|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
گذشتہ شب نامعلوم افراد نے ضلع کیچ میں خان کلگ گورنمنٹ ہائی سکول دازن کو نذرآتش کرکے راکھ کردیا۔ اطلاعات کے مطابق دفتر میں رکھے گئے کلاس نہم و دہم کے امتحانی فارم بمعہ فیس، سروس بُک، حاضری رجسٹر، کرسیاں، ٹیبل، پنکھے، قالین، الماریاں، ساہن بورڈ، سمیت متعدد کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ سکول کا شمار گردونواح کے بہترین سکولوں میں ہوتا ہے۔ واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی، لیکن اب تک پولیس کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردِعل سامنے نہیں آیا۔
پچھلے عرصے میں ضلع کیچ میں تعلیم دشمن عناصر کے سکولوں کو نذرآتش کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گذشتہ ماہ نامعلوم افراد نے تحصیل بلیدہ کے یونین کونسل الندور میں واقع واحد پرائیوٹ سکول کلکشان کو آگ لگا کر تباہ کیا، اس کے بعد گوادر کے تحصیل پسنی میں گرلز سکول کو اسی مہینے کی 4 تاریخ کو آگ لگا کر تباھ کردیا گیا تھا۔ یہ واقعات بلوچستان میں کئی برس سے جاری ہیں گذشتہ سال الندور بلیدہ ڈسٹرکٹ کیچ میں سرکاری سکول کے کچھ کمروں کو جلایا گیا تھا اور گلی بلیدہ میں ایک سکول ساچ کو بھی نذر آتش کیا گیاتھا۔ جبکہ اس کے علاوہ ضلع پنجگور اور کیچ میں پرائیویٹ سکولوں پر حملے اور نذر آتش کرنے جیسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
اس سے پہلے پسنی میں سکول کو جلانے کے واقع پر پروگریسو یوتھ الائنس ایک تفصیلی رپورٹ شائع کر چکا ہے۔ رپورٹ پڑھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔
اس حادثے کے بعد لوگوں کا کہنا تھا کہ علاقے میں اتنی تعداد میں فورسز کے ہونے کے باوجود پورے بلوچستان میں مسلح جتھے منظم ہورہے ہیں اور ایف سی جرائم پیشہ افراد کو استعمال کر رہی ہے۔ بلوچستان بھر میں ڈیتھ سکواڈ کو منظم کیا گیا ہے جو منشیات فروشی اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔ ان منشیات فروشوں کو سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف عام لوگوں کو ہر چیک پوسٹ پر روک کر بھتہ وصول کیا جاتا۔ لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ یہ حرکت انہی ڈیتھ اسکواڈ کی ہے جو مختلف جرائم کرنے کے بعد اب عام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم کر رہے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس اس وقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ بلوچستان میں اول تو تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو تھوڑی بہت ہیں وہ دہشتگردی کی نظر ہورہی ہیں۔اس طرح کے واقعات ریاستی اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔پاکستان میں دہشتگردی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس دہشتگردی کے تانے بانے امریکہ کی آشیر باد میں افغانستان میں جہاد کے نام پر رچائے گئے ڈ ھونگ سے جڑتے ہیں جو اس ریاست کی سامراجی ممالک کی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس کو اب عوام سمجھ بھی رہے ہیں اور پورے پاکستان میں اس کے خلاف آواز بھی اٹھا رہے ہیں۔
ہم سجھتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے عوام کی اکثریت کو بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے جو اب موجودہ نظام کے بحران اور حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ عوام کی قوتِ برداشت اب جواب دے چکی ہے اور وہ ان تمام مسائل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اسلیے عوام کو دہشتگردی جیسے ریاستی ہتھکنڈوں سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور میڈیا، نیوز چینلز،تعلیمی نصاب اور اخباروں کے ذریعے عوام کی توجہ فضول چیزوں کی جانب راغب کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، لیکن عوام کی شعوری پختگی ان ساری چیزوں کو روند رہی ہے اور اب پورے پاکستان میں لاکھوں لوگ ا پنی بنیادی ضروریات زندگی کو حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر بر سرِ پیکار نظر آرہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں دہشتگردی کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور عوامی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو عوامی مزاحمت کی شاندار مثال ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی احتجاج اور دھرنوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اس دہشتگردی اور باقی تمام مسائل س نجات کا واحد رستہ مزاحمت ہے، ایک منظم اور مسلسل جدوجہد سے ان تمام مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔