|رپورٹ: اسفند یار شنواری|
ریاستی پشت پناہی میں مشعل خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف 25اپریل بروز منگل پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے ہاسٹل نمبر 1سے نیو بلاک تک احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی میں طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ طلبہ نے مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی، اور مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فی الفور پھانسی دی جائے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پختونخواہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن خالد مندوخیل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشال خان کی جدوجہد، طلبہ کی اکثریت کی جدوجہد ہے۔ یہاں تعلیم دی نہیں جاتی بلکہ بیچی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشال خان پر حملہ تمام طلبہ پر حملہ ہے۔ اگر طلبا متحد نہ ہوئے تو اس طرح کے اور واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسیں، پسماندہ نظام تعلیم، برباد انفراسٹرکچر اور نہ ہونے کے برابر ٹرانسپورٹ یہ تمام وہ مستقل مسائل ہیں جو تمام طالبعلموں کو درپیش ہے۔ اگر انہوں نے ان مسائل کے لئے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کی تو وہ اس آواز کو دبا نہیں سکتے۔
ریاض وزیر نے سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے لئے آواز اٹھائی اور جلد سے جلد سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا اور طلبہ سے اپیل کی کہ وہ اپنے مسائل کے خلاف ایک شعوری آواز اٹھائے۔ یاد رہے کہ طویل عرصے کے پعد پہلی دفعہ پشاور یونیورسٹی میں اتنے ریڈیکل نعرے لگائے گئے ہیں۔
اس طرح کے معروضی حالات میں طلبہ کو مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جڑت بنا کر ایک مارکسسٹ لائحہ عمل کے تحت سوشلسٹ سماج کی جانب بڑھنا چاہئے جس میں ہر کسی کو تعلیم، علاج اور روزگار بلاتفریق مل سکے گا۔ پروگریسیو یوتھ الائنس طلبہ کے حقوق کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ہر محاذ پر طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔