کراچی یونیورسٹی: ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (KIBGE) کے طلبہ کو درپیش مسائل۔۔۔ حل کیا ہے؟

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی یونیورسٹی|

کراچی یونیورسٹی کے ریسرچ سنٹر، ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (KIBGE) کے طلبہ کو بے تحاشہ مسائل کا سامنا ہے۔ فیسوں میں اضافہ، بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ، تحقیقی وسائل کی کمی، امتحانات کی منسوخیاں و ڈگریوں میں تاخیر، انتظامیہ کی نا اہلی اور غیر معیاری تعلیمی طریقہ کارسمیت دیگر مسائل کی وجہ سے طلبہ شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، اور ان مسائل کے خلاف طلبہ کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران سے تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ نتیجے کے طور پر، جیسا کہ بہت سی سروے اور تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے، اس ملک میں نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کر پاتا ہے۔ یہ بحران محنت کش طبقے اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کو بھی بری طرح سے متاثر کر رہا ہے، جو اپنے بچوں کے لیے تعلیم جیسے بنیادی حق اور ضرورت کے لیے اپنی تمام زندگی قربانیاں دیتے ہیں۔ اس نظام میں ڈگریاں روزگار کے حصول کے لیے خریدی جانے والی اشیاء سے زیادہ کچھ نہیں ہیں اور تعلیم شعار، ہنر، فنون اور علوم کی تربیت کے بجائے محض سستے مزدور پیدا کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔

ایسی صورتحال میں کراچی یونیورسٹی جو کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے کا ریسرچ سنٹر ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ مکمل انہدام کے دہانے پر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس ریسرچ سینٹر کے طلبہ نے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان کو بتایا کہ انتظامیہ کی نااہلی، مہنگی اور غیر معیاری تعلیم ہونے کی وجہ سے ان کے کئی کلاس فیلو تعلیم چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کو ناجائز طور پر فیل کیا جاتا ہے۔ طلبہ کو فیل کیے جانے والے مضامین کے سوالات کے لکھے گئے جوابات نہیں دکھائے جاتے اور نہ ہی اس بے جا فیل کرنے جیسے گھناؤنے عمل کو روکنے کا کوئی انتظام موجود ہے۔ ناجائز طور پر فیل کرنے کا مقصد بلیک میلنگ اور ہراساں کرنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر پیپرز اساتذہ خود بنانے کی بجائے باہر سے بنواتے ہیں، جس میں سلیبس اور کورس آؤٹ لائن کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا۔ اس سب کا نقصان طلبہ کو کم نمبروں یا فیل ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک اور بھونڈا مذاق یہ ہے کہ تحقیق کے لیے طلبہ کو انکی مرضی کا موضوع اور سپر وائیزر منتخب کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ ایسے ماحول میں جہاں طالب علم کی معاونت کی بجائے کام میں روڑے اٹکائے جائیں وہاں ایک طالب علم کیسے اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ جب طالب علم کو تحقیق کے دوران وسائل کی ضرورت پڑتی ہے، تو وسائل فراہم کرنے سے بھی سیدھا سیدھا انکار کر دیا جاتا ہے اور یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ فنڈز موجود نہیں ہیں۔

ایک تحقیقی ادارے میں تحقیق کے لیے ہی فنڈز نہیں ہیں، تو پھر ادارے کا مقصد کیا ہے؟ اس معاشی جبر اور ذہنی گھٹن کے ماحول میں صحت مند اور جدید تحقیق انسانی علم اور انسانیت کی آسانی میں اضافہ کرے، یہ ممکن ہی نہیں ہے!

چونکہ ادارہ عملی طور پرمنہدم ہو چکا ہے، لہٰذا ڈائریکٹر اور افسران ریسرچ کے کام کو آگے بڑھانے کے بجائے خوش گپیوں اور آپسی سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ دفاتر میں کسی چائے کے ہوٹل کی طرح خوش گپیاں اور مذاق معمول کی بات بن چکی ہے۔ ادارے میں افسران اور عہدیداران میں پروفیشنلزم کی بجائے سستی و کام چوری حاوی ہے۔ جب ڈائریکٹر، سپروائزر، یا اعلیٰ عہدوں پر فائز کوئی شخص کسی طالب علم کے خلاف ذاتی رنجش رکھتا ہے، تو یہ طالب علم کی تعلیمی ترقی کے لیے تباہی کا باعث بن جاتا ہے، یہ رنجشیں بظاہر چھوٹے معاملات پر پیدا کرتی ہیں، جیسے کہ کوئی طالب علم اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ ان کے لیے کوئی کام انجام دینے سے انکار کردے، ایسے معاملات میں، اعلیٰ عہدے رکھنے والی شخصیات اس طالب علم کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ رویہ طلبہ کے لیے ذہنی اذیت بن جاتا ہے۔ اس کے بعد طلبہ کے تعلیمی عمل کو لاتعداد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب تک کہ وہ دباؤ کا شکار نہ ہو جائیں اور ہر سمسٹر کے لیے اضافی فیس ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس سے نہ صرف طلبہ کا وقت ضائع ہوتا ہے، بلکہ ان پر فیسوں کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ اس طرح کے تکلیف دہ تجربات کے نتیجے میں KIBGE اور دیگر شعبہ جات کے طلبہ کو خاندانی توقعات کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کے پہلے سے ہی بے پناہ ذہنی تناؤ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ کا واحد مقصد خوف اور محکومیت کا ماحول پیدا کرنا ہے اور طلبہ کو ان کی قابلیت سے محروم کرنا اور ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو کچلنا ہے۔ وہ انہیں زندہ دل و دماغ رکھنے والوں انسان کے بجائے محض روبوٹ ’ہاں کہنے والے انسان‘میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آزاد سوچ، جذبات اور تجربات کے قابل نہ ہو۔ اس برین واشنگ میں یہ تصور پیدا کرنا بھی شامل ہے کہ طلبہ کو کسی بھی ناانصافی کے سامنے خاموش رہنا چاہیے، چاہے وہ اچانک فیسوں میں اضافہ ہو، جنسی ہراسانی ہو، امتحانات کی منسوخی ہو یا ڈگریوں میں تاخیر جیسے مسائل ہوں یا پھر بنیادی سہولیات جیسے کہ ایک اپ ڈیٹڈ لائبریری یا صاف پانی فراہمی کا مطالبہ غیرہ ’یہ سب انتظامیہ کے کام ہیں طلبہ کو بس پڑھائی پر دھیان دینا چاہیے‘۔ اگر کوئی طالب علم ان نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ہمت کرتا ہے یا ادارے کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے، تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔

طلبہ کو سیکھنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے اور تعلیم کا مقصد پیسہ چھاپنا بن چکا ہے۔ اگر کسی طالبعلم کے اندر ٹیلنٹ کی چنگاری ہے تو سپروائزر اور ڈائریکٹر گدھے کی طرح کام کرواتے ہیں اور طالبعلم کی صلاحیتوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ ان کی نظروں میں طلبہ صلاحیتوں کی کوئی قدر نہیں ہے، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ان کی طاقت اور پیسوں کے ہوس میں رکاوٹ نہ بنے۔

اعلیٰ عہدے پر فائز اساتذہ اور KIBGE کے ڈائریکٹرز کے ہاتھوں طلبہ کو ہراساں کرنا اور دباؤ ڈالنا ملک بھر کے کیمپسز میں ہراساں کیے جانے والے واقعات سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ کیمپس میں ہراساں کرنے کے خلاف جس قسم کی کمیٹی موجود ہے اس میں وہ تمام ہراسمنٹ کرنے والے یا ہراسمنٹ کرنے والوں کے دوست یا ساتھی شامل ہیں۔ کچھ سال پہلے، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر کی نادیہ اشرف نامی ایک پی ایچ ڈی کی طالبہ نے اپنے سپروائزر کے ہراساں کرنے کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ یہ کیس ان طلبہ کے لیے ایک دردناک یاد ہے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حصول کے دوران اپنے سپروائزرز کے ساتھ ساتھ ان کے شعبہ کے ڈینز، چیئرز، ڈائریکٹرز اور اساتذہ کی ہوس کا نشانہ بنے۔ کئی سال گزرنے کے باوجود کیمپس میں مختلف شکلوں سے ہراسمنٹ کا شکار ہونے والے ان متاثرین کو کوئی ”انصاف“ نہیں دیا گیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے طلبہ کو درپیش تمام مسائل کی مزمت کرتا ہے اور ان تمام مسائل کے فوری حل کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان مسائل کے حل کی جدوجہد میں طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مزاحمت ہی ان مسائل کے حل کا رستہ ہے، طلبہ متحد ہوکر آواز بلند کرنی ہوگی۔ یہ مسائل صرف اس ایک سنٹر کے ہی نہیں بلکہ کراچی یونیورسٹی کے دیگر ڈپارٹمنٹس کے طلبہ کو بھی درپیش ہیں، مسائل مشترکہ ہیں تو جدوجہد بھی مشترکہ کرنی ہوگی۔ لہٰذا مسائل کے حل کے لیئے طلبہ کی منتخب کمیٹیاں بنانی ہوں گی۔ اس سنٹر کے ہر کلاس سے طلبہ کے نمائندے منتخب کر کے طلبہ کی منتخب کمیٹیاں تشکیل دے کر ان کمیٹیوں کو یونیورسٹی کے باقی ڈیپارٹمنٹس کی طلبہ کی منتخب کمیٹیوں سے جوڑنا ہوگا۔ اور کراچی شہر کے دوسرے تعلیمی ادروں اور صوبے اور پھر ملک بھر کی طلبہ کی منتخب کمیٹی قائم کرنی ہوں گی۔

اس طرح ملک گیر سطح پر جدوجہد کو منظم کرنا ہوگا۔ پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ اور رہائش کی کمی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ طلبہ یونین کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافے، ہراسمنٹ کے مکمل خاتمے، اور تعلیم کو ہر سطح پر مفت بنانے کے لیے ملک گیر انقلابی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اور ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک ایسا سماج قائم کیا جائے گا، جہاں تعلیم سمیت ہر قسم کے کاروبار کا خاتمہ کیا جائے گا اور تمام بنیادی ضروریات انسانوں کو مفت فراہم کی جائیں گی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.