسر نے سر انجام دیے۔ سب سے پہلے پروگریسو یوتھ الائنس کے سرگرم کارکن گل روز کو بات کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد سحر بونیری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک طبقاتی نظام میں رہ رہے ہیں جب تک یہ طبقاتی نظام موجود ہے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اسکے بعد عوامی ورکرز پارٹی کے جانب سے ملکہ نے بات کی اور ملاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردی کے تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اسکے بعد ڈاکٹر جہانزیب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ امن پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائیگا۔ اس کے بعد اولسی پاسون کے جانب سے شبنم بونیری نے بات رکھی اور کہا کہ یہاں پر جنگ کے ساتھ پورا جنگی اقتصاد قائم کیا گیا ہے جس سے ریاست اوراس کی بغل بچہ پارٹیاں اور افراد پیسہ کماتے ہیں۔ پہلے ان کی طرف سے امن کی بات کرنے والوں کے خلاف مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے لیکن آج جب عوام خود دہشتگردی کے خلاف نکلے ہیں تو وہ لوگ بھی احتجاجوں میں اپنا چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کو رد کر کے باہر نکال پھینکنا ہوگا۔ اسکے بعد معیزاللہ خان نے بات کی اور کہا کہ یہ ہماری مشترکہ لڑائی ہے اس کے خلاف مل کر جدوجہد کرناہوگی۔ اس کے بعد دیگر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سیمینار کے آخر میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری صدیق جان نے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پختونخواہ میں دہشتگردی کو سمجھنے کیلئے اس کا تاریخی تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ 1978ء میں افغان ثور انقلاب جو کہ افغانستان کے محنت کش طبقے کا انقلاب تھا اس انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے امریکی سامراج سمیت سعودی عرب اور پاکستانی ریاست نے دہشتگردوں کو تخلیق کیا، ان کی تربیت کیلئے سابقہ فاٹا میں ٹرینینگ کیمپس بنائے اور ان کو معاشی طور پر سپورٹ کیا۔ اس سے ایک طرف پختونخوا میں منشیات اور اسلحہ کلچر پروان چڑھا اور دوسری طرف کالا دھن پختون معاشرے میں سرائیت کر گیا۔ افغان وار میں پاکستانی ریاست کو کوئلیش سپورٹ فنڈ کی مد میں عربوں ڈالر ملے جبکہ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس طرح امریکہ سے ڈالر بٹورنے کیلئے پختونخوا میں بھی دہشت گردوں کو پروان چڑھایا گیا اور پھر اسکے خلاف نام نہاد فوجی آپریشنز کئے گئے جس میں دہشت گردوں کو تو محفوظ پناہ گاہیں اور راستے دیے گئے جبکہ سیکیورٹی کے نام پر عوام کو ذلیل کیا گیا۔

صدیق جان نے مزید کہا کہ اس وقت پختونخوا میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جو تحریک شروع ہوگئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پختونخوا کے عوام مزید ریاستی پالیسوں اور دہشتگردی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس وقت اولسی پاسون تحریک میں راویتی سیاسی پارٹیوں کے لوگ ہمیں سٹیج پر نظر آرہے ہیں اور مختلف جگہوں پر آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ جس میں ایک طرف تو امن ریلیاں منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جبکہ اسی ریلیوں میں اداروں کے تحفظ کی بات کی جا رہی ہے، لیکن اگر ہم پاکستان کے اندر ان سیاسی جماعتوں کا کردار دیکھیں تو ماضی میں بھی یہ پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلہ رہی ہیں اور تمام تر آپریشنوں کی حمایت کرتی رہیں ہیں۔ جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ان فوجی آپریشنز میں عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اس حوالے سے قوم پرست جماعتوں کا کردار بھی باقی پارٹیوں کی طرح رہا ہے، جبکہ مذہبی جماعتیں تو براہ راست دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں اور ان دہشت گردوں کے لیے لوگوں کو بھرتی کرتی رہی ہیں۔ ان کے لیے چندے اکٹھے کیے اور ہمیشہ دہشتگردی کی حمایت کی ہے۔ آج بھی یہ تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ایک یا دوسرے دھڑے کے ساتھ منسلک ہیں۔ اور آج بھی یہ تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی دیکھ رہی ہیں۔ ایسے میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اولسی پاسون اور احتجاجوں میں سیاسی پارٹیوں کی لئے جگہ بنائی جا رہی ہے کیونکہ ریاست کے مقتدر حلقوں کو یہ معلوم ہے کہ اگر عوام بغاوت پر اتر آئے تو ان کوان سیاسی جماعتوں کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھا جائے۔ یہ سیاسی پارٹیاں دراصل غدار ہیں جو اپنے مفادات کیلئے ان تحریکوں کو استعمال کرتی ہیں اور ماضی میں بھی عوامی تحریکوں کواپنے مفاد ات کے لیے بیچتی رہی ہیں۔

اس وقت اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی کمیٹیاں بنائی جائیں اور وہ کمیٹیاں خود اپنی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔یہ کمیٹیاں عوامی دفاع کے ساتھ ساتھ عوام کے معاشی اور معاشرتی حقوق کا بھی دفاع کریں۔ دہشتگردی اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ موجودہ نظام یعنی سرمایہ داری ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں تباہی و بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ سامراجی ممالک کے اسلحے کے اربوں ڈالر کے کاروبار اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دہشتگردی اور دیگر تمام مسائل کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو تیز کیا جائے اور ایک انقلاب کے ذریعے سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی ازسرِ نو تعمیر کی جائے تاکہ سرمایہ داروں کے اربوں ڈالر کے اسلحے کے کاروباروں کو ختم کرتے ہوئے سارا سرمایہ انسانوں کی فلاح میں لگایا جاسکے اور حقیقت میں ایک انسانی سماج تخلیق کیا جاسکے جس میں دہشتگردی، بے روزگاری، قتل و غارت اور غربت جیسی مصیبتوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.