|تحریر: خالد قیام|
ایجوکیشن منسٹری نے حسبِ معمول طلبہ اور تعلیمی نظام کے ساتھ کھلواڑ کو جاری رکھتے ہوئے 26 نومبر 2020 کو تمام ملک کے تعلیمی اداروں کو بند کر کے آن لائن کلاسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کروایا تھا۔ اس سے پہلے مختصر عرصے کے لیے فقط فیسیں بٹورنے کی خاطر آن کیمپس کلاسوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ نااہل اور تذبذب کی شکار حکومت نے دو ماہ بعد پھر سے فروری میں تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا لیکن تعلیمی اداروں کی بندش کے اس تمام عرصے میں حسبِ روایت طلبہ کو آن لائن تعلیم کی کوئی بھی سہولت مہیا کیے بغیر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ ان سے ہاسٹلز چھین لیے گئے، سخت معاشی بدحالی کا سامنا کرتے ہوئے، ناقص و لاغر انفراسٹرکچر کے ساتھ اور سہولیات کے فقدان کے باوجود طلبہ نے اپنے بل بوتے پر کسی بھی طرح اپنی آن لائن کلاسوں کو جاری رکھا۔ ان تمام حالات سے طلبہ شروع دن سے مکمل طور پر غیر مطمئن رہے اور ہر وقت حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کے اس پورے کھلواڑ کے خلاف بے چینی اور غصے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس پورے عرصے میں کورونا کیسز میں اضافے کا بہانہ بنا کر حکومت نے طلبہ تحریک کے خوف سے تعلیمی اداروں کو بند رکھا جبکہ پاکستان بھر کے تمام کاروباری ادارے بدستور چلتے رہے۔ ایجوکیشن منسٹری نے یکم فروری سے تعلیمی اداروں کو سلسلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔ لیکن آن لائن کلاسوں کے بعد طلبہ پر آن کیمپس امتحانات کا فیصلہ تھوپ دیا گیا، جسے طلبہ نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔ آن کیمپس امتحانات کے خلاف اٹھنے والی شاندار ملک گیر طلبہ تحریک کے لیے پشاور کی اباسین یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج نے چنگاری کا کام کیا۔ اس ایک چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کے اندر جنگل میں لگی آگ کا معیاری روپ دھار لیا۔ اباسین کے طلبہ کے احتجاج کی تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہ طلبہ تحریک اب تک پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد، پشاور، ڈیرہ غازی خان، ملتان، کراچی اور حیدر آباد میں اپنے قدم جما چکی ہے اور بہت امکانات ہیں کہ بہت جلد یہ تحریک باقی شہروں کا رُخ بھی کرے گی۔
پاکستان میں ایک لمبے عرصے سے سکوت پذیر طلبہ سیاست میں یہ مسلسل احتجاجی سلسلہ طلبہ کی سیاسی شعوری بیداری کی پہلی انگڑائی ہے۔ جس میں طلبہ نے اپنے ساتھ ہونے والے کھلواڑ، تعلیم کے نام پر لوٹ مار، فیسوں میں مسلسل اضافے اور باقی طلبہ دشمن پالیسیوں کے خلاف اپنے مجتمع شدہ غصے کا اظہار معیاری جست کے ساتھ آن کیمپس امتحانات کی شدید مخالفت کی شکل میں کیا ہے۔
ان تمام احتجاجوں میں جو ایک پہلو مشترک ہے اور نیا بھی، وہ یہ کہ یہ احتجاج خود رو اور یونیورسٹوں کے عام طلبہ نے اپنے بل بوتے پر منظم کئے ہیں۔ جن کا طلبہ سیاست پر مسلط کردہ روایتی تنظیموں اور فیڈریشنوں نے نہ تو اعلان کیا تھا، نہ ہی انہیں منظم کیا تھا، بلکہ پشاور یونیورسٹی کے پہلے دن کے احتجاج سے تو ان تمام تنظیموں نے شعوری طور پر بائیکاٹ کر کے طلبہ پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے روایتی تنظیموں کی منت سماجت اور ان سے درخواست کرنے کی بجائے خود ہی احتجاج کا اعلان کر کے غلطی کی ہے۔ احتجاجی طلبہ کو یہ بھی جتایا گیا کہ وہ ان روایتی تنظیموں کے بغیر اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کر سکتے۔ اس طرح کی بحثیں سوشل میڈیا پر ان تنظیموں کے لیڈران نے احتجاجی طلبہ پر لعن طعن کرتے ہوئے جاری رکھی ہیں۔ لیکن ملک بھر کے طلبہ نے اپنی پرجوش، جرأت مندانہ اور مشترکہ جدوجہد سے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کی پالتو تنظیموں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ طلبہ اپنے زورِ بازو پر ہی اپنے حقوق کے لیے نہ صرف لڑ سکتے ہیں بلکہ فتح یاب بھی ہو سکتے ہیں۔
اب اس احتجاجی تحریک کے مطالبے پر بات کرتے ہیں۔ اس طلبہ تحریک کے آن لائن امتحانات کے مطالبے پر بھی مختلف حلقوں سے تنقید ہوتی نظر آ رہی ہے اور طلبہ پر آسان طریقے سے نمبر حاصل کرنے کے چکر میں احتجاج کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ ایک محدود نقطہ نظر ہے جس میں حالیہ طلبہ دشمن پالیسیوں اور طلبہ کے اندر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک عرصے سے پنپتی بغاوت اور غم و غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف آن لائن امتحانات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس یہ معاملہ جیسا نظر آتا ہے ویسا بالکل نہیں ہے، جس طرح اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ طلبہ نے یہ احتجاج بظاہر تو آن لائن امتحانات کے لیے منظم کیے ہیں لیکن یہ احتجاجی طلبہ پچھلے ایک لمبے عرصے کی خاموشی کی روٹین کو زبردست چوٹ کے ذریعے ٹوڑتے ہوئے اس سے باہر نکل رہے ہیں۔ طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاسی بہیمانہ جبر و تشدد کا بے حد دلیری سے مقابلہ کیا ہے اور ثابت قدمی، مستقل مزاجی سے اپنے مطالبے پر پُرامن طریقے سے ڈٹے ہوئے ہیں۔
کرونا وبا کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن سے لے کر اب تک طلبہ نے حکومت اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے حملوں اور بے حسی و نااہلی سے جو اسباق حاصل کیے ہیں، یہ احتجاج اور تحریکیں انہی شعوری تبدیلیوں کا اظہار ہیں۔ طلبہ اپنی مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں مختلف جگہوں پر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ کا مستقبل میں اپنی جدوجہد کو لے کر کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ کیا مطالبات کی منظوری کے بعد طلبہ دوبارہ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے؟ یہ بے شک ابھی آغاز کا بھی آغاز ہے جس میں اتار چڑھاؤ آنے لازمی ہیں، لیکن یہ بات یاد رہے کہ مستقبل قریب میں طلبہ پر ممکنہ معاشی اور جابرانہ حکومتی پالیسیوں کے پیش نظر یہ مزاحمتی عمل اب یہاں تک محدود نہیں رہے گا۔ اس عمل کی ایک مثال پشاور یونیورسٹی میں رواں احتجاجی سلسلہ ہے جہاں طلبہ نے آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا مگر اب اس کامیاب احتجاج کے بعد وہ تمام طلبہ آج درست طور پر طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کی بحث کا آغاز کر چکے ہیں۔
لیکن اس تمام تر صورتِ حال میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سارے عمل میں طلبہ ایک لمبے عرصے سے حقیقی طلبہ سیاست سے دوری کے نتیجے میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے غلطیاں کرنے کی طرف بھی جائیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طلبہ سیاسی عمل سے انحراف برتیں گے، بلکہ انہیں ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے، اپنے دشمنوں اور خیرخواہان کی پہچان کرتے ہوئے، درست سمت کا تعین کرنا ہو گا اور اپنے آپ کو پاکستان کے ہرتعلیمی ادارے میں، ہر کیمپس میں طلبہ کمیٹیوں کی صورت میں منظم کرتے ہوئے ملک گیر طلبہ اتحاد کی طرف بڑھنا ہو گا۔
اس عمل کے اندر طلبہ کی صفوں میں شامل لڑاکا اور باشعور عناصر کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ طلبہ کے جذبوں اور غصے کو ٹھنڈا نہ پڑنے دیں بلکہ اس احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے فی الفور ہر یونیورسٹی کے ہر کیمپس کے اندر نئی اور مستقل طلبہ کمیٹیاں منتخب کرنے کی طرف جائیں تاکہ آنے والے حملوں، جو کہ اس سے کہیں تیز اور زیادہ ہوں گے، کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جا سکے۔ یہی درست وقت ہے کہ اب طلبہ اس جاری تحریک کو ہر سطح پر مفت تعلیم کے مطالبے، تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کے مطالبے، تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کے مطالبے، روزگار کی فراہمی یا بے روزگاری الاؤنس کے مطالبے اور سب سے اہم طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک غیر طبقاتی نظامِ تعلیم کے قیام کی طرف بڑھیں۔