ورچوئل یونیورسٹی: بہار 2022 ء کے امتحانات کے نتائج نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

ہم ایک ایسے خطے، ملک اور عہد میں جی رہے ہیں،کہ ہر طرف مایوسی نظر آتی ہے۔کسی فرد کے لیئے مایوسی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں مگر بنیادی وجہ معاشی خستہ حالی ہی ہوتی ہے۔ جوکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس وقت عوام کا معیار زندگی مسلس گراوٹ کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کے، طلبہ، محنت کشوں اور کسانوں کو بہت سے بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ مثلاََتعلیم کے حصول کی بات کی جائے تو اس شعبے میں بھی غریب گھرانوں سے وابستہ طلبہ کو بے تحاشہ مسائل کا سامنا ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی، فیسوں میں اضافے، حقیقی اجرتوں میں کمی اور تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں کے سبب ان کا تعلیم حاصل کر پا نا ناممکن ہو چکا ہے۔

ملک کی اکثریت پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ 2018ء میں ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 44 فیصد بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم تھے۔ یہی حال ہمیں 2022 ء کی ایک رپورٹ میں نظر آتا ہے جہاں 22.8 ملین بچے اب تک سکولوں سے باہر ہیں اور حکمران طبقے کے مفادات، تعصبات اور لڑائیوں کے بیچ میں پس رہے ہیں۔ ان بچوں کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ وہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جو اقلیت پر مبنی طبقہ یعنی (مڈل کلاس) جس کو ہم متوسط طبقہ بھی کہ سکتے ہیں کے بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو حاصل کرنے کی سقط رکھتے ہیں۔ پہلے تو ان پر ہر سال فیسوں کے اضافے کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ جو والدین قرضوں کی صورت میں اپنا دگنا استحصال کر کے اتارتے ہیں۔ اتنی محنت اور استحصال کے بعد جب اس کا پھل والدین اور طالب علموں کو ملنے والا ہوتا ہے تو ناقص امتحانی اداروں اور چیکرز کی وجہ سے اکثریت کو فیل کر دیا جاتا ہے اور ہمیشہ کی طرح سپلیوں کے نام پر پیسہ لوٹا جاتا ہے۔ یہ کام یقیناً کاروباریوں کیلیے تو اچھا اور منافع بخش ہو سکتا ہے لیکن انسان اور تعلیم دوست ہرگز نہیں۔

اسی طرح کی ابتر صورت حال ہمیں ورچوئل یونیورسٹی کے بہار 2022ء کے نتائج میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں 90 فیصد طالب علموں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے ورچوئل یونیورسٹی میں زیادہ تر اس طبقے کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں جو مہنگی یونیورسٹیوں میں عیاشی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے یعنی مڈل کلاس اور محنت کشوں کے بچے۔ اگر ہم ملک کی صورت حال کو دیکھیں تو حکمران ملک کی بندر بانٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف عمران نیازی لانگ مارچ کر رہا ہے تودوسری طرف باقی سیاستدا ن دانتوں میں انگلی دبائے اپنی صفائیاں پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ایک ان دیکھا سلسلہ جاری ہے۔ نوجوانوں کے مستقبل کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے یہ سب بس اپنی جیبیں بھرنا چاہتے ہیں۔ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ اس تحقیر انگیز نتیجے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ٹویٹر نامی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے حقوق کے لئے گزشتہ دو دنوں سے ٹرینڈ چلارہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی حکمران، نام نہاد صحافی اور آزادی کے حقوق کے خواہاں ان طلبہ کی آہ سننے کے لئے راضی نہیں۔
ورچوئل یونیورسٹی کی ایک ہونہار طالبہ کے بقول” انھوں نے ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے سے اس استحصالی اور غیر مناسب نتیجے کے حوالے سے ورچوئل یونیورسٹی کو سوالات پر مبنی ای میلز کیں مگر اس طرح کی6 ای میلز کرنے کے بعد ان سے یہ سوال کرنے کا حق چھینتے ہوئے، بلاک کر دیا گیا“۔

سچ بولیں تو یہ ریاست اور سرمایہ داراور ان کے دلال عوام کے مسائل سننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ یہ ان کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہے ان کا مقصد صرف عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنا ہے۔اور یہ اپناسارا وقت اعوام کو لوٹنے کے منصوبوں پر صرف کرتے ہیں۔

زاہد مغل نامی طالب علم کا کہنا تھا کہ ”ورچوئل یونیورسٹی واضح طور پر صرف نئے داخلوں اور پیسے کی پرواہ کرتی ہے۔وہ طلبہ کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے بس اپنی فیس وقت پر جمع کروائیں اورکسی بھی مضمون کو پاس کرنا بھول جائیں،بہار 2022 کا نتیجہ قبول نہیں کیا جائے گا“

فیصل نواز چیمہ نامی طالبعلم نے لکھا کہ ”ورچوئل یونیورسٹی میں زیادہ تر غریب اور متوسط گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اس اقدام سے ہزاروں طلبہ اپنی ڈگری کو خیرباد کہہ کر پڑھائی چھوڑ دیں گے“۔

ارسلان اصغر نامی طالب علم نے لکھا ”میں اس کا مستحق نہیں ہوں،میں نے تعلیمی سرگرمیوں میں سخت محنت کی ہے اور پھر پور حصہ لیا ہے برائے مہربانی نتیجہ دوبارہ چیک کریں اور اپ ڈیٹ کریں۔ میں یہ نتیجہ قبول نہیں کروں گا،وی یو میں زیادہ تر طلبہ غریب ہیں،یہ نتیجہ منصفانہ نہیں ہے“۔

ورچوئل یونیورسٹی کے طالب علم طلحہ کا کہنا تھا کہ ”ہمیں لوٹا جا رہا ہے، وہ ہمارے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں“۔

تحریم نامی طالب علم کے لکھا ”ہم سب آخر تک متحد ہیں، آئیں اور اپنے مسائل اٹھائیں، اس مسئلے کا سامنا کرنے والے ہزاروں طلبہ اس وقت تک کورس کے انتخاب کا بائیکاٹ کریں جب تک وہ نتیجہ تبدیل نہیں کرتے“۔

یاد رہے کہ ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ کا یہ مسئلہ پاکستان میں طلبہ کیلیے کوئی پہلا مسئلہ نہیں ہے۔ پورے ملک میں اس وقت طلبہ فیسوں میں اضافے، ہاسٹلز کی کمی، ٹرانسپورٹ کی ناقص سہولیات، ہراسمنٹ، انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور کیمپسزمیں غنڈہ گردی جیسے بے شمار مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی آن کیمپس امتحانات کے خلاف طلبہ کی ایک ملک گیر تحریک دیکھنے کوملی۔ لاک ڈاؤن میں پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں نے طلبہ سے مکمل فیسیں لے کے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رکھا لیکن جب امتحانات کی باری آئی تو آن کیمپس امتحانات کا اعلان کر دیا گیا۔ ان امتحانات کا مقصد صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ طلبہ کو فیل کرنا تھا اور دوبارہ فیسیں بٹورنا تھا، اسی طرح اب ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اگر ان تما م مسائل کی وجہ تلاش کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایک لمبے عرصے سے چلے آرہے معاشی بحران کا سارا بوجھ طلبہ، مزدوروں اور کسانوں پر ڈالا جارہا ہے جس کے نتیجے مختلف شعبوں بالخصوص صحت اور تعلیم کے بجٹ میں ہر سال خاطر خواہ کٹوتیاں کی جارہی ہیں اور دفاعی بجٹ اور حکمرانوں کی عیاشیوں پر پیسے ضائع کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے ان کو فراہم کردہ سہولیات چھینی جارہی ہیں۔

یہ واضح رہے کہ موجودہ معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اب انسانوں کی اکثریت کیلیے معمول بن گئے ہیں۔ کیونکہ یہ بحران اس موجودہ دم توڑتے ہوئے نظام یعنی سرمایہ داری کا بحران ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس وقت انسانوں کی اکثریت سرمایہ داری کے بحران کے باعث بھوک، افلاس اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پوری دنیا میں کسی سیاسی پارٹی یا کسی معیشت دان کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ظلم وجبر اور وحشت پر مبنی اس نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینکا جائے۔پروگریسو یوتھ الائنس پچھلے لمبے عرصے سے نوجوانوں اور طلبہ کے مسائل کے حل اور سرمایہ دارانہ نظام کے خا تمے کی جدوجہد کر رہا ہے۔پروگریسو یوتھ الائنس ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور یونیورسٹی کے اس ظالما نہ رویے کی بھرپور مزمت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کے پاس اپنے مطالبات کو منوانے اور یونیورسٹی کے اس ظالمانہ سلوک کا جواب دینے کا واحد راستہ احتجاج ہے۔ اس وقت طلبہ کو نہ صرف متحد ہو کر اپنے سلگتے مسائل کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے بلکہ اس نظام کے خلاف ایک منظم جدوجہد بھی آج لازمی ہوچکی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان مسائل کی جڑ یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جائے۔ ہم ملک بھر کے طلبہ کو نوجوانوں اور طلبہ کو درپیش مسائل کے حل اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.