|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور |
31اکتوبر بروز ہفتہ سابقہ فاٹا کے طلبہ نے لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے سکالرشپس اورریزرو سیٹوں کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں مختلف تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس جس طرح روزِ اوّل سے ان احتجاجی طلبہ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا آ رہا ہے، اسی طرح اس احتجاج میں بھی طلبہ کے ساتھ رہا۔ یاد رہے کہ سابقہ فاٹا کے طلبہ پچھلے دو ہفتوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے ملتان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے پچاس دن تک احتجاجی کیمپ اور مزاحمتی احتجاجات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔
طلبہ کی اس مسلسل احتجاجی مزاحمت اور دھرنوں کی وجہ سے بالاآخر ایچ ای سی نے طلبہ کے مطالبات کو مان لیا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس سابقہ فاٹا کے طلبہ کو اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ سابقہ فاٹا کے طلبہ سے پہلے بالکل ایسی ہی ایک شاندار مثال بلوچ طلبہ نے بھی قائم کی ہے جنہوں نے اپنے متواتر احتجاجی دھرنوں اور ملتان تا لاہور پیدل لانگ مارچ جیسی طویل اور انتھک جدوجہد کے ذریعے اپنی سکالر شپ اور ریزرو سیٹوں کو بحال کروایا۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ کی جدوجہد کے بارے میں جاننے کے لیے ذیل میں دیے گئے لنکس کا مطالعہ کریں۔
1-آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
2- مزید پڑھنے کی لیے یہاں کلک کریں۔
3- بلوچ طلبہ کی شاندار فتح کے بارے میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ان طلبہ کی اس کوشش نے ملک بھر کے دوسرے طلبہ کوریاستی جبر کے خلاف لڑنے کے لیے نئے سیاسی میدان کا رخ دکھایا ہے، جہا ں وہ ایک مزاحمتی رستہ اپناتے ہوئے اپنے تمام مطالبات کو منوا سکتے ہیں۔
چند ہی دنوں میں دو بڑی کامیابیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جدوجہد کے طریقہ کار سے اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان کے طلبہ کے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ اگر چند طلبہ مل کر اپنی سکالرشپس اور ریزرو سیٹوں کا مسئلہ حل کروا سکتے ہیں تو طلبہ کے ملک گیر سطح پر منظم ہونے سے فیسوں کے خاتمے اور طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبات بھی منوائے جا سکتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت پروگریسو یوتھ الائنس نے 19 دسمبر 2020ء کو ملک گیر سطح پر ” ڈے آف ایکشن“ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان بھر کے طلبہ سے اپیل ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اس جدوجہد کا حصہ بنیں!
اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیے طلبہ میں پختہ جڑت کا ہونا بے حد لازمی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو اس علاقائی اور گروہی سیاست سے بالاتر ہو کر ملکی سطح پر مہم کا آغاز کرنا ہو گا تاکہ تمام بکھرے ہوئے نظریات کو ایک انقلابی لڑی میں پرویا جائے، جو آنے والی طلبہ تحریک کے گلے کا ہار بن سکے۔
تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو!
طلبہ اتحاد زندہ باد!