سوشلزم کیوں؟

|تحریر: البرٹ آئنسٹائن، ترجمہ: یار یوسفزئی|

 

انگریزی میں پڑھنے کے لیئے یہاں کلک کریں۔

(یہ تحریر مشہورِ زمانہ طبیعیات دان آئنسٹائن نے نیو یارک سے شائع ہونے والے میگزین ”منتھلی ری ویو” کے پہلے شمارے کے لیے لکھی تھی، جو مئی 1949ء میں چھپا۔ اس میں فرد اور سماج کے باہمی رشتے، سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران اور اس کے واحد حل یعنی سوشلزم کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔)


کیا ایک ایسے شخص کے لیے سوشلزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا مناسب ہوگا جو معاشی و سماجی مسائل پر مہارت نہ رکھتا ہو؟ کئی وجوہات کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنا مناسب رہے گا۔

آئیے سب سے پہلے سائنسی علم کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ بظاہر شاید یوں لگے گا کہ فلکیات اور معاشیات کے بنیادی اصولوں کے بیچ کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے؛ دونوں شعبوں کے سائنسدان مخصوص مظاہر کے لیے عمومی قوانین دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کے باہمی تعلق کو جتنا ممکن ہو واضح طور پر سمجھا جا سکے۔ مگر در حقیقت ان اصولوں کے بیچ فرق پایا جاتا ہے۔ معیشت کے شعبے میں عمومی قوانین کی دریافت اس وجہ سے مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ نظر آنے والے معاشی مظاہر کے اوپر اکثر کئی عناصر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں الگ الگ اندازہ لگانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ مزید برآں، جیسا کہ اچھی طرح معلوم ہے، وہ تجربات جو انسانی تاریخ کے نام نہاد مہذب عرصے کے آغاز سے حاصل ہوتے رہے ہیں، ان کے اوپر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہونے والے عناصر فقط معاشی نوعیت کے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، تاریخی ریاستوں کی اکثریت جنگی فتوحات کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھتی تھی۔ فاتح لوگ مفتوح ملک کے اندر، قانونی و معاشی لحاظ سے، خود کو مراعات یافتہ طبقے کے طور پر مسلط کر دیتے تھے۔ وہ زمین کی ملکیت پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے اور پادریوں کو اپنی صفوں میں سے مقرر کرتے تھے۔ پادریوں نے، جو تعلیم پر قابض تھے، سماج کی طبقاتی تقسیم کو ایک مستقل ادارہ بنا دیا اور اقدار کا ایک ایسا نظام تخلیق کیا جس پر لوگ اپنی سماجی اخلاقیات کو پرکھتے تھے، اگرچہ زیادہ تر لا شعوری انداز میں۔

یہ تاریخی روایت ابھی تک وہی پرانی رائج ہے؛ انسانی ترقی کے جس مرحلے کو تورستائن ویبلن نے ”غارت گر ی کا دور“ کہا ہے، ہم نے کہیں پر بھی اس کے اوپر قابو نہیں پایا ہے۔ اس دور کے قابلِ مشاہدہ معاشی حقائق اور ان سے اخذ ہونے والے قوانین کا اطلاق دیگر ادوار پر نہیں کیا جا سکتا۔ سوشلزم کا حقیقی مقصد چونکہ انسانی ترقی کے غارت گر دور پر قابو پا کر سماج کو اس سے آگے بڑھانا ہے، اس لیے موجودہ معاشی سائنس سے مستقبل کے سوشلسٹ سماج کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔

دوم یہ کہ سوشلزم کا ہدف سماجی و اخلاقی نوعیت کا ہے۔ البتہ سائنس اہداف کا تعین نہیں کر سکتی، ان کو انسانی ذہنوں پر مسلط کرنا تو دور کی بات؛ سائنس زیادہ سے زیادہ مخصوص اہداف کے حصول کے ذرائع مہیا کر سکتی ہے۔ مگر اہداف کا حصول اعلیٰ اخلاقی تصورات والی شخصیات کرتی ہیں، اور اگر یہ اہداف کمزور نہیں بلکہ طاقتور اور مؤثر ہوں، تب انہیں دیگر کئی انسان اپنا کر اس کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور لا شعوری طور پر سماج کے سست رو ارتقاء کا تعین کرتے ہیں۔

ان وجوہات کی بنا پر، جب انسانی مسائل کا سوال ہو تو ہمیں احتیاط برتنا چاہیے کہ سائنس اور سائنسی طریقہ ہائے کار کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں؛ اور ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ سماجی نظم و ضبط پر رائے دینے کا حق محض ماہرین کو ہی حاصل ہے۔

کچھ عرصے سے بے شمار افراد اس بات کی تاکید کرتے رہے ہیں کہ انسانی سماج بحران سے گزر رہا ہے اور اس کا استحکام بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ایسے دور میں چھوٹے یا بڑے گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد یا تو اپنے گروہ سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یا ان کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنا مطلب سمجھانے کے لیے میں ذاتی تجربے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میں نے حال ہی میں ایک ذہین اور نیک مزاج شخص کے ساتھ ایک اور (عالمی) جنگ کے خطرے پر بات کی، جو میرے نزدیک انسانیت کے وجود کو بڑا خطرہ لاحق کر دے گا، اور میں نے نشاندہی کی کہ ایک عالمی با اختیار ادارہ ہی اس خطرے کی روک تھام کر سکتا ہے۔ اس شخص نے بڑے آرام کے ساتھ مجھے کہا: ”تم نسلِ انسانی کے مٹ جانے کے اتنے مخالف کیوں ہو؟“

مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صدی قبل کوئی اس قسم کی بات اتنے اطمینان کے ساتھ نہ کرتا۔ یہ ایسے شخص کے الفاظ ہیں جو اپنا اندرونی استحکام حاصل کرنے کی ناکام تگ و دو کرتا رہا ہے اور کامیابی کی امید کو تقریباً چھوڑ چکا ہے۔ یہ اس دردناک تنہائی اور جدائی کا اظہار ہے جس سے ان دنوں بہت سارے افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا اس سے نجات کا کوئی راستہ ہے؟

اس قسم کے سوالات اٹھانا آسان ہے، مگر کسی قسم کی یقین دہانی کے ساتھ ان کا جواب دینا مشکل کام ہے۔ بہرحال مجھ سے جتنا ممکن ہے کوشش کروں گا، اگرچہ میں اچھی طرح اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ہمارے احساسات اور ہماری تگ و دو اکثر متضاد اور مبہم ہوتے ہیں اور انہیں آسان اور سادہ فارمولوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

آدمی، ایک ہی وقت میں، واحد فرد بھی ہے اور اس کی سماجی حیثیت بھی ہے۔ فرد کی حیثیت سے، وہ اپنے اور اپنے اقربا کے وجود کے تحفظ، اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے، اور اپنی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ سماجی حیثیت سے، وہ اپنے ساتھی انسانوں سے ستائش اور محبت حاصل کرنے، ان کی خوشیوں میں شریک ہونے، ان کے دکھوں میں انہیں تسلی دینے، اور ان کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ آدمی کی خصوصی شخصیت ان متغیر اور مسلسل متصادم عناصر سے بنتی ہے، اور ان کی مخصوص جڑت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ایک فرد اپنے اندرونی استحکام کو کس حد تک حاصل کر سکتا ہے اور سماج کی بھلائی میں کتنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بنیادی طور پر ان دونوں عناصر کی طاقت کا تعین وراثتی طور پر ہوتا ہو۔ مگر جو شخصیت بالآخر ابھر کر سامنے آتی ہے، اس کو وہ ماحول بناتا ہے جس میں آدمی کی نشونما ہوتی ہے، اس سماج کا ڈھانچہ جس میں وہ بڑا ہوتا ہے اور اس سماج کی روایات اور اس میں سراہے جانے والی عادات بناتی ہے۔ انفرادی انسان کے نزدیک ”سماج“ کے مجرد تصور کا مطلب اس کے ہم عصر اور پچھلی نسلوں کے تمام لوگوں کے ساتھ اس کے تمام بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلقات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ فرد اپنے آپ سوچنے، محسوس کرنے، تگ و دو کرنے اور کام کرنے کا اہل ہوتا ہے؛ مگر اس کا جسم، شعور اور جذبات سماج پر اتنے منحصر ہوتے ہیں کہ سماجی ڈھانچے سے باہر اس کو تصور کرنا یا سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ”سماج“ ہی ہے جو آدمی کو خوراک، کپڑا، گھر، کام کے آلات، زبان، سوچنے کے طریقے اور سوچ کے اجزاء مہیا کرتا ہے؛ اس کی زندگی حال اور ماضی کے ان کروڑوں لوگوں کی محنت اور کامیابیوں کے ذریعے ممکن ہوتی ہے جو سب اس چھوٹے سے لفظ ”سماج“ میں پنہاں ہیں۔

چنانچہ ظاہر ہے کہ فرد کا سماج کے اوپر انحصار ایک فطری حقیقت جس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، بالکل چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح۔ البتہ، چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی پوری زندگی سخت اصولوں اور موروثی جبلتوں کے تحت ایک ہی ڈھنگ سے چل رہی ہوتی ہے، مگر انسانوں کی سماجی ساخت اور باہمی تعلقات بہت متغیر ہوتے ہیں اور ان میں بدلاؤ کی پیش گوئی ممکن ہوتی ہے۔ یادداشت، نئے ڈھانچے بنانے کی صلاحیت اور ایک دوسرے کے ساتھ زبانی رابطہ کرنے کی اہلیت نے انسانوں کے بیچ ایسی ترقی کو ممکن بنایا ہے جو محض زندہ رہنے کی ضرورت کے پیشِ نظر نہیں ہوئی۔ اس قسم کی ترقی کا اظہار ہمیں روایات، اداروں اور تنظیموں؛ ادب؛ سائنس اور انجینئرنگ کی کامیابیوں؛ اور فن کی مختلف اقسام میں نظر آتا ہے۔ اس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ آدمی ایک طرح سے اپنی زندگی کو اپنے عمل کے ذریعے تبدیل کر سکتا ہے، اور اس عمل میں با شعور سوچ اور خواہشات اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

آدمی موروثی طور پر ایک مخصوص جسمانی ساخت، بشمول فطری خواہشات جو نوعِ انسانی کی خاصیت ہے، لے کر پیدا ہوتا ہے جو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ، اپنی زندگی کے دوران، وہ ثقافتی ڈھانچے کو بھی اپناتا ہے جسے وہ سماج کے ساتھ روابط اور دیگر کئی اقسام کے اثر و رسوخ کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ یہ یہی ثقافتی ڈھانچہ ہوتا ہے جو، وقت کے ساتھ ساتھ، بدلتا رہتا ہے اور جس کا فرد اور سماج کے بیچ تعلق میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ نام نہاد ابتدائی ثقافتوں کے تقابلی تحقیقات کے ذریعے جدید علمِ بشریات (اینتھروپالوجی) سے ہمیں سیکھنے کو ملا ہے کہ انسانوں کی سماجی عادات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہو سکتی ہیں، جن کا انحصار ان ثقافتی ڈھانچوں اور اداروں پر ہوتا ہے جو سماج پر غالب ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے انسانیت کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو پُر امید رہنا چاہیے؛ انسانوں کا، اپنے جسمانی ساخت کی وجہ سے، یہ مقدر نہیں ہے کہ ایک دوسروں کو فنا کریں یا ظالم تقدیر کے رحم و کرم پر زندگی گزاریں۔

اگر ہم انسانی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کی خاطر سماجی ڈھانچے اور آدمی کے ثقافتی رویے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو ہمہ وقت یاد رکھنا ہوگا کہ بعض حالات ایسے ہیں جنہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، پچھلی کچھ صدیوں کی تکنیکی اور آبادیاتی (ڈیموگرافک) ترقی نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں جو آئندہ بھی قائم رہیں گے۔ نسبتاً گنجان آباد علاقوں میں بڑے پیمانے پر تقسیمِ محن اور سخت مرکزیت پر مبنی پیداوار انتہائی ضروری ہے، تاکہ ان اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے جو زندگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ پرانا وقت، جو بڑا سہانا معلوم ہوتا ہے، ہمیشہ کے لیے گزر چکا ہے جب کچھ افراد یا نسبتاً چھوٹے گروہ اپنی ضروریات کو اپنی مدد آپ پورے کر سکتے تھے۔ یہ کہنا کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ آج کے دور میں نوعِ انسانی نے پیداوار اور کھپت کی ایک عالمی برادری قائم کی ہوئی ہے۔

اب میں اپنی بحث کے اس نکتے پر پہنچ گیا ہوں جہاں میں آج کے بحران کی بنیاد پر مختصر روشنی ڈالوں گا۔ یہ فرد اور سماج کے رشتے سے متعلق ہے۔ آج فرد سماج کے اوپر اپنے انحصار سے جتنا واقف ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مگر اس کے لیے اس انحصار کا مطلب ایک مثبت عمل، نامیاتی جڑت اور حفاظتی قوت نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے فطری حقوق یا حتیٰ کہ اس کے معاشی وجود کو خطرہ لاحق کرتا ہے۔ مزید برآں، اس کی سماجی حیثیت ایسی ہے جس کی وجہ سے وہ تسلسل کے ساتھ اپنے سماجی مفادات، جو فطری طور پر زیادہ اہم دکھائی نہیں دیتے، پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا رہتا ہے۔ سارے انسان، چاہے ان کی سماجی حیثیت جو بھی ہو، وہ تباہی کے اس عمل سے دوچار ہیں۔ لا شعوری طور پر اپنی انا پرستی میں قید ہو کر وہ غیر محفوظ اور تنہا محسوس کرتے ہیں اور زندگی کے سادہ اور معصوم لطف سے محروم ہو جاتے ہیں۔ زندگی بلاشبہ مختصر اور خطرات سے بھرپور ہے، آدمی خود کو سماج کے لیے وقف کر کے ہی اس میں مقصد پا سکتا ہے۔

آج سرمایہ دارانہ سماج میں جو معاشی انتشار قائم ہے، میرے خیال میں، یہ برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ ہمارے سامنے پیدا کاروں کی ایک بڑی برادری موجود ہے، جس کے اراکین مسلسل ایک دوسرے کی اجتماعی محنت لوٹنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، وہ ایسا لڑ جھگڑ کر نہیں بلکہ قانونی طور پر مرتب شدہ اصولوں کی مکمل فرمانبرداری کرتے ہوئے کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے، اس بات کا ادراک کرنا اہم ہے کہ ذرائع پیداوار، یعنی فوری ضروری اشیاء کے ساتھ ساتھ سرمایے کی غرض سے پیدا کی جانے والی اشیاء کے لیے درکار ساری پیداواری صلاحیت، کی اکثریت قانوناً چند افراد کی نجی ملکیت ہے۔
اپنی وضاحت کو آسان بنانے کے لیے میں آگے ان سب کے لیے ”محنت کش“ کا لفظ استعمال کروں گا جن کا ذرائع پیداوار کی ملکیت میں کوئی حصہ نہیں، اگرچہ عام طور پر اس لفظ کو ایسا استعمال نہیں کیا جاتا۔ ذرائع پیداوار کا مالک اپنی حیثیت کے بل بوتے پر محنت کش کی قوتِ محنت خریدنے کا اہل ہوتا ہے۔ محنت کش ذرائع پیداوار کا استعمال کرتے ہوئے نئے اشیاء پیدا کرتا ہے جو سرمایہ دار کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں۔ اس عمل کا اہم نکتہ محنت کش کی پیدا کی ہوئی چیز اور اس کی اجرت کا تعلق ہے، اگر دونوں کی اصل قدر کو دیکھا جائے۔ ”آزادانہ“ معاہدے (فری کنٹریکٹ) کے تحت، محنت کش کی اجرت کا تعین اس کی پیدا کی ہوئی اشیاء کی اصل قدر نہیں کرتی، بلکہ اس کی کم از کم ضروریات، اور سرمایہ دار کو درکار قوتِ محنت اور نوکری کے لیے تیار محنت کشوں کی تعداد کا تناسب کرتی ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ محنت کش کی اجرت کا تعین کاغذی طور پر بھی اس کی پیداوار کی قدر نہیں کرتی۔

نجی سرمایہ اقلیت کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جاتا ہے، جس کی ایک وجہ سرمایہ داروں کے بیچ مقابلہ بازی ہے، جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ تکنیکی ترقی اور بڑھتی ہوئی تقسیمِ محن کے باعث پیداوار کے چھوٹے مراکز کو بڑے مراکز ہڑپ لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نجی سرمایے کے مالکان پر مبنی اشرافیہ کے ظہور کی صورت نکلتا ہے، جن کے دیوہیکل اختیارات کی معنی خیز جانچ پڑتال جمہوری سیاسی سماج میں بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اسی بنیاد پر قانون ساز اداروں کا انتخاب سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں، جن کی زیادہ تر مالی امداد نجی سرمایہ دار کرتے ہیں اور جن کے اوپر انہی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے، جو تمام عملی وجوہات کی بنا پر ووٹ ڈالنے والوں کو قانون ساز ادارے سے علیحدہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی نمائندے در حقیقت آبادی کی غیر مراعات یافتہ پرتوں کے مفادات کی پوری طرح سے حفاظت نہیں کرتے۔ مزید برآں، موجودہ حالات کے تحت، نجی سرمایہ دار نا گزیر طور پر خبروں کے تمام ذرائع (پریس، ریڈیو، تعلیم) کو بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ چنانچہ ایک انفرادی شہری کے لیے معروضی نتائج اخذ کرنا اور اپنے سیاسی حقوق کو ذہانت کے ساتھ استعمال کرنا انتہائی مشکل، بلکہ زیادہ تر نا ممکن ہوتا ہے۔

چنانچہ نجی ملکیت پر قائم معیشت کے دو بنیادی اصول ہوتے ہیں: اول، ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اور اس کے مالکان اپنی مرضی کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں؛ دوم، محنت کش آزادانہ معاہدے پر کام کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، اس قسم کا خالص سرمایہ دارانہ سماج کہیں نہیں پایا جاتا۔ خاص کر یہ بات زیرِ غور رکھنے کی ضرورت ہے کہ محنت کش، طویل اور سخت سیاسی جدوجہدوں کے ذریعے، بعض موقعوں پر ”آزادانہ معاہدے“ کی بہتر شکل حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر، آج کی معیشت ”خالص“ سرمایہ داری سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

پیداوار استعمال کی نہیں بلکہ منافعوں کی غرض سے کی جاتی ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاتی کہ کام کرنے کے اہل اور خواہشمند افراد کو ہمیشہ روزگار میسر ہوگا؛ ”بیروزگاروں کی فوج“ تقریباً ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ محنت کش ہمیشہ اپنی نوکری کھو جانے کے ڈر میں ہوتا ہے۔ بیروزگار افراد اور کم اجرت پر کام کرنے والے محنت کش چونکہ منافع بخش منڈی کا باعث نہیں بنتے، اس لیے ضروری اشیاء کی پیداوار محدود کر دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تکالیف جنم لینے کی صورت نکلتا ہے۔ تکنیکی ترقی سب کے کام کا بوجھ کم کرنے کی بجائے اکثر مزید بیروزگاری کی راہ ہموار کرتی ہے۔ منافعوں کی غرض، سرمایہ داروں کی آپسی مقابلہ بازی کے ساتھ مل کر، سرمایے کے انبار لگنے اور استعمال ہونے کے عمل میں عدم استحکام لاتی ہے، جس سے شدید ہوتے بحرانات جنم لیتے ہیں۔ مقابلے بازی کی کوئی حد نہیں ہوتی، جس سے بڑے پیمانے پر محنت ضائع ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، افراد کا سماجی شعور اپاہج ہو جاتا ہے۔

اجتماعیت مسخ کرنے کا یہ عمل میرے نزدیک سرمایہ داری کی سب سے بڑی برائی ہے۔ ہمارا پورا تعلیمی نظام اس برائی کا شکار ہے۔ طلبہ کے اوپر مقابلے بازی والا رویہ بڑھا چڑھا کر مسلط کیا جاتا ہے، جنہیں مستقبل کے کیرئیر کی تیاری کے سلسلے میں لالچ سے بھری کامیابی کی تربیت دی جاتی ہے۔

مجھے اس بات پر مکمل یقین ہے کہ ان خطرناک برائیوں کے خاتمے کا محض ایک راستہ ہے، یعنی سوشلسٹ معیشت کا قیام، جس میں ایک ایسا تعلیمی نظام رائج ہو جو سماجی اہداف کی طرف توجہ دلائے۔ ایسی معیشت میں، ذرائع پیداوار سماج کی اجتماعی ملکیت میں ہوتے ہیں اور انہیں منصوبہ بند طریقے سے استعمال کیا جاتا ہیں۔ منصوبہ بند معیشت، جس میں پیداوار سماجی ضروریات کے تحت کی جاتی ہے، کے اندر کام کرنے کے اہل تمام افراد کے بیچ تقسیمِ کار کی جائے گی اور ہر مرد، عورت اور بچے کے ذریعہ معاش کی ضمانت دی جائے گی۔ ہمارے موجودہ سماج میں تعلیمی نظام طاقت اور کامیابی کی ترغیب دیتا ہے، مگر منصوبہ بند معیشت میں یہ فرد کی اندرونی صلاحیتوں کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی انسانوں کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش بھی کرے گی۔

بہرحال، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ منصوبہ بند معیشت پھر بھی سوشلزم نہیں ہوتا۔ ایسی منصوبہ بند معیشت کو فرد کی مکمل غلامی پر بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ سوشلزم کے حصول کے لیے انتہائی مشکل سماجی و سیاسی سوالات کا حل درکار ہے: سیاست اور معیشت کی مرکزیت کے ہوتے ہوئے افسر شاہی کو مطلق العنان اور مغرور ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ انفرادی حقوق کے تحفظ اور افسر شاہی کی طاقت کے مقابلے میں جمہوری توازن کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟

تبدیلیوں سے بھرے اس دور میں سوشلزم کے مقاصد اور سوالات کی وضاحت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ چونکہ موجودہ حالات میں ان سوالات پر کھل کر بحث کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے، اس لیے میں اس میگزین کی اشاعت کو ضروری خدمتِ خلق سمجھتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.