لاہور مینار پاکستان پر خاتون ٹک ٹاکر کی ہراسانی: حکمران طبقے کی مسلط کردہ جنسی وحشت کے خلاف انقلابی جدوجہد کرنا ہوگی!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

14 اگست کو لاہور میں مینارِ پاکستان پر جنسی ہراسانی کا انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا۔ جب ایک خاتون جو ٹک ٹاک کی ویڈیوز بنا رہی تھی، پر ہجوم نے دھاوا بول دیا۔ سینکڑوں کے وحشی مجمع نے انتہائی وحشت ناک انداز میں اس خاتون ٹک ٹاکر کو جنسی و جسمانی طور پر ہراساں کیا۔ ہجوم نے انتہائی بے دردی کے ساتھ اس خاتون کے کپڑوں کو تار تار کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور سخت ترین سزا دی جائے۔

پاکستان میں جنسی ہراسانی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ پچھلے دس ماہ میں 800 سے زائد ریپ کے کیس سامنے آئے ہیں اور یہ صرف رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد ہے۔ آئے روز گلی محلوں، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر بے تحاشہ جنسی ہراسانی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سماجی گھٹن کی انتہا ہے کہ چند ماہ کی معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ موجودہ سماج عوام اور بالخصوص خواتین کے لیے ایک جہنم بن چکا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس طویل عرصے سے جنسی ہراسانی جیسے ناسور کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم ٹی وی پر بیٹھ کر بے شرمی سے خواتین کو ہی ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور یہ یہاں کہ حکمران طبقے کا عمومی موقف ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لیے ہمیں خود منظم ہونا پڑے گا۔ گلی محلوں کی سطح تک ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں“ تشکیل دینا پڑیں گی تاکہ اس وحشت کے خلاف ایک منظم قوت تیار کی جا سکے۔

در حقیقت یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے سماج پر اثرات ہیں۔ آج سماج شدید ترین گراوٹ کا شکار ہے۔ اس سماجی گراوٹ کا اظہار ترقی یافتہ ممالک میں بھی آج نظر آ رہا ہے۔ البتہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں یہ گراوٹ اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بحران اس پدر سری سماج میں غلاظت اور وحشت میں مزید اضافہ کرے گا اور خواتین کو درپیش مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ سرمایہ داری میں خواتین کو انسان نہیں بلکہ ایک ’جنس‘ سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کی آزادی کی لڑائی پورے سماج کی آزادی کی لڑائی ہے۔ طبقاتی نظام کے خاتمے سے ہی جنسی تفریق اور جبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وقت آگیا ہے کہ اب سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے قوانین یا سماجی اقدار کے آسرے بیٹھنا کہ شاید آہستہ آہستہ مستقبل بہتر ہو جائے، نری حماقت ہوگی۔ اب ہمیں اس وحشت کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔یعنی کہ ذاتی ملکیت پر مبنی سرمایہ نظام کے خاتمے کیلئے جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.