|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے پورے ملک میں 19 دسمبر کو ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ منعقد کیا گیا جس کے تسلسل میں پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد نے بھی نسیم نگر چوک سے حیدرآباد پریس کلب تک 5 کلو میٹر کا طویل پیدل مارچ کیا۔ جس میں حیدرآباد سمیت کوٹری سے وابستہ نوجوانوں، طلبہ اور مزدوروں کی اکثریت نے رنگ، نسل، قوم، مذہب، فرقی اور تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیاد پر شرکت کی۔ اسی طرح پی ایم سی اور میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ کے غلط نتائج کے خلاف سرگرم طلبہ نے بھی اس پیدل مارچ میں بھرپور حصہ لیا۔ مارچ میں طلبہ یونین پر پابندی، یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی فیسوں، پی ایم سی، این ایل ای، ایل اے ٹی جیسے طلبہ دشمن اقدامات، مہنگائی، بے روزگاری، جنسی ہراسگی، جبری گمشدگیوں، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں اور ریاستی و قومی جبر کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔
واضح رہے کہ یہ مارچ اور اس کی کمپئین ’غریبوں کے گھر پر ڈاکے نہ ڈالو۔۔۔۔ امیروں کی جیبوں سے پیسے نکالو!‘ کے نعرے کے گرد منظم کی گئی۔ اس مارچ کے تیاری کے پیش نظر کوٹری، جامشورو اور حیدرآباد کے علاقوں حسین آباد، قاسم آباد، لطیف آباد، کوہسار، گدو چوک، کچا قلعہ اور دیگر بہت سے محلے اور یونین کونسلوں میں مہنگائی، ریپ، جنسی ہراسگی اور بے روزگاری کے گرد چلائی گئی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کامریڈز نے ہر گلی، محلے میں اپنے پیغام پہنچانے کے غرض سے لیف لیٹس تقسیم کیے۔
19دسمبر کا پیدل مارچ انقلابی گیتوں اور نعروں کے ساتھ بغیر رکے، بغیر تھکے حیدرآباد پریس کلب پر پہنچ کر جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ جہاں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ انصار شام نے سر انجام دیتے ہوئے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد پی ایم سی اور میڈیکل کے طلبہ کے غلط نتائج کے خلاف سرگرم طالبعلم عاقب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم سی جیسی طلبہ دشمن پالیسی طلبہ اور ان کے والدین کے لیے باعثِ عذاب بن چکی ہے۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے جلد از جلد واپس لیا جائے۔ اس کے بعد سندھی زبان کی مشہور شاعرہ سمینہ واحد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہراسگی اور زیادتی کے واقعات اس قدر بڑھتے جا رہے ہیں کہ عورتیں، بچیاں اور حتٰی کہ بچے بھی کسی جگہ محفوظ نہیں رہے جس کے سبب تمام عورتیں خوف و ہراس میں زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ کے آرگنائزر جئے کمار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ہزاروں محنت کشوں کو ملازمتوں سے جبری طور پر برطرف کر کے دوسری طرف انہیں محنت کشوں کے بچوں پر اضافی فیسوں کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ اس تمام تر جبر کے خلاف طلبہ کی آواز کو دبانے کے لیے طلبہ یونین پر بندش لگائی گئی ہے۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ یونین کو جلد از جلد بحال کر کے انتخابات کرائے جائیں۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کے آرگنائزر کامریڈ علی عیسیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کامیاب مارچ کے انعقاد پر پروگریسو یوتھ الائنس حیدرآباد اور کوٹری کے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ایک طرف کرونا وبا کے نام پر عوام سے روزگار چھینا جا رہا ہے اور حکمران طبقہ چند ٹکوں کے کمیشن کے عوض عوامی اداروں کی نجکاری کر کے انھیں کوڑیوں کے دام فروخت کر کے سامراجی دلالی پر کار فرما ہے۔ اسی طرح محنت کشوں کی اکثریت کو ملازمت سے جبری طور پر برطرف کیا جا رہا جس کی حالیہ مثال اسٹیل ملز سے برطرف کیے گئے ملازمین ہیں۔ کرونا کے نام پر یہ حکمران اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کی خواتین کو صنفی جبر کا سامنا ہے جبکہ مریم بی بی سمیت حکمران طبقے کی خواتین کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ نہیں سکتا۔ سندھ میں اقلیتوں سے وابستہ بچیوں کی مذہب کی جبری تبدیلی اور ایسے بہت سے مسائل کا محنت کش طبقے کی خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ بھی جاری ہے جس کے سبب محنت کشوں کا دوہرا استحصال ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زنداں یا عقوبت خانے میں قید کیا جاتا ہے جس کی مثال کامریڈ امر فیاض ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کی انھیں جلد از جلد بازیاب کیا جائے بصورت دیگر اس ریاستی غنڈہ گردی کے خلاف سخت ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔ ان تمام تر باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہو گا کہ اس وقت محنت کش طبقہ اور اس کے نظریات کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں جو انسانیت کو تمام ظلم و جبر اور استحصال سے نجات دلا سکے۔ لہٰذا ہمیں اس تمام تر جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا جو روزگار، مکان، مفت تعلیم، مفت صحت اور تمام تر جبر و استحصال کے خاتمے کا ضامن ہو گا۔
آخر میں پروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائزر کامریڈ سرمد سیال نے خطاب کیا، انہوں نے کہا کے یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین پر پابندی لگا کر طلبہ کو اپنے حقوق مانگنے سے دور کر کے طلبہ دشمن پالیسیاں مسلط کی جا رہی ہیں جس کے باعث دن بدِن فیسوں میں اضافہ، ہاسٹلوں کی عدم دستیابی یا ہاسٹلوں میں بستر کا نہ ہونا، طلبہ کو ہاسٹلوں میں خراب اور مہنگا کھانا دینے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی طرف سے طلبہ کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے جس پر آج تک کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔ کرونا وبا کی صورتِ حال پیدا ہوتے ہی آن لائن تعلیم کا آغاز کیا گیا جس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کے طلبہ کو بہت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ ان کے پاس نہ لیپ ٹاپ تھا، نہ اچھا موبائل فون اور اگر کسی کے پاس تھے بھی تو وہاں انٹرنیٹ میسر نہیں تھا۔ طلبہ اور محنت کشوں پر حکمران طبقے کی طلبہ دشمن اور مزدور دشمن پالیسیوں کے وار جاری تھے اور ابھی بھی جاری ہیں۔ ایک طرف کرونا وبا کی صورتِ حال میں سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکج دئیے گئے اور دوسری طرف ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ اس وقت بھی واسا کے مزدور سراپا احتجاج ہیں اور واپڈا کے محنت کش نجکاری کے خلاف تحریک چلا رہیں، کراچی اسٹیل مِل کے 4500 محنت کشوں کو بھی نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام طلبہ اور محنت کش دشمن اقدامات کا حل اس گل سڑ چکے سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا محنت کش طبقے کو اپنی طاقت اور اپنے نظریات پر یقین کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھنا ہو گا۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جبر کی تمام اشکال کا خاتمہ کر کے ایک غیر طبقاتی نظام کا قیام ممکن ہے جو ایک روشن مستقبل کا ضامن ہو گا۔