تعلیم دشمن حکمران اور طلبہ یونین پر پابندی۔۔۔ کیا کیا جائے؟

|تحریر: عباد احمد کھوکھر |

طلبہ یونین کسی بھی ادارے کے اندر طلبہ کی منتخب کردہ اس قانونی باڈی کو کہا جاتا ہے جو تعلیمی، سماجی اور سیاسی معاملات میں طلبہ کی نمائندگی اور راہنمائی کرتی ہے۔ طلبہ یونین کے باقاعدہ یونیورسٹی سطح پر الیکشنز ہوتے ہیں جن میں ہر رنگ، نسل، مذہب، ملت، زبان، علاقے اور نظریے سے تعلق رکھنے والے طلبہ حصہ لیتے ہیں۔

جبکہ طلبہ تنظیم میں کسی مخصوص، علاقے، رنگ، نسل، مذہب، ملت یا کسی مخصوص نظریے سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ آج بھی طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم میں فرق نہیں کر پاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ لسانیات یا مذہبی بنیاد پر مبنی تنظیمیں ہی طلبہ یونین ہیں۔

طلبہ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مختلف فلاحی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد طلبہ یونین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں جس طرح انتخابی عمل کے ذریعے عوامی نمائندوں کو مینڈیٹ دے کر اسمبلی فلور تک عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے پہنچایا جاتا ہے ویسے ہی جمہوری عمل اور انتخابات کے ذریعے طلبہ یونینز کے نمائندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ انتخابی عمل کے دوران مختلف پینلز اپنے امیدوار کی نامزدگی کر کے بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ انتخابات والے دن طلبا ء اور طالبات اپنے ووٹ سے سال بھر کے لیے اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح جمہوری عمل سے بننے والی طلبہ یونینز کو دنیا میں ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

آمروں کے ادوار میں ہر طرف ہی حق اور بغاوت کی آوازوں کو دبایا جاتا ہے جمہوری حقوق کا گلہ گھونٹا جاتا ہے تاکہ لوگ آمریت کے خلاف مزاحمت نہ کر پائیں۔ مملکتِ ضیاداد پاکستان میں فوجی آمر ضیاء الحق نے 9 فروری 1984 ء کو طلبہ یونینز پر پابندی عائد کی۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ طلبہ یونینز ملک میں شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہیں حالانکہ اس پابندی کا مقصد صاف واضح تھا۔ پابندی کا مقصد ضیائی آمریت کے خلاف اٹھنے والی طلبہ آوازوں کو دبانا تھا۔ پابندی کا اطلاق سب سے پہلے پنجاب میں ہوا پھر قانون سازی کے ذریعے پورے ملک میں پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پاکستان کی سیاہ تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ تھا جس کا مقصد نام نہاد قانون سازی کے ذریعے ترقی پسند آوازوں کو قتل کرنا تھا۔ 1989 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد طلبہ یونینز سے پابندی ہٹائی تو ملک میں آزادی اظہار کی ایک امید پیدا ہوئی۔ لیکن جس ملک میں عدالتیں انصاف کے بجائے ترازو میں فوجی جوتے تولتی ہوں وہاں جمہوریت اور آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یوں چار سال کے بعد ہی سپریم کورٹ نے 1993 ء میں دوبارہ طلبہ یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ پابندی لگوانے میں سب سے زیادہ ہاتھ جماعت اسلامی کا تھا۔ 1979ء میں آمر ضیا نے افغانستان میں روس کے خلاف خفیہ طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کا آغاز کیا تو پاکستانی یونیورسٹیز میں ترقی پسند طلبہ کی آوازوں کو دبانے کے لیے جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا استعمال کیا گیا جس کو مکمل طور پر ریاستی سپورٹ حاصل تھی۔ ان جتھوں کو مسلح کیا گیا اور انہیں تشدد پر اکسایا گیا اور ڈالرز کے لیے کیے جانے والے جہاد میں استعمال کیا گیا۔ پھر جس تشدد کو ریاست نے سپورٹ کیا تھا اسی کو بنیاد بنا کر طلبہ سیاست پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پابندی عائد ہونے کے بعد تشدد کے دوران ہلاک ہونے والے طالب علموں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

طلبہ یونینز پر پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو ہوا۔ جب کہ اس پابندی کا سب سے زیادہ نقصان بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو ہوا۔ 1993ء کے بعد جمہوریت کا چورن بیچنے والی کسی بھی جماعت نے طلبہ یونینز کی بحالی کی طرف توجہ نہیں دی جس سے ان کا جمہوریت پسند ہونا واضح ہو جاتا ہے یہ نام نہاد جمہوری پارٹیاں خود جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی جس کا اندازہ آج ہر پاکستانی بخوبی کر سکتا ہے۔

پوری دنیا میں طلبہ یونینز کو آزادی اور جمہوری سپورٹ حاصل ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ کہا جاتا ہے کہ طلبہ کو سیاست کے بجائے پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آج کے نوجوان ہی کل کے معمار ہیں اگر وہ سیاست سے دور رہیں گے تو ان میں قیادت کا فقدان رہے گا اور نہ ہی یہ اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ کر سکیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیشہ کی طرح سماج پر چند لوگوں کی حکومت رہے گی جو اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے۔

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کے معیار کو گرا دیتی ہے۔ آکسفورڈ سے لے کے ہارورڈ یونیورسٹی تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ یونیورسٹیز دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں بدترین کنٹرول کے باوجود ہمارے تعلیمی ادارے دنیا کے بدترین تعلیمی ادارے شمار کیے جاتے ہیں اور تعلیم کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے۔

طلبہ یونینز اداروں کے اندر موجود طلبہ کو درپیش مسائل کا حل نکالتی ہیں۔ یہ طلبہ کی اجتماعی طاقت ہوتی ہیں۔ طلبہ یونینز کا کام طلبہ کے مسائل یعنی فیس، ہاسٹل اور پالیسیز کے معمالات پر حکام سے بات چیت کرنا ہے اور ان تمام معاملات میں طلبہ کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے۔ یونینز کا کام انتظامیہ کو قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے طلبہ کے مسائل حل کروانا ہے۔ طلبہ یونینز صرف طلبہ کی ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ پورے تعلیمی نظام کی صحت یابی کے لیے ضروری ہے اور ملکی ترقی کیلیے ناگزیر ہیں۔

طلبہ یونینز کا خاتمہ پاکستانی تاریخ کے بدترین فیصلوں میں سے ایک تھا جو پاکستان کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس ایک فیصلے نے کئی نسلوں کو شعور، تعمیری سوچ اور نتیجہ خیز فیصلہ سازی کی قوت سے کوسوں دور کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ طلبہ یونینز نے جو رہنما پیدا کیے تھے وہ بدترین آمروں کے سامنے بھی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ اس ایک فیصلے نے ایسی نسل پیدا کی ہے جس کا مطالعے، کھیل اور بحث سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ نتیجتاً جب طلباء کے پاس فالتو اوقات میں کرنے لائق کوئی کام نہ ہو اور ان کا مستقبل چند ہاتھوں میں ہو، جن میں ان کا کوئی عمل دخل نہ ہو تو اس سے بیگانگی کا پیدا ہونا لازم امر ہے۔ جس کی مثالیں آج نوجوانوں میں واضح مایوسی، خودکشیاں اور نشہ کی لت کی صورت میں موجود ہیں۔

طلبہ یونین پر پابندی کے ساتھ ساتھ ضیائی آمریت نے یہاں موجود ترقی پسند لوگوں کو بھی کچلا۔ بائیں بازو کی اس تنزلی کا سب سے زیادہ فائدہ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کو ہوا ہے جنہوں نے ملک میں بے شعور جتھوں کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا جس کا نتیجہ تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور شدت پسندی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ مشال خان اسی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔

طلبہ یونینز پر پابندی کا سب سے بڑا نقصان لیڈر شپ کے فقدان کی صورت میں اس ملک کو بھگتنا پڑا ہے۔ پچھلے ایک عرصے سے کوئی طالب علم رہنما اس ملک کی سیاست کے افق پہ نمودار نہیں ہوا۔ نتیجتاً ملک موروثی سیاست کی چکی میں پستا جا رہا ہے۔ اور ملک کے حالات سب کے سامنے ہیں جس میں بہتری کی کوئی امید مستقبلِ قریب میں نظر نہیں آ رہی۔

طلبہ یونینز پر پابندی کا فائدہ غیر جمہوری طاقتوں کو ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی موثر آواز نوجوانوں کی طرف سے نہیں اٹھتی۔ اور یہی جواز طلبہ یونینز پر پابندی کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔ غیر جمہوری طاقتوں کے بعد پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو ہوا ہے۔ طلبہ یونینز پر پابندی نے تعلیمی اداروں میں اقربا پروری اور کرپشن کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ اداروں کے اندر انتظامیہ من چاہے فیصلے کرتی ہے انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ طلبہ یونینز کی غیر موجودگی میں اب وہی اختیار کل کے مالک ہیں۔ انتظامیہ طلبہ کو ذلیل و خوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ طلبہ کی کوئی آواز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے روز بروز زوال کی جانب گامزن ہیں۔ طالب علموں کو یونیورسٹیز کے اندر ہزاروں مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن کا حل صرف طلبہ یونینز کی بحالی سے متصل ہے۔ طلبہ کو درپیش مسائل میں سرفہرست فیسوں میں آئے روز ہوش ربا اضافہ، ہزاروں روپے فیس دینے والے طلبہ کو رہائش کی عدم دستیابی، یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکورٹی حکام کی طرف سے بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنے جیسے مسائل ہیں۔ آج ہماری یونیورسٹیوں کا یہ عالم ہے کہ جو طالب علم انتظامیہ کی کرپشن اور نااہلی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اس کا حال منظم پالتو جتھوں کے ذریعے مشال خان جیسا کیا جاتا ہے یا دہشت گردی کے پرچوں کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے۔ طلبہ یونینز اگر موجود ہوں تو جامعات کے اندر ہونے والی بے قاعدگیاں اخبارات کی سرخیاں بنیں گی جس سے یونیورسٹیز کے اندر ہونے والے بدعنوانیوں کے حل کے لیے اعلیٰ حکام پر پریشر ڈلے گا، جس سے تعلیمی ادارے بہتری کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ طلبہ کو ایک تعلیم دوست ماحول ملے گا جہاں پر طلبہ آزادی سے سانس لے سکیں گے۔

طلبہ یونینز کی بحالی وقت کی اشد ضرورت ہے۔طلبہ یونینز سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کریں گی اور نوجوانوں کو نمائندگی فراہم کرنے کے لیے جماعتوں پر دباو بڑھائیں گی۔ طلبہ یونینز نوجوان، تعلیم یافتہ متوسط اور محنت کش طبقے کے مردوں اور خواتین کے لیے سیاست میں آنے کے لیے پلیٹ فارم کا کام کریں گی۔تعلیمی اداروں میں یونینز کی صورت میں جمہوری روایات کے دوبارہ آنے سے، طلبہ کو انتظامیہ اور حکومت کو احتساب کے دائرے میں لانے کے لئے قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔جامعات کے اندر تعلیمی مشکلات کا خاتمہ ہو گا اور طالب علموں کو بہترین ماحول میسر ہو گا۔ جس سے مکالمہ کا کلچر پروان چڑھے گا جس سے طلبہ کی اندر تعمیری سوچ پروان چڑھے گی۔

مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اور یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ یونین کو بحال نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے لیے طلبہ کو عملی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ انہیں طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں کمی، ہراسمنٹ کے خاتمے کے لیے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کمیٹیاں بنانا ہوں گی اور ان کمیٹیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم جوڑ کر شہری اور ملکی سطح پر لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ یہی کمیٹیاں ہی وہ بنیاد بن سکتی ہیں کہ جہاں سے فیسوں میں کمی و دیگر فوری مطالبات کے حوالے سے مہم کا آغاز کیا جا سکے اور ساتھ ہی طلبہ یونین بحالی کی طویل جدوجہد کا سفر بھی جاری رکھ کر منزل حاصل کی جا سکے گی۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہی کام کر رہا ہے اور آپکو اس جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دیتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.