ملتان: پروفیسر مافیا کے رویے سے دلبرداشتہ نوجوان طالبعلم کی خودکشی

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ملتان|

این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ملتان کے ایک طالب علم مزمل مقصودنے غنڈہ نما پروفیسروں کی پروفیسر گردی سے تنگ آ کر چند روز قبل خود کشی کر لی۔ خود کشی کی تاریخ نامعلوم ہے البتہ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ یکم جون سے لا پتہ تھا۔مزمل کی

مزمل مقصود کی تصویر

لاش 4جون کو ہیڈ محمد والا سے ملی اور 8جون کو لاش کی شناخت ہوئی۔مزمل آرکیٹیکچر (Architecture)کا طالب علم تھا اور آخری سمیسٹر میں تھا۔
مزمل کے دوستوں کی جانب سے دی گئی اطلاعات کے مطابق مزمل کے خودکشی کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جس موضوع پر وہ اپنا تھیسز (Thesis)تیار کر رہاتھا پروفیسروں کو اس سے اختلاف تھا اور پروفیسر اسے اپنی مرضی کا تھیسز تیار کرانے کیلئے بار بار تبدیلیاں کرواتے رہے تھے حتی کہ اس کا موضوع ہی تبدیل ہوچکا تھا جبکہ مقالے کا عنوان منتخب کرنا طالب علم کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ عنوان تبدیل کرنے پر مزمل نے انکار کر دیا لہذا اسے پروفیسروں کی جانب سے دھمکایا جانے لگا کہ اسے فیل کر دیا جائے گا وغیرہ۔بالآخر اس کے ڈیپارٹمنٹ کی انتطامیہ  کی جانب سے 31مئی کو اسے واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ وہ فیل ہے۔ اس کے بعد وہ یکم جون سے لاپتہ ہوگیا اور خود کشی کر لی۔
                                 

شناخت ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس خبر کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔یقیناًمیڈیا کو بھی خبر پر پردہ ڈالنے کے منہ مانگے پیسے دیے گئے ہوں گے اسی وجہ سے اتنی بڑی خبر ہمیں کہیں بھی نہیں دیکھنے کو ملی۔اگر کہیں کسی اخبار میں یا میڈیا چینل پر چھوٹی سی اور تھوڑی سی دیر کیلئے آئی۔ اسی طرح یونیورسٹی کے طلبا کو بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کرنا شروع کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اگر وہ اس حوالے سے کوئی بات کریں گے تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔مگر اس سب کے باوجود خبر سوشل میڈیا پر آ ہی گئی۔ جس کے خوف سے یونیوسٹی انتظامیہ نے کاغذی کاروائی مکمل کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس نے اس مسئلے کی جانچ پڑتال کرنی ہے اور 15دنوں کے اندر مجرموں کو سب کے سامنے لانا ہے۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹس جس میں 15 دنوں کے اندر تحقیقات کا نتیجہ نکالنے کا کہا جا رہا۔

جبکہ طلبہ کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کمیٹی میں سب وہی پروفیسران ہیں جو عام طلبہ پر اپنی دہشت جماتے ہیں تا کہ وہ طلبہ میں اپنا خوف برقرار رکھ سکیں۔یعنی خود ہی چور اور خود ہی جج!
طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ این ایف سی کے پروفیسر مافیا اور انتظامیہ نے یونیورسٹی کے اندر ایک اور یونیورسٹی بنائی ہوئی ہے جس کے انہیں علیحدہ پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ پروفیسر اور انتظامیہ پہلے طلبہ پر اپنی دہشت جمانے کیلئے خوف و ہراس پھیلاتے ہیں اور پھر اس خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے بے جا جرمانوں کی شکل میں ہزاروں روپے بٹورتے ہیں اور حتی کہ بعض طلبہ سے تو پاس کرنے تک کے پیسے لیتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف طریقوں سے طلبہ کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ غلام ہیں۔ اس پروفیسر گردی کو برقرار رکھنے کی وجہ اپنی کرپشن کو بغیر کسی پوچھ گوچھ کے جاری رکھنا ہے۔مزمل بھی در حقیقت کرپشن کے اس وحشی کھیل کا ہی شکار ہوا۔
یہاں ایک بات انتہائی غور طلب ہے کہ مزمل کا واقع پاکستان میں کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہر سال پاکستان میں ہوتے ہیں کیونکہ یہ پروفیسر گردی پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں موجود ہے۔اس کے علاوہ آئے روز نا جانے کتنے ہی طلبا اور خاص طور پر طالبات اس پروفیسر گردی کے نتیجے میں اپنی عزت نفس گنوانے کے بعد ذہنی دباو کا شکار ہو کر دن رات مسلسل اذیت میں موت نما زندگی گزارتے ہیں۔ جو اس ادارے میں روزانہ اپنی عزت نفس گنوانے کے بعد دوبارہ ذلیل ہونے صرف اس لیے جاتے ہیں کیونکہ انکے والدین نے ان کی فیسیں ادا کی ہوتی ہیں اور ان کے سامنے ان کے والدین کا چہرہ ہوتا ہے ۔ روز خود کشی کا سوچ کر زندہ صرف اس لیے رہتے ہیں کہ ان کے پیچھے ان کے والدین کے ساتھ معاشرے میں کیا ہوگا۔ اس طرح موت نما زندگی گزارنے والے پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
پروفیسر گردی کیساتھ ساتھ این ایف سی میں تعلیم کا کاروبار خوب زور و شور سے

این ایف سی کی تصویر

جاری ہے اور فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی صرف این ایف سی میں ہی وجود نہیں رکھتا بلکہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں طلبہ کو اس سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اور مسائل ہیں جیسے ہاسٹلوں کا مسئلہ اور طالبات کو ہراساں کرنے کا مسئلہ وغیرہ جو مشترکہ ہیں۔ اب جب مسائل مشترکہ ہیں تو پھر لڑائی علیحدہ علیحدہ کیوں؟ ہمیں ‘ایک کا دکھ ،سب کا دکھ’ کے نعرے کے ساتھ پورے پاکستان کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہوگااور مل کر ان مشترکہ مسائل کے حل کیلئے ایک مشترکہ لڑائی لڑنا ہوگی۔
طلبہ کو اکٹھا کرنے کیلئے طلبہ یونین کی اشد ضرورت ہے جو کہ طلبہ کا جمہوری حق ہے جسے یہاں کے حکمرانوں نے ان سے چھینا ہوا ہے۔ آج ہمیں لڑ کر وہ حق دوبارہ چھیننا ہوگا اور مل کر یہاں سے تعلیم کے کاروبار کا خاتمہ کرنا ہوگا۔جس کے ساتھ ہی دیگر تمام مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ یہی مزمل کا حقیقی بدلہ ہوگا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.