|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|
سندھ یونیورسٹی کے طلبہ اور وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن جامشورو کے ساتھیوں کی طلبہ سیاست کے عنوان پر سٹڈی سرکل کا انعقاد 7 اگست 2019ء کو ہوا۔ سٹڈی سرکل میں 20 طالب علموں نے شرکت کی، جن میں وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن جامشورو کے ساتھی کامریڈ مصدق سیال نے سٹڈی سرکل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عظیم مارکسی مفکر ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ نوجوان درخت کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں جو طوفان میں سب سے پہلے تحرک میں آتے ہیں۔ سیاست حقوق کی جنگ کے اوزار کا نام ہے جس سے طلبہ محروم ہیں۔ انتظامیہ جو چاہے کرے فیس بڑھائے، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی سہولیات نہ دے وغیرہ پر طلبہ کچھ نہ کریں۔
اس کے بعد انگریزی شعبے کے طالب علم علی گل زرداری نے کہا کہ طلبہ سماج کے مستقبل کے ضامن ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کا حق رکھتے ہیں، جو ان کی سیاست میں شمولیت سے ہی ممکن ہے۔
اس کے بعدآئی بی اے کے طالب علم علی محمد زرداری نے کہا کہ ماضی میں طلبہ سیاست کی وجہ سے درسگاہوں سے عظیم سوچ و خیالات پیدا ہوتے تھے جب کہ آج کل تعلیم کے نام پر ہمیں روبورٹ بنایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد کامریڈ سلامت زؤر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ سیاست کے خلاف پراپیگنڈہ دراصل ریاست کی جانب سے طلبہ سیاست کو بدنام کرنے کی سازش تھی، جس کی عکاسی ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طالب علموں کی طلبہ سیاست کے بارے میں منفی سوچ ہے۔
اس کے بعد اینتھروپولوجی (anthropology) شعبہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم، احسن ملاح نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سماج سیاست کے بغیر وجود نہیں رکھتا اس لیے سیاست انسانی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہے، لہٰذا اسی طرح طلبہ بھی سیاست کے اثرات سے نہیں بچ پاتے۔
اس کے بعد انگریزی شعبے کے طالب علم شہباز پیرزادہ نے کہا کہ سیاست سماجی ادارہ ہے۔ہم شعوری یا لاشعوری طور سیاست کرتے ہی ہیں اور نوجوانوں کی سیاست اس لیے ضروری ہے کہ وہ تبدیلی کا جذبہ رکھتے ہیں اور وہ طلبہ ہی ہیں جو جدوجہد کرتے ہیں یعنی سرکلز چلانا عوامی حقوق کے لیے لڑنا وغیرہ۔ یہ مراعات یافتہ طبقے کا کام نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی مشینری کا حصہ ہے۔ مثال کے طور رپر اساتذہ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر سرکلز چلاتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ کہیں کمروں سے باہر کی سیاست ان سے یہ نوکری نہ چھین لے۔
اس کے بعد کامریڈ سرمد سیال نے طلبہ سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست حقوق کو حاصل کرنے کے لیے لڑنے کا نام ہے جو سماج کی ہر جگہ بنیاد رکھتا ہے۔ لہٰذا طلبہ سیاست کا قطعی یہ مقصد نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں تک محدود رہیں۔ انہوں نے سماجی انقلابات میں طلبہ کے کردار پر بھی بات کی اور تاریخی حوالے دیے۔
اس کے بعد کامریڈ علی عیسیٰ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست سمیت سماجی سائنس کے ہر شعبے کا کوئی ایک وصف نہیں ہوتا وہ سماجی حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا سیاست ایک سماجی ادارہ ہے جو دوسرے اداروں کو سنبھالنے کا کام کرتا ہے۔ مختلف پراپیگنڈوں کے ذریعے نوجوانوں اور محنت کشوں کو سیاست سے دور کر کے ان پر یہ بوڑھے اور سرمایہ دار حکمرانی کر کے ان کا استحصال کریں گے۔ لہٰذا مزاحمت کے خوف سے ان حکمرانوں نے طرح طرح کے بہانوں کے ذریعے طلبہ سیاست کے خلاف پراپیگنڈہ کیا۔ یہ صرف آج کی بات نہیں ہے یہ ہر دور میں رہا ہے جیسے بوڑھا گاندھی، نوجوان بھگت سنگھ کے انقلابی جذبوں سے خوف زدہ تھا۔ کوئی بھی شخص سیاست سے جتنا بھی دور بھاگے، اس کے اثرات سے بچ نہ پائے گا۔ مثال کے طور پر تازہ ہی ایچ ای سی کی طرف سے یونیورسٹیوں کی فیسیں بڑھانے کا نوٹیفکیشن، عوام سے تعلیم کا بنیادی حق چھیننا ہے۔ جسے صرف سیاسی مزاحمت کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی نمائندگی کے لیے طلبہ سے بہتر کوئی نہیں کر پائے گا لہٰذا طلبہ یونین کی بحالی ہی طلبہ نمائندگی کی ضامن ہے۔ اس کے بغیر طلبہ پر ناجائز فیصلے ہی تھونپے جائیں گے۔
اس کے بعد کامریڈ شیراز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کا مطلب حق کا مطالبہ کر کے اس کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ کوئی سیاست کرے یا نہ کرے، وہ سیاست کے اثرات سے نہیں بچ پائے گا۔
بحث میں اضافہ کرتے ہوئے کامریڈ مجید پنور نے کہا کہ ہمیں جدید نصاب سے دور رکھ کر جدید دنیا سے پرے کیا جارہا ہے۔
اختتام پر کامریڈ علی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ طلبہ سیاست کی مخالفت کون کر رہے ہیں، جن کا پیشہ ہی سیاست ہے یہ کتنی عجیب بات ہے کوئی ڈاکٹر آپ کو کبھی یہ نہیں کہے گا کہ ڈاکٹر مت بنو! یعنی یہ حکمران طبقہ ڈرتا ہے کہ کہیں یہ نوجوان اور نہتے لوگ ان سے ڈرنا چھوڑ دیں گے۔طلبہ کی جگہ سوال ان نام نہاد نمبر داروں سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ کے ہوتے ہوئے غیر قانونی چیزیں اندر کیسے پہنچیں۔