کشمیر: پلندری میں دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: گلباز خان|

پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام31 دسمبر اور یکم جنوری کو کشمیر ریجن کا دو روزہ مارکسی سکول پلندری میں منعقد ہوا۔ مجموعی طور پر سکول تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا ایجنڈا ’’نظریہ مسلسل انقلاب‘‘ تھا ۔ جس پرلیڈ آف عبید زبیر کی تھی۔ زبیر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظا م کا ارتقا دنیا کے مختلف خطوں میں یکساں خطوط اور سطح پر نہیں ہوا تھا اور یوں ہمیں تاریخی طور پر دنیا کے اندر ایک نا ہموارترقی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ میں قومی جمہوری انقلابات کے ذریعے ذرائع پیداوار اور سماج کو ترقی ملی اور جدید قومی ریاست اور منڈی کا جنم ہوا۔ ذرائع پیداور کی تیز ترین ترقی اور منافع کے حصول کی ضرورت نے عالمگیریت کو جنم دیا۔ جبکہ پسماندہ ممالک کی بورژ وازی تاریخی طور پر کمزور اور رجعتی تھی۔ زار شاہی کا روس بھی معاشی طور پر ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ریاست تھی۔ جہاں جاگیردارانہ رشتے بھی پوری شدومد کیساتھ موجود تھے۔ سرمایہ دارانہ پیداواری رشتے فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کی بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے متعارف کروائے گئے تھے۔ لیون ٹراٹسکی نے روسی سماج کے سماجی ارتقا کا درست سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے نظریہ مسلسل انقلاب پیش کیا۔ اور واضح کیا کہ روسی پرولتاریہ ہی کسانوں کو ساتھ ملاتے ہوئے انقلاب کی قیادت کرے گا۔ اس کے بعد گلباز خان اور ظہیر سدوزئی نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

سوالات کی روشنی میں یاسر ارشاد نے سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ فروری 1917ء کے واقعات کے بعد لینن کے اپریل تھیسس نے بھی نظریہ مسلسل انقلاب کی تصدیق کی ۔ اکتوبر 1917ء کا سوشلسٹ انقلاب نظریہ مسلسل انقلاب کی درستگی کوثابت کرتا ہے اورانقلا ب دو حوالوں سے مسلسل کردار کا حامل تھا۔ ایک پرولتاریہ نے قومی جمہوری انقلاب کے فرائض کو پورا کیا اور رکے بغیر پرولتاری یعنی مزدور راج کی تکمیل کی طرف فتح مندانہ پیش قدمی کی۔دوئم سوشلسٹ انقلاب نے ایک ملک یعنی روس سے آغاز کرتے پوری دنیا خاص کر یورپ تک پھیلنا تھا۔ یاسر نے مزید کہا کہ ایک ملک میں سوشلزم زیادہ دیر تک قائم نہیں کر سکتا۔ انقلاب کے ایک ملک میں مقید رہ جانے اور سٹالنسٹ زوال پذیری اور مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات کا ہی نتیجہ تھا کہ سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ آج عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب ہی نسل انسانی کی بقا اور خوشحال مستقبل کی واحد ضمانت ہے ۔

سکول کے دوسرے موضوع ’’سامراجیت‘‘ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے گلباز نے کہا کہ عالمگیرت سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے ایک خاص مقام پر نمودار ہوتی ہے جہاں بڑی سرمایہ دارانہ معیشتیں عالمی اجارہ داریوں کو جنم دیتی ہیں اور پوری دنیا ان اجارہ داریو ں کی لوٹ مار اور منافع کی ہوس کی تکمیل کے لیے تقسیم کی جاتی ہے ۔پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی بڑے سامراجی ملکوں نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے اور تقسیم نو کے لیے لڑی تھیں ۔ گلباز نے لینن کی کتاب ’’سامراج؛ سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں سامراجیت کے حوالے سے بیان کردہ خصوصیات کو بنیاد بناتے ہوئے آج کے عہد میں سامراجیت کی مختلف شکلوں اور مظاہر پر روشنی ڈالی اور بتایا کے دنیا کو محض دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا کہ ایک طرف چند بڑی ترقی یافتہ سامراجی طاقتیں امریکہ ، جرمنی، برطانیہ اور فرانس وغیرہ ہیں اور باقی پسماندہ یا ان کے تابع ملک ہیں جو سامراجی کردار یا عزائم کے حامل نہیں ہو سکتے۔ لینن نے زار کے روس کو جو اس وقت معاشی لحاظ سے ایک مطیع اور نیم جاگیردارانہ ملک تھا کو پانچواں بڑا سامراجی ملک قرار دیا تھا۔ آج کا پاکستا ن، ہندوستان، سعودی عرب وغیر ہ بھی سامراجی کردار کی حامل ریاستیں ہیں۔

نوید شاہین، یاسر ارشاد اور اجمل رشید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور WTO جیسے ادارے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے تخلیق کیے گئے۔ 1980ء میں مقروض ملکوں پر کل قرضوں کا حجم 500 ارب ڈالر تھا۔ جو 2012ء میں 4830ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سالانہ 600ارب ڈالر سود اور قرضوں ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے ۔جس کے نتیجے میں پسماندہ ملکوں کی معاشی بد حالی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ سرمائے کی دیوی پر کروڑوں بچوں کو ہر سال قربان کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان تمام وسائل کو انسانوں کی فلاح کے لیے خرچ کیا جائے تو چند سالوں میں دنیا بھر سے غربت، بیماری اور نا خواندگی کا خاتمہ ممکن ہے ۔صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ایسا سماج تخلیق کیا جا سکتا ہے۔

آدم پال نے سوالات کی روشنی میں سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کے عالمی بحران میں امریکی سامراج کی کمزوری نے نئی سامراجی طاقتوں خاص کر چینی سامراج کے لیے خلا پید ا کیا۔ دنیا پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے، منڈیوں اور خام مال کے حصول کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان تضادات اور کشمکش کو تیز تر کر دیا ہے ۔ پراکسی جنگوں اور خانہ جنگیوں نے دنیا کو عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ منافع اور لوٹ مار کی ہوس نے شام، افغانستان اور عراق کے عوام کو خون میں نہلا دیا ہے ۔ چین نہ صرف پسماندہ خطوں میں سرمایہ برآمد کر رہا ہے بلکہ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ خطوں میں بھی بڑے پیمانے پر چینی اجارہ داریوں کی انوسٹمنٹ موجود ہے۔ پاکستان میں بھی 52ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی بہتری نہیں لائے گی۔ بلکہ معاشی راہداری کی تکمیل سے چین سے آنے والی سستی اشیا کی برآمدات سے مقامی صنعت خاص کر ٹیکسٹائل انڈسڑی برباد ہونے کی طرف جائے گی۔ 80 لاکھ سے زائد مزدوروں کا روزگار ختم ہو جائے گا۔ آدم نے لینن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے اور اب انسانوں کو جنگوں اور بربریت کے سوا کچھ نہیں دے سکتی ۔ نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے پوری جرت اور اعتماد سے آگے بڑھا جائے۔اس سیشن کو آمنہ فاروق نے چیئر کیا۔

مارکسی سکول کے دوسرے روز تنظیم پر لیڈ آف دیتے ہوئے آدم پال نے کہا کہ آج ہم تبدیلوں کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں ۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران نے ہر جگہ عد م استحکام اور سماجی تنزلی کو جنم دیا ہے۔ عالی سطح پر ایک نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے۔ انقلابات، رد انقلابات، خانہ جنگیاں اور انقلابی تحریکیں اس عہد کا خاصہ ہے۔مارکسسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ انقلابی متبادل کی تعمیر کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھائیں ۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتیں کسی متبادل کی متلاشی ہیں۔ ایک درست نظریات کے حامل انقلابی پارٹی کی تعمیر سے سوشلسٹ انقلاب کی فتح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔اور یہی آج انقلابیوں کا تاریخ فریضہ ہے ۔

This slideshow requires JavaScript.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.