|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|
کرونا وبا کے باعث تعلیمی اداروں پر نافذ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی کو کھلے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کھلتے ہی امتحانات منعقد کرنے کا اعلان کیا، جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز کا تجربہ بُری طرح ناکام ہوا۔ یونیورسٹی کھلنے کے پہلے دن ہی طلبہ نے امتحانات منعقد کرنے کے خلاف شاندار احتجاج کیا، ظاہر ہے کہ آن لائن کلاسز کے لیے کوئی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث جب طلبہ کچھ پڑھ ہی نہیں سکے تو امتحان کیا دیں گے؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک طرف تو کلاسیں شروع کر دیں مگر طالبات کے لیے یونیورسٹی کا فی میل ہاسٹل کھولنے سے انکار کر دیا اور طلبہ نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا جس کی پروگریسو یوتھ الائنس نے تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی تھی۔ رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی یہ بالکل بھونڈی منطق ہے کہ یونیورسٹی کھول دی گئی، امتحانات منعقد کیے گئے لیکن طالبات کا ہاسٹل بند رکھا گیا۔ ایسے میں سینکڑوں کی تعداد میں وہ طالبات جو دور دراز علاقوں سے کراچی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آئی ہیں اور ان کے پاس یونیورسٹی کے ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور رہائش بھی موجود نہیں ہے، در بدر ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ یہ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کا نا صرف تعلیم دشمن بلکہ انسان دشمن اقدام بھی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹلز پر تو پہلے ہی سیکیورٹی اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے اور طلباء شہر میں مہنگی اور غیر معیاری جگہوں پر رہے ہیں لیکن اب فی میل ہاسٹل بند کر کے طالبات کے لیے بھی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔
خود تو وی سی، انتظامیہ کے افسران اور ان کے بچے کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں کے بلبوتے پر ہی عالی شان بنگلوں میں رہتے ہیں لیکن طلبہ کو دینے کے لیے ان کے پاس عام رہائش بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی ہاسٹل کا مسئلہ صرف چند طالبات کا ہی نہیں بلکہ یہ تمام طلبہ کا مسئلہ ہے۔ لیکن کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس ظالمانہ اقدام کو ماننے سے انکار کر دیا اور کل مورخہئ 21 ستمبر 2020 کو وی سی آفس کے سامنے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا لیکن بد قسمتی سے قیادت اور باقاعدہ سیاسی پروگرام کے فقدان اور طلبہ کے منظم نہ ہونے کی وجہ سے یہ احتجاج منسوخ کرنا پڑا۔ البتہ ایڈمن آفس کے سامنے طلبہ کی میٹنگ ہوئی جس میں ہاسٹل کھلوانے کی جدوجہد کے لائحہ عمل پر تفصیلی بحث ہوئی۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے وفد نے بھی اس میٹنگ میں شرکت کی اور طلبہ کے سامنے اپنا موقف رکھا کہ یہ ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ اور عوام دشمن ہیں، ان سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور ہاسٹل کا حق ہمیں طلبہ کی جدوجہد اور سیاسی لڑائی کے ذریعے ہی حاصل کرنا پڑے گا۔ میٹنگ کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ کے چند نمائندگان آئے اور طلبہ کو یقین دہانی کروائی کہ اگر طلبہ درخواست لکھ کر بھیجیں تو دو دن میں ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا، انتظامیہ کے نمائندگان کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کی طرف سے ہدایات ہیں کہ صرف تیس فیصد طالبات کے لیے ہاسٹلز کھولے جائیں گے۔ اس پر طلبہ نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دو دن میں مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ احتجاج کرنے کے اعلان پر میٹنگ کا اختتام ہوا۔
پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ طلبہ کو ہاسٹل ملنا ان کا حق ہے کوئی بھیک نہیں جس کے لیے طلبہ درخواستیں لکھتے پھریں اور نہ ہی یہ مسئلے کا حل ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کو ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی کے طلبہ کی حالیہ شاندار تحریک سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاؤ کے طلبہ نے اپنے ہاسٹل پر قبضہ کے خلاف درخواستیں لکھ لکھ کر تھک جانے کے بعد احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا اور ہاسٹل کے حق کے لیے دو مہینے کی طویل جدو جہد کے بعد کالج انتظامیہ اور سندھ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر کے یہ ثابت کیا کہ اپنا حق صرف لڑ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر طلبہ متحد ہو جائیں تو انتظامیہ اور اس کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یونیورسٹی انتظامیہ ہمیں تب تک ہی بہت طاقت ور لگتی ہے جب تک طلبہ متحد نہیں ہیں، ایک بار طلبہ متحد ہو گئے تو اپنا ہر مطالبہ منوا سکتے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس مزید سمجھتا ہے کہ مفت تعلیم، ہاسٹل، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات ہر طالب علم کا بنیادی حق ہے اور ان سب کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ریاست آج تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پائی ہے اور اس نے ہمیشہ یہاں کے نوجوانوں کو رسوا کیا ہے۔ طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کرنا ہو گی جہاں طلبہ انتظامیہ کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کر سکیں۔ طلبہ یونین میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ الیکشن کے ذریعے خود اپنی قیادت منتخب کر سکیں گے اور وہ قیادت یونیورسٹی سنڈیکیٹ (Syndicate) کا باقاعدہ حصہ ہو گی جس میں طلبہ کی مرضی کے بغیر نہ فیس بڑھ سکے گی، نہ ہاسٹل بند ہو سکے گا، نہ امتحانات کا طریقہ اور شیڈول متعین ہو گا، نہ کیفے ٹیریا کے ریٹ اور معیار تبدیل ہوں گے۔ ہم ایک بار پھر کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اپنا حق حاصل کرنے کا واحد راستہ جدوجہد ہے اور پروگریسو یوتھ الائنس اس جدوجہد میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!