|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
بلوچستان کے واحد بڑے میڈیکل ادارے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی تعلیمی فیسوں میں کہیں 350 تو کہیں 1400 فیصد کے لگ بھگ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ داخلہ فیس، ہاسٹل فیس، ٹیوشن فیس اور رجسٹریشن فیس وغیرہ کی مد میں کیاجاچکا ہے اور یہ معاشی حملہ نئے سال کے طلبہ کے اوپر کیا گیا ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی کی فیسوں میں حالیہ اضافہ سال اول کے طلبہ کیلئے پچھلے سال کی نسبت 350 فیصد سے زیادہ اضافہ بنتا ہے، جس میں داخلہ فیس میں 10000 سے 18000، ٹیوشن فیس 5000 سے 60000 تک کا ناقبل برداشت اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی چیزوں کی مد میں فیسوں میں کیے گئے اضافے کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو پچھلے سال کی نسبت 25000 سے 88000 کا ٹوٹل اضافہ بنتا ہے۔
اسی طرح سال دوئم، سوئم اورسال چہارم کے طلبہ کی فیسوں میں بھی تقریباً اسی تناسب سے اضافہ کیا گیا، جس میں ٹیوشن فیس کو 2500 سے بڑھا کر 60000 پر پہنچا دیا ہے اور ویلفیر فنڈ کو 2500 سے 10000 تک بڑھایا گیا ہے۔ کل ملا کر یہ فیس 5000 سے مجموعی طور پر 70000 تک بڑھاکر 1400 فیصد کا ناقابل یقین اضافہ کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں سے میڈیکل کالجز کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے اور صوبہ بھر کے لاکھوں طلبہ کیلئے پورے صوبے میں صرف چار میڈیکل کالجز موجود ہیں جن میں بولان میڈیکل کالج اب یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکا ہے، جہاں دوردراز سے آئے ہوئے طلباء و طالبات کوصرف داخلہ حاصل کرنے کے عمل کے دوران بے تحاشا ازیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے بی یو ایم ایچ سی کے بحران زدہ داخلہ سسٹم کے اندر مختلف ٹیسٹنگ سروس ایجنسیوں کے ذریعے طلبہ کی لوٹ مار کروائی جاتی ہے تو کبھی ناقص امتحانی طریقہ کار کے ذریعے طلبہ کی تعداد کومحدود کیا جاتا ہے تاکہ اداروں کے اندر طلبہ کی تعداد کو کم کر کے معاشی بحران کا ازالہ کر سکیں۔
پچھلے سال انٹری ٹیسٹ کے نتائج کے بعد بلوچستان کے تین نئے میڈیکل کالجز، جن میں جھالاوان میڈیکل کالج، لورالائی میڈیکل کالج اور تربت کے میڈیکل کالج شامل ہیں، کے نئے سال کا پڑھائی سیشن شروع نہیں کروایا جا رہا تھا، لیکن طلبہ نے آخرکار مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کی طاقت کے ذریعے سیشن شروع کروایا، جس میں پروگریسو یوتھ الائنس نے ان کی اس جدوجہد میں فرنٹ لائن پر اپناکردار ادا کیا تھا۔ آج پھرایک بار میڈیکل کے شعبے کے اندر طلبہ پر ایک خطرناک معاشی حملہ کیا گیا ہے، جس سے حکمران طبقے کی تعلیم جیسے بنیادی شعبے کی طرف رویہ اور انکا گھناونا چہرہ عیاں ہوتا نظر آتا ہے۔
پچھلے سال ملکی بجٹ کے اندر سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی ضروریات کیلئے رکھا گیا تھا اور تمام تعلیمی اداروں کے اندر انتظامیہ کو معاشی لوٹ مار اور بحران کا ازالہ طلبہ، ملازمین اور کلاس فور سے پورا کرنے کی کھلی چوٹ دے دی گئی ہے۔ ایسی صورتحال کے اندر طلبہ کی اکثریت کو تعلیم سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس تمام تر ظلم اور لوٹ مار کے خلاف طلبہ بھی جابجا حرکت کررہے ہیں اور جگہ جگہ احتجاجوں، تحریکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ آج بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ تقریباً ایک ہفتے سے کلاسز کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں جو حالیہ فیسوں میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پی وائے اے احتجاجی طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور طلبہ پر اس معاشی حملے کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم کرتا ہے۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – کوئٹہ: بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ اور ملازمین پر بہیمانہ پولیس تشدد اور گرفتاریاں