دہشت گردی کی صنعت، سرمایہ دارانہ نظام اور APS کا غم

|تحریر: فضیل اصغر|

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تخلیق کی وجہ ابھی تک واضح نہیں کی جاسکی اور یہ سوال ابھی تک الجھن کا شکار ہے۔ عام حالات میں تو ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان کی نظریاتی اساس میں کوئی الجھن ہے۔ مگر جب بھی اس مملکت خداداد میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو سبھی ٹی وی چینلوں اورٹاک شوز میں ایک ہی بحث ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جسکا لب لباب پاکستان کی ’’نظریاتی اساس‘‘ ہوتا ہے۔ ایک طرف مذہبی رہنما دین اسلام کو پاکستان کی نظریاتی اساس ثابت کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں او ر یہ را کے ایجنٹ ہیں جو پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہذٰا ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے تاکہ ان شر پسند عناصر سے اپنے ملک کو بچایا جا سکے جبکہ دوسری طرف نام نہاد آزاد خیال یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ مذہبی انتہا پسندی بالخصوص اور مذہب بالعموم ہے اور اگر اسے ختم کر دیا جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ وہ یورپ کی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھیں چونکہ وہاں ریاستیں سیکولر ہیں اور مذہبی بنیاد پرستی نہیں ہے اس لیے وہاں دہشت گردی بھی بالکل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر دونوں فریقین کی جانب سے خوب رونا دھونا جاری رہتا ہے مگر اس کھیل میں میڈیا چینل سبقت لے جاتے ہیں اور ایسے ایسے دکھی نغمے بنا کر اپنے اپنے چینلوں پر چلائے جاتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے جیسے انسانی دکھ کو بس یہی چینل محسوس کر رہے ہیں اور انہیں انسانی جان کی بہت قدر ہے۔

میڈیا پر ہوتی ہوئی اس تمام تر بحث کا نتیجہ پروگرام کا اینکر ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ پاک آرمی اب ان دہشت گردوں کو نہیں چھوڑے گی اور اب ان کے برے دن شروع ہوگئے ہیں، قوم ان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے اور پاک آرمی کیساتھ ہے۔ بس اب دہشت گردی کچھ ہی دنوں میں ختم ہو جائے گی۔ ضرب عزب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر آئی ایس پی آر کا تخلیق کردہ ایک نغمہ بمعہ وڈیو چلایا جاتا جس میں دہشت گردوں کو برا دکھایا جاتا ہے اور پاکستانی عوام کو ایک منظم اور جڑی ہوئی قوم جو ایک پرچم کے سائے تلے ایک کھڑی ہوتی ہے اوراسی طرح آٹھ دس سکینڈ کے دورانیے کے بعد آرمی کے جوان دکھائے جاتے ہیں اس نغمے میں جو دہشت گردوں کو مار رہے ہوتے ہیں، اور پھر پاکستان کو تمام قسم کی دہشت گردی سے پاک اور ترقی کرتا ہوا دکھا کر نغمے کا اختتام کر دیا جاتا ہے جس کے فوراًبعد موبائل فون اور مشروبات کی تشہیر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد تمام مذہبی رہنما اور دانشور حضرات اپنے اپنے گھروں کو تشریف لے جاتے ہیں، لوگ بھی کچھ دیر کیلئے افسوس کر کے اور انڈیا اور مذہبی جنونیوں کو گالیاں نکال کر چینل تبدیل کر لیتے ہیں اور دیگر چینلوں پر چلنے والے رنگا رنگ پروگراموں سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں اگر کسی کی جیت ہوتی ہے تو وہ ہوتے ہیں میڈیا چینل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کے منافع اورتشہیر بہت شاندار انداز میں کی گئی ہوتی ہے۔

16دسمبر، 2014ء کو خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول پر کچھ دہشت گردوں نے حملہ کیا جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ اس حملے میں 150 سے زائد زندہ انسانوں کو موت کی وادی میں اتار دیا گیا جن میں 134 بچے اور اسکول سٹاف شامل تھا۔ حملہ صبح 10:30 بجے کے قریب ہوا۔ اس حملے میں دہشتگردوں نے اندھادھند فائرنگ کی اور سکول کو قربان گاہ کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ فرش اور دیواریں معصوم بچوں کے خون سے بھر دیں گئیں۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ اور اس حملے کو بدلے کا نام دیا مگر یہ واقع اتنا سادہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینٹ جیسے حساس علاقے میں جہاں عام آدمی کو داخل ہوتے وقت کئی بار چیکنگ کرانی پڑتی ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک چیکنگ کی جاتی ہے وہاں بھاری اسلحے سے لیس درندہ صفت دہشت گرد کیسے آرام سکون سے داخل ہوگئے اور کسی نے پوچھا تک نہیں؟ آئی ایس پی آر کے بیانات اور حقائق بھی آپس میں میل نہیں کھاتے۔ مثلاً آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پندرہ منٹ کے اندر ہی ایس ایس جی (سپیشل سروسز گروپ) کے جوان وہاں پہنچ گئے تھے اور دہشت گردوں کو مار گرایا گیا۔ لیکن حقیقت میں ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ تقریبا 150 سے زیادہ لوگوں کو مارنا اور وہ بھی چن چن کر اور کلمہ پڑھوا کر محض پندرہ منٹ میں بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اسی طرح اور بھی کئی بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اسی طرح جس آپریشن (ضرب عضب ) کو یہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا اوزاربتا رہے ہیں دراصل وہ دہشت گردی پیدا کرنے کا اوزار ہے۔ کیونکہ جن علاقوں میں طالبان موجود ہیں جیسے سوات وغیرہ وہاں پاک آرمی انوکھے ہی منصوبے کے تحت ان کی کمر توڑ رہی ہے، مثلاً 2007ء میں جب سوات پرطالبانوں نے قبضہ کر لیا تھا تو ان دنوں آپریشن ’’راہ حق‘‘ کا آغاز کیا گیااور ایسے عجیب و غریب انداز سے کمر توڑی گئی کہ سبحان اللہ۔ دریائے سوات کے ایک طرف پاک آرمی کی چوکی ہوتی تھی اور دوسری طرف طالبان چوکی۔ اسی طرح پاک آرمی ان علاقوں پر حملہ کرتی تھی جہاں طالبان نہیں ہوتے تھے اور عام لوگ ہوتے تھے کیونکہ طالبان کو تو پہلے ہی وہ علاقہ چھوڑ دینے کہ اطلاع پہنچ جاتی تھی۔ جب عام، نہتے اور بے گناہ لوگوں کو مارا جائے گا دہشت گردی کے نام پر تو ان میں سے بچ جانے والے کیا سوچیں گے؟ کیا وہ پاکستان کے حق میں سوچیں گے؟ بالکل نہیں وہ اس کا بدلہ لینے کا سوچیں گے اور بدلہ لینے کیلئے ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ان دہشت گردوں کے ساتھ جڑ جائیں۔ پھر یہ وحشی اس بدلے کی آگ سے بھرے نوجوانوں کو استعمال کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دنیا کی 90 فیصد افیون کی کاشت ہوتی ہے(تقریبا 6000ٹن)۔ اوردنیا میں ہیروئن کی 90ارب ڈالرکی تجارت ہوتی ہے جس میں سے 30 ارب ڈالر کی تجارت بذریعہ پاکستان ہوتی ہے۔ اس بھاری بھرکم کالے دھن پر قبضے کی جدوجہدمیں نام نہاد جہادیوں سے لے کر ’پاک‘ آرمی کے جرنیل تک سب لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں دہشت گردی اسی کالے دھن کی رقم سے فروغ پاتی ہے اور APS اورباچا خان یونیورسٹی جیسے واقعات کو نا صرف جنم دیتی ے بلکہ انہی کی بنیاد پر اور پھلتی پھولتی بھی ہے۔ اسی لیے اگر دہشت گردی کوختم کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا جائے گا یا اگر دہشت گردی ختم ہو جائے گی تو لوگ حقیقی مسائل پر سوال اٹھانے لگیں گے۔ وہ پوچھیں گے اور وہ ایسا پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پاکستان کے اندر 40فیصد(حکومتی اعداد و شمار) بچے غذائی قلت کا شکار کیوں ہیں؟ 1000میں سے 40.7 بچے پیدا ہوتے ہی کیوں مر جاتے ہیں ؟قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے ہر روز سینکڑوں لوگ کیوں مر جاتے ہیں؟ اور یہ سوالات سیدھا ان ملٹی نیشنل کمپنیوں پر انگلی اٹھاتے ہیں جو اپنے منافعوں کے لیے دوائیاں بناتی ہیں نہ کہ انسانی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ بات گیٹس فارما (Gets Pharma)، فائزر (Pfizer) اور گلیکسو سمتھ کلائن(Glaxo Smith Kline) کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ ان کمپنیوں کا کاروبار بیماریوں سے چلتا ہے۔ اسی لیے صحت کے شعبے کو محض 22 ارب روپے دیے گئے جبکہ اسکے مقابلے میں فوج کو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 960 ارب روپے دیے گئے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی یہی حال ہے۔ تعلیم کے شعبے کو 84 ارب روپے دیے گئے۔ یعنی کہ پورے بجٹ کا تقریباً2 فیصد۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے اگر تعلیم کو مفت اور معیاری کر دیا گیا تو پرائیویٹ اداروں کا کیا ہوگا کہ جن کا تعلیمی شعبے سے اربوں روپوں کا کاروبار جڑا ہوا ہے؟ اور خاص طور پر اگر امن ہوگا، دہشت گردی یا جنگیں نہیں ہونگی تواسلحہ بنانے والی کمپنیوں کا کیا ہوگا کہ جن کا انسانوں جانوں کو قتل کرنے سے سالانہ کھربوں ڈالر کا کاروبار چلتا ہے؟اسی لیے معاشرے کو جان بوجھ کر دہشت گردی جیسے مسائل جن کو حکمران خود پیدا کرتے ہیں، میں جھونکا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنے حقیقی مسائل (صحت، تعلیم اور روزگار) پر بات ہی نہ کر پائیں اور دیگر مسائل میں ہی غرق رہیں۔
ان تمام تر باتوں اور پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گردی کیوں اور کیسے پیدا کی جاتی ہے اور اس سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟ اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ دہشت گردی کا حل تب تک نہیں ہو سکتا، جب تک ان تمام بڑی بڑی نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیوں کو جو اسلحہ بناتی ہیں اورصحت کے شعبے کو کاروبار بنا کر اس پر منافع کماتی ہیں، تعلیم کو کاروبار بنا کر اس سے منافع کماتی ہیں اور اسی طرح پوری دنیا میں جنگیں کرواتی ہیں اور کروڑوں لوگوں کو اپنے منافعوں کیلئے قتل کرواتی ہیں، ان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور صحت کے شعبے کو منافع کیلئے نہیں بلکہ بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا، تعلیم کے شعبے کو منافع کمانے کیلئے نہیں بلکہ سماج کو جدید شعور اور تکنیک سکھانے کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا اور اسلحہ سازی کی جگہ انفراسٹرکچر کو تعمیر کرنے اور جدید تحقیق کے فروغ کو ترجیح نہیں دی جاتی تب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام میں آج ہم رہ رہے ہیں یا جس نظام کے تحت یہ دنیا چل رہی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے یعنی کہ آزاد منڈی کی معیشت۔ اس میں کوئی بھی شے پیدا کرنے کی بنیادی وجہ اسے بیچ کر منافع کمانا ہوتا ہے۔ اب جب ہر شے کو بنانے کا محرک ہی منافع کمانا ہے تو پھر کہاں کی انسانیت، پھر تو اسلحہ ہی بنے گا، صحت کا کاروبار ہی ہوگا، تعلیم کا کاروبار ہی ہوگا اور انسانی جانوں سے زیادہ پیسے کی ہی قدر ہوگی۔ لہذٰا اگر دہشت گردی سمیت دیگر تمام مسائل جیسے بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور جرائم کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کرنا ہے تو اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جو انسانوں کو پیسے پر ترجیح دے اور جس کے اندر کسی بھی شے کو بنانے کا مقصد اسے بیچنا نہ ہو بلکہ استعمال کرنا ہو یعنی انسانی ضرورت پوری کرنا ہو۔ یعنی کہ جس میں دوائیاں بیچنے کی غرض سے نہ بنائی جائیں بلکہ انسانی بیماریوں کے علاج کیلئے بنائی جائیں اوراسی طرح تعلیم کا مقصد بھی کاروبار کرنا نہ ہو بلکہ ریاست تعلیم کو سماج میں جدید شعور کو پھیلانے کیلئے مفت، معیاری اور یکساں مہیا کرے۔ تب ہی جا کر سماج کے اندر سے تمام غلاظتوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
آج جس عہد میں ہم جی رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور زوال کا عہد ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسے بحران پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس نظام کی حدود میں موجود نہیں۔ اس سے صرف ایک ہی صورت میں نکلا جا سکتا ہے یا تو پوری دنیا کو برباد ہونے دیا جائے یا اس نظام کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، تو اس تعفن زدہ نظام سے انسانیت کو چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔ وگرنہ آرمی پبلک سکول جیسے کئی سانحے ہمیں روز دیکھنے کو ملیں گے۔ پشاور حملے میں ناحق مرنے والوں کا بدلہ اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ایک انسان دوست سوشلسٹ سماج کی تعمیر کر کے ہی لیا جا سکتا ہے جس میں ان انسانیت دشمن قوتوں کی کوئی جگہ نہیں ہوگی اور تب ہی حقیقی معنوں میں امن قائم کیا جا سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.