|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بی زیڈ یو|
مورخہ 17 اکتوبر 2019 بروز جمعرات کو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام ”پاکستانی معیشت کا مستقبل کیا ہوگا؟“ کے موضوع پر سٹڈی سرکل منعقد ہوا۔ جس میں مختلد شعبہ جات سے 25 سے زائد طلباء نے شرکت کی۔
سٹڈی سرکل کو چیئر محمد ذیشان نے کیا جس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے تعارف کے ساتھ سٹڈی سرکل کی اہمیت بیان کی اور پھر موضوع کا تعارف کرواتے ہوئے فضیل اصغر کو بحث کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔
فضیل نے بحث کا آغاز پاکستانی معیشت کو عالمی معیشت کے ساتھ جوڑتے ہوئے کیا اور بیان کیا کہ اس وقت عالمی سرمایہ دارای ایک نئے بحران کے دہانے پہ کھڑی ہے جو 2008 کے بحران سے زیادہ شدید اور دشوارگزار ہوگا۔ جس کا اظہار یورپی یونین، چین، امریکہ اور دیگر تمام بڑی معیشتوں کی زبوں حالی اور سست روی کی صورت میں ہورہا ہے۔ وہیں اس کا اظہار سیاست اور سماج کے دیگر اداروں میں بھی عدم استحکام کا مؤجب بن رہا ہے۔ ان بڑی معیشتوں کا عدم استحکام پاکستانی معیشت پہ گہرے اثرات مرتب کررہا ہے جس میں پاکستان کی ماضی کی امریکہ کیلئے اہمیت کا ختم ہونا واضح امر ہے۔
اس صورتحال میں جہاں پاکستان کی معیشت، جو آخری سانسیں لے رہی ہے اور سٹیگفلیشن (Stagflation) کی حد تک پہنچ چکی ہے، کو زندہ رکھنے کیلئے IMF کی وضع کردہ پالیسیاں پاکستان کے محنت کش طبقے پہ مزید کٹوتیوں، معاشی حملوں اور نجکاری کی صورت میں اظہار پذیر ہورہی ہیں۔ IMF کے قرضوں کے پیچھے امریکہ کے سیاسی مفادات موجود ہیں (طالبان امریکہ معاہدہ)، جن کی بنیاد پر پاکستان کو یہ قرضہ دیا گیا ہے۔ فضیل نے اس قرضے کی سخت شرائط اور انکے پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر تفصیلی بات کی۔
اسی طرح خطے کی سیاست کے پاکستان کی معیشت پر اثرات، عالمی معاشی بحران کے پاکستان کی معیشت پر اثرات اور پاکستانی سرمایہ دار طبقے کے طفیلی کردار (جو طفیلی ہی رہے گا) کی بنیاد پر مستقبل میں پاکستان کی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا تناظر پیش کیا۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں نجکاری، پاکستان میں صنعتی ترقی اور مسائل کے حل کے متعلق سوالات کیساتھ ساتھ سیاسی نوعیت کے سوالات جیسے امریکی دباؤ پہ طالبان سے ڈیل اور طلبہ کے مسائل کے مستقل حل کے متعلق سوالات آئے۔
بحث کو مزید آگے فرحان رشید نے بڑھایا جس میں پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کے خصی پن اور اس کے ہمیشہ سے طفیلہ اور دونمبرکردار پہ بات کی اور یہ بتایا کہ آج کے عہد میں جب عالمی سرمایہ داری ذائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے وہاں پاکستان کے حالیہ روپے کی قدر میں کمی نے تمام دعوؤں کے باوجود برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا بلکہ معاملہ اُلٹ ہوا کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے نے لاگت میں مزید اضافہ کردیا۔ پاکستان کی مہنگی مصنوعات باہر اور اپنے ملک میں موجود باہر کی دنیا کی سستی مصنوعات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وقت جب ساری سرمایہ دارانہ دنیا بحران کی ابتدائی لہروں میں ہچکولے کھا رہی ہے، پاکستان کے معاشی استحکام کی بات ناممکن ہے۔
اس کے بعد عاصم ارسلان نے بحث میں حصہ لیا اور یہ بات کی کہ اگر سارے پاکستانی بطور قوم ملکی اشیاء (Made in Pakistan)استعمال کریں تو معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ارسلان کا کہنا تھا کہ چینی ماڈل اور ترکی اسکی مثال ہیں۔
اس کے بعد فضیل اصغر نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بحث کا اختتام کیا۔ جس میں پہلے عاصم ارسلان کی بات کا تجزیہ کیا اور اس پہ تنقید کی کہ اس وقت اوّل تو پاکستانی صنعت اس قدر پیدا کرنے سے ہی قاصر ہے اور جو وہ پیدا کررہی ہے وہ معیار میں کمتر اور قدرے مہنگی ہیں، جن کی خریداری خود محنت کش طبقے پہ ایک بوجھ کی صورت میں اظہار پذیر ہوگی۔ جہاں تک قوم کا سوال ہے تو پاکستان کے محنت کش طبقے سمیت پوری دنیا کا محنت کش طبقہ اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقے سمیت پوری دنیا کا سرمایہ دار طبقہ کسی صورت ایک قوم نہیں ہیں۔ دونوں کے دُکھ سُکھ، خوراک، تعلیم، کھانا پینا، رہن سہن الغرض زندگی کا ہر طور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کسی صورت ایک قوم نہیں دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ محنت کش طبقہ کسی صورت حکمران طبقے کے مفادات کیلئے قربانی دینے سے قاصر ہے کہ حکمران طبقے کے مفادات محنت کش طبقے کی موت ہیں۔
جس کے بعد آخری سوال معاشی مسائل کے حل پہ بات کرتے ہوئے فضیل نے کہا کہ اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کسی صورت مسائل کا حل ممکن نہیں اور ہر قسم کی معاشی بہتری محنت کش طبقے کے لہو کے قطروں اور ہڈیوں کے گودے سے حاصل ہوگی۔ واحد حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب دولت پہ قابض طبقے سے دولت کو چھین کر عوام کی اجتماعی ملکیت میں لیا جائے اور منصوبہ بند معیشت کا قیام عمل میں لایا جائے۔