پاکستان: طلبہ سیاست کی تاریخ اور جدوجہد کی ضرورت

|تحریر: فرحان رشید|

2008ء کے معاشی بحران کے 10 برس گزر جانے کے بعد آج حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بدتر ہونے کی طرف رواں ہیں۔ ہر جگہ معاشی و معاشرتی شعبہ جات عدم استحکام کا شکار ہیں، ایسے میں پاکستان جیسے تباہ حال ممالک میں یہ عدم استحکام آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ معیشت بدتری کی آخری حدوں کی طرف گامزن ہے، آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، آدھے بچے سکول جانے سے قاصر ہیں، تعلیمی نظام بوسیدگی کا شکار ہے اور اب مزید کٹوتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ سیاست دان دولت کی غلاظت میں پڑے ان مینڈکوں کی طرح ہیں جو مزید دولت کے حصول کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ اور ایسے میں نئی حکومت کٹوتیوں، نجکاری اور بیروزگاری کے تحائف اپنے ساتھ لے کر آچکی ہے۔

دراصل اس وقت ریاست پاکستان اس قدر مسائل میں گھر چکی ہے کہ سرکار خود پریشان ہے کہ کونسا مسئلہ زیادہ اہم ہے اور کونسا کم۔ ایسے میں پاکستان کی طلبہ سیاست کا ذکر کیا جائے تو عام سیاست کے مردے پر سو دُرے کا سا منظر ملتا ہے۔ اول تو طلبہ سیاست پر سرکار اور منصفین نے قدغن لگادی مگر ان سیاسی جماعتوں کے اپنے کارندے آج بھی فعال ہیں مگر ان کا طلبہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم اس مخلوق کا نظارہ اکثر کرتے ہیں؛ کبھی چوکوں پر امریکہ کا جھنڈا جلاتے، بھارت اور اسرائیل کے سربراہوں کو گالیاں دیتے اور مردہ باد امریکہ کے نعرے لگاتے، تعلیم کی سربلندی کے لیے پروفیسروں کی مارپیٹ کرتے، اچھے نمبروں کے حصول کے لیے اسلحہ اور کتاب لیے امتحانی کمرے میں، غیر نصابی سرگرمیوں میں نشہ کرتے، لڑکوں کی مارپیٹ کرتے، لڑکیوں کو ہراساں کرتے اور ناظم اعلیٰ ہونے کے ناطے گرلز ہاسٹل میں مقیم پاتے ہیں۔ ان طلبہ تنظیموں کا کردار دیکھ کر سادہ لوح طلبہ خود ان سے نفرت کرتے ہیں۔ طلبہ کو سیاست سے باز رکھنے میں سرکار کے حلف نامے سے زیادہ ان تنظیموں کا کردار موثر نظر آتا ہے۔

ان نام نہاد طلبہ تنظیموں کا یہ کردار طلبہ میں تقسیم در تقسیم کا سبب تو بنتا ہے مگر طلبہ یونین کی اہمیت کو کسی قدر کم نہیں کرتا چونکہ طلبہ یونین ہی طلبہ کی واحد آواز ہوتی جس کا ادراک ہمیں ماضی کی طلبہ سیاست سے ہوتاہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن نام کا مسلم لیگ کا سٹوڈنٹ ونگ موجود تھا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد دسمبر 1947 میں جماعت اسلامی سے جڑی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ قائم ہوئی۔ آغاز میں یہ دونوں تنظیمیں کوئی قابل ستائش کام نہ کر سکیں، مسلم لیگ جو ایک جاگیرداروں کی جماعت تھی اب واحد مقتدر جماعت تھی اب عہدوں کی لالچ اور مفادات کی وجہ سے اس کے اندر پھوٹ پڑ چکی تھی اور اس کے اثرات مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پڑے اور وہ کئی حصوں میں بکھر گئی مگر وہیں جب پاکستان کے حالات بدترین تھے، یونیورسٹیوں اور کالجوں کی بیحد کمی تھی، سارا تعلیمی نظام بدحالی کا شکار تھا تو یہاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے جڑے طلبہ نے 1951ء میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی اور جلد ہی کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے طلبہ میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا اور 1952ء تک بڑی بائیں بازو کی جماعت بن گئی۔ اس تنظیم کی مقبولیت کی وجہ طلبہ مسائل جیسا کہ ہاسٹل کے مسائل، لائبریری کی سہولیات اور نئی یونیورسٹیاں بنانا وغیرہ کے لیے آواز اُٹھانا تھا جس سے دوسری تنظیمیں قاصر تھیں اور 1953ء میں انہی مسائل کو اپنے مطالبات بناتے ہوئے DSF نے یومِ مطالبات کا اعلان کیا اور وزیر تعلیم کے پاس اپنے مطالبات لے جانے کا اعلان کیا مگر ان کے مظاہرے پر پولیس کی طرف سے تشدد سامنے آیا اور چھ لاشوں سے نوازا گیا جس کے بعد معاملات مزید بگڑے اور نئے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے مطالبات کو مانا اور کراچی یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے قیام کا اعلان ہوا جو دراصل DSF کی پہلی کامیابی تھی۔ DSF چونکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) کا ہی حصہ تھی اور اس کے USSR سے قریبی تعلقات تھے مگر ریاست پاکستان امریکی گماشتگی کا شکار تھی سو DSF نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف اپنا واضح موقف رکھا۔ 1954ء تک DSF جو طلبہ کی واحد آواز تھی ریاست کے لئے ایک خطرہ بن چکی تھی جس کے گرد طلبہ پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر منظم ہو رہے تھے کو بین کر دیا گیا۔ یہ بین کمیونسٹ پارٹی کے بین کے ساتھ ہی لگایا گیا۔یوں بہت سے ترقی پسند طلبہ کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سوشلسٹ نظریات پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی۔

ڈی ایس ایف کے ممبران ڈی جے سائنس کالج کراچی میں 1953 میں حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔

ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی کے بعد بیوروکریسی کی مدد سے خلا کو پُر کرنے کے لیے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی گئی بعد ازاں جس میں DSF کے ممبران نے شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسے ایک نئے سوشلسٹ پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا۔ 1957ء کے یونین انتخابات میں NSF نے کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے تقریباً سبھی اداروں سے فتح حاصل کی۔ 1958ء میں ایوب خان نے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور سبھی طلبہ تنظیموں پر پابندی لگادی۔ اس عرصہ میں بلوچستان میں ون یونٹ اور بلوچستان کے حقوق کی خاطر بلوچ طلبہ سرگرم رہے مگر کوئی اہم پیش رفت نظر نہیں آتی۔ 1960ء میں ایوب خان نے یہ پابندی ہٹائی۔ NSF نے اس دوران طلبہ کو سوشلسٹ لٹریچر فراہم کرنے اور سٹڈی سرکلز کا سلسلہ شروع کردیا اور 1960 کے طلبہ یونینز انتخابات میں واضح برتری حاصل کی جس کا مقابلہ بنیاد پرست اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) سے تھا۔ 
ایوب خان کے عہد میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی اور اس کے نتیجے میں پرولتاریہ کی ایک خاطر خواہ پرت نے بھی جنم لیا۔ NSF نے ان سے بھی جڑت قائم کرنا شروع کردی۔ اس دوران MSF کہیں تاریکیوں میں گم ہوچکی تھی۔ 1962ء میں نئے قانون کا اطلاق ہوا اس میں یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف طلبہ خاص کر NSF نے ایک تحریک شروع کی اور جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ ایک ظالمانہ آرڈیننس تھا جس کے تحت سرکار کسی ناپسندیدہ افسر کو ملازمت سے ہٹانے کا حق رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ طلبہ کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کو روکنے، سرگرمیوں کی بنا پہ جرمانے عائد کرنے، اساتذہ کی تنخواہوں، ترقیوں، غیرملکی اکیڈمک رابطوں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کو سیاسی کنٹرول کے تابع کردیا گیا۔ ایک اور ناجائز اضافہ ’’سٹوڈنٹ افئیرز ڈپارٹمنٹ‘‘ کا قیام تھا جو دراصل سرکاری غنڈہ گردی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے طلبہ کو روکنے کا ذریعہ تھا۔ 1962ء میں ہی انجمن محبانِ اسلام کا قیام اور MSF کا ابھار ہوا جب مسلم لیگ کا ایک گروہ مسلم لیگ کنونشن کے نام سے ایوب کی آمریت کا ساتھی بنا۔ اس طرح MSF حکومتی فنڈنگ پر دوبارہ ابھری۔ 
طلبہ سیاست میں ایک خاص واقعہ 12 ستمبر 1962ء کو پیش آیا جب کراچی پولو گراؤنڈ میں مسلم لیگ کنونشن کے جلسے کے دوران اسٹیج پر NSF کے اسٹوڈنٹس چڑھ دوڑے۔ اس کے بعد کئی گرفتار ہوئے مگر طلبہ کے کئی مطالبات تسلیم ہوئے جیسے بیچلرز ڈگری دو سال ہونا۔ 1963ء میں کراچی کے محنت کشوں کی ہڑتال میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس دوران چین روس تنازعہ کی وجہ سے پاکستان میں بھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اندر پھوٹ کا آغاز ہوا جس میں اکثریت ماسکو نواز دھڑے کی تھی۔ اس دوران NSF کے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے ساتھ بھرپور قسم کے روابط تھے۔ درحقیقت NSF کو نیپ اپنا سٹوڈنٹس فرنٹ مانتی تھی۔ سو جو ماسکو نواز دھڑا تھا وہ ولی خان گروپ میں تھا اور جو بیجنگ نواز وہ بھاشانی کی اسپورٹ میں گو یہ تنازعہ کافی پرانا تھا مگر اس کا واضح اظہار 1965ء میں ایک کنونشن میں ہوا جب این NSF دو دھڑوں کاظمی اور معراج میں بٹی۔ لہٰذا 1965ء کے انتخابات میں NSF کے چین نواز دھڑے نے ایوب خان کی حمایت کی۔

این ایس ایف کے زیر اہتمام ایک اجتماع میں مولانا بھاشانی، رشید احمد خان (صدر این ایس ایف) کیساتھ۔ 1969

 
اس عہد میں ایوب آمریت کو کئی برس بیت چکے تھے اور محنت کش طبقے میں ایوب خان کی مزدور دشمن پالیسیوں کی وجہ سے غصہ اور بے چینی زور پکڑ رہی تھی۔ NSF کا محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں تک رابطہ تھا جبکہ جماعت اسلامی کے فرنٹ IJT کا زور ایوب کی سیکولر پالیسیز کے مخالف تھا اور این ایس ایف کی دھڑے بازی بھی اس کو بہت فائدہ دے رہی تھی۔ ایوب محنت کش طبقے کی بے چینی سے خائف تھا سو اس نے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت پر کشمیری سرحد سے حملہ کرکے جنگ چھیڑ دی جس کا ثمر آخر کار معاہدہ تاشقند کی صورت میں آیا یعنی آخری نقطے پر پاکستانی شکست۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ جو پہلے ہی دگرگوں حالت میں تھا اب مزید بے حال ہوا اور احتجاجوں ہڑتالوں کا وسیع سلسلہ شروع ہوا۔ اس شکست کی وجہ سے ایوب کا وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بولنے لگا اور ایوب کے خلاف بغاوت کی پہچان بن گیا۔ خاص طور پر NSF (معراج) نے جو سپلٹ کے بعد NSF کا طاقتور دھڑا تھا، نے ذوالفقار علی بھٹو کو حمایت دی اور اس وقت طلبہ تنظیم اس قدر وسیع تھی کے نومبر 1967ء میں اس نے پیپلز پارٹی جیسی مضبوط جماعت کا سنگ بنیاد رکھا جس کا قائد بھٹو بنا۔ NSF نے درحقیقت پیپلز پارٹی کے فرنٹ کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور این ایس ایف کی محنت کشوں کی وسیع پرتوں میں پہچان کے باعث پیپلز پارٹی کو بھی حمایت حاصل ہوئی۔ یہ NSF کے انقلابی لڑکے اور لڑکیاں ہی تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کی کمپئین فیکٹریوں میں جا کر کی۔ NSF کی نوجوانوں محنت کشوں میں بھرپور کمپئین، پاکستان میں محنت کشوں کی تحریکوں اور عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی دیوہیکل تحریکوں کے باعث بھٹو بھی بائیں بازو کی نعرے بازی کرنے لگا۔

پاکستان میں69-1968ء کی انقلابی تحریک جس نے ایوب آمریت کا تختہ الٹ دیا، میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا بائیں سے دائیں: معراج محمد خان، ذوالفقار علی بھٹو اور رشید احمد۔ NSF کنونشن کراچی 1967ء

 
بلوچستان میں قومی جبر اور عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی تحریکوں (بائیں بازو کی مقبولیت) کے زیر اثر 1967ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے روابط بھی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) سے ہی تھے اور یہ بلوچستان کے طلبہ کی واحد موثر تنظیم کے طور پر سامنے آئی۔ اس سے اگلے ہی برس جنوری 1968ء میں انجمنِ محبانِ اسلام اور جمعیتِ طلبہ اہلسنت نے مل کر انجمن طلبہ اسلام کی بنیاد رکھی جو ایک دائیں بازو کی جماعت جمعیت علماء پاکستان سے جڑی ہوئی تھی۔ اپریل 1968ء میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) قائم ہوئی اس کے بھی NAP سے قریبی تعلقات تھے اور باچا خانی نظریات کا اس پر اثر تھا۔ پشتون طلبہ میں اس نے خاصی حمایت حاصل کی اور تب ایک ترقی پسند تنظیم کے طور پر، گو قوم پرست نظریات سے لیس تھی، سامنے آئی۔ ایوب آمریت کے خلاف طلبہ میں بغاوت کے شعلے پک چکے تھے خاص کر ظالمانہ پالیسیوں، ون یونٹ کا معاملہ اور اس کے بعد شکست خوردہ جنگ نے ایک چنگاری کا سا کردار ادا کیا۔ اس دور میں پولیس حکومتی ایما پہ ترقی پسند طلبہ کو گرفتار کرتی، احتجاجوں پر گولی چلانا بھی درکنار نہ تھا اور ناپسندیدہ طلبہ جو دراصل طلبہ حقوق کی بات کرتے تھے کو یونیورسٹی سے نکال دینا بھی معمول تھا۔ 1968ء میں ایوب آمریت کو دس سال بیت گئے تھے، محنت کش طبقہ زبوں حالی کا شکار تھا مگر ایوب نے ’’ترقی کے دس سال‘‘ کا جشن منانے کا اعلان کیا۔ اس کے مقابلے میں طلباء نے ’’تنزلی کے دس سال‘‘ کا ہفتہ منانے کا اعلان کیا۔ انہی حالات میں پنجاب یونیورسٹی میں NSF پر پابندی کے باعث نیشنل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (NSO) قائم ہوئی اور پنجاب میں NSO نے بھی NSF جیسا کردار ادا کیا۔ اب ایوب کے خلاف طلبہ احتجاجوں میں ہرجگہ آگے ہوتے۔ یونیورسٹیوں میں سوشلسٹ لٹریچر اور سٹڈی سرکلز کا انعقاد بھی ایک لازمی جزو بن چکا تھا۔ ایوب آمریت کے خلاف سب طلبہ باہر نکل رہے تھے بالآخر 7 نومبر کو راولپنڈی کے پولی ٹیکنیک کالج کے طلبہ کے احتجاج پر پولیس نے گولی چلا دی اور ایک طالبعلم (عبدالحمید) مارا گیا۔ عبدالحمید کی موت کے بعد سے حالات یکسر بدل گئے۔ راولپنڈی میں طلبہ سڑکوں پہ نکل پڑے۔ سرکاری املاک کا جلاؤ گھیراؤ ہوا، ان دنوں بھاشانی اور بھٹو دونوں مقبول تھے اور ان کو دیکھنے کیلئے اکثر جمِ غفیر جمع ہوجاتے اور اب سارا بایاں بازو طلبہ کے قتل کے بعد سڑکوں کا رُخ کر چکا تھا۔ سرکار نے شورش کو کم کرنے کے لیے 13 نومبر 1968ء کو کافی سارے لیڈروں کو قید کرلیا جس نے شورش کو مزید ہوا دی۔ اب ہر روز احتجاج ہونے لگے، 7 دسمبر کو ایسے ہی طلبہ کے ایک احتجاج پر ڈھاکہ میں پولیس نے فائرنگ کردی اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ 20جنوری کو ایک اور کمیونسٹ اسٹوڈنٹ کا ڈھاکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا۔ 

کراچی نشتر پارک میں این ایس ایف کے قائد معراج محمد خان پیپلز پارٹی کی کمپئین کے دوران ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔ جنوری – 1970

7 نومبر کو ایک طالبعلم کے قتل سے شروع ہونے والی شورش نے سارے دیس کو لپیٹ میں لے لیا اور اس سب میں طلبہ ہی ہراول رہے۔ طلبہ نے ڈگریاں جلادیں، تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کردیا اور محنت کش طبقے کو ساتھ جوڑتے ہوئے سارے دیس کو مفلوج کردیا۔ یوں 25 مارچ کو آمر ایوب خان کو مجبوراً عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس صورت حال میں ایک سوشلسٹ انقلاب کرنا بالکل ممکن تھا مگر اس وقت پاکستان کا بایاں بازو مرحلہ وار انقلاب جیسے غیر سائنسی (سٹالنسٹ) نظریات کا شکار تھا اور ایک بہت بڑی تحریک کے باوجود سوائے چہرے بدلنے کے اس تحریک کو آگے کی طرف (مزدوروں اور کسانوں کا ذرائع پیداوار پر کنٹرول) نہ بڑھا پایا (بلکہ شعوری طور پر اسے آگے بڑھنے سے روکا)۔ اس طرح یہ عظیم الشان تحریک قیادت کے بحران کی وجہ سے سوشلسٹ انقلاب کی طرف نہ جا سکی۔ اب یحییٰ کی صورت میں ایک اور آمر اقتدار میں آیا دوسری طرف NSF بھٹو کے سٹوڈنٹ فرنٹ کے طور پر کام شروع کرچکی تھی اور سوشلزم کے نعرے بلند کر رہی تھی۔ IJT نے جماعت اسلامی، ریاستی اور امریکی سامراج کی کثیر فنڈنگ پر سوشلزم کے نظریات کو کفر کہنا شروع کردیا اور وسیع پروپیگنڈہ مہم شروع کردی اور یوں NSF کی دھڑے بازی اور مذہبی پراپیگنڈے کے نام پر 1969ء کے انتخابات میں IJT نے NSF کو شکست دی (اس میں کلیدی کردار NSF کی دھڑے بندی کا تھا)۔ اب کیمپس کی سیاست میں IJT نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مڈل کلاس کی پرتوں سے حمایت حاصل کی۔ 
بلوچستان میں BSO نے واضح کامیابیاں حاصل کیں اور اس کے بعد 1970ء کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی فاتح رہی، BSO کے ممبران بھی قومی اسمبلی کا حصہ بنے، اس دوران IJT کا غنڈہ گرد تھنڈر اسکواڈ بہت مشہور ہوا اور NSF کے ساتھ کئی دفعہ لڑائیوں میں ملوث رہا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے دوران IJT نے اسٹیبلشمنٹ کی بغل بچہ پارٹی ہونے کا کردار ادا کیا اور ریاستی حمایت کے ساتھ بنگالیوں کے خلاف ’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ نامی غنڈہ گرد گروہ بنائے۔

بنگالی نیشنلسٹوں کی جانب سے البدر اور الشمسے بنگالی دانشوروں پر جبر کے خلاف پوسٹر۔ 1971

سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو اقتدار میں آیا، بلوچستان اور سرحد میں NAP اور جمعیت کو حکومت دی مگر دس ماہ بعد ہی اس کا خاتمہ کیا اور بلوچستان پر فوج کشی شروع کر دی، جس کے بعد BSO اور NAP کے خلاف کارروائی دیکھنے کو ملی۔ 1972ء میںPPPکا اسٹوڈنٹ فرنٹ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) سامنے آیا۔ IJT کے ہر تشدد اور غنڈہ گرد کردار نے اس کو بدنام کردیا اور طلبہ میں مقبولیت کم ہوئی جس کے باعث 1972ء میں NSF اور BSO نے اتحاد قائم کر کے کراچی میں فتح حاصل کی گو پنجاب میں IJT طاقتور رہی۔ ابNSF پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوچکی تھی، مگر کئی حصوں میں منقسم۔ 1973ء میں NSF کے چار سے زائد ٹکڑے ہو چکے تھے۔ 1973ء میں دوبارہ IJT فتح یاب رہی۔ کہیں کہیں PSF اور ATI کو بھی فتح ملی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے NSO کا صفایا ہوگیا۔ 1974ء میں پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس (PSA) قائم ہوئی جس میںBSO،NSF،PSFاور لبرل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(LSO) شامل تھیں۔ 1974ء کے یونین انتخابات میں بھی IJT اور دیگر دایاں بازو اور قوم پرست تنظیمیں فاتح رہیں۔ 1974ء میں خاص کر پیپلزپارٹی حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کی وجہ سے NSF نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ 1975ء کے انتخابات میں PSA نے کراچی میں اورIJT نے PU میں فتح حاصل کی۔ 1976ء میں دوبارہ ہر طرف IJT غالب رہی۔ اس عہد میں ایک خاص بات طلبہ یونین انتخابات کا ہر سال ہونا تھا اور اس عرصے میں آپسی جھڑپوں میں کوئی اہم قتل و غارت نہیں دیکھنے کو ملی۔ 1977ء میں عام انتخابات آئے PPP کو سوائے PSF کے کسی طلبہ تنظیم کی حمایت نہ تھی اور اس کے مقابل PNA کو IJT نے مکمل سپورٹ کیا۔ انتخابات PPP جیتی مگر اس کے خلاف دھاندلی کی تحریک کا آغاز ہوا جس میں IJT اگلے قدموں پہ رہی اور اس تحریک کا اختتام ضیاء آمر کے ظہور کی شکل میں ہوا۔ ضیاء کی کیبنٹ میں بہت سارے جماعتیوں کو شامل کیا گیا اور IJT کو خوب فنڈنگ ہوئی۔ بھٹو کی قید کے بعد کیمپس کی سیاست میں IJT اور انتظامیہ کی جانب سے PSF کے طلبہ خاص کر زیرِ عتاب رہے اور دیگر تمام ترقی پسند طلبہ تنظیمیں جو ضیاء کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرتیں ان کو خوب سزا ملتی اس عہد میں سینکڑوں گرفتاریاں ہوئیں۔ صرف ایک نعرہ ’’جئے بھٹو‘‘ لگانے پر طلبہ کو گرفتار کرلیا جاتا۔ ضیاء کی آمریت کی حمایت اور IJT کے متشدد رویے کی وجہ سے طلبہ کے اندر اس کے خلاف نفرت بڑھتی چلی گئی جو 1978ء کے یونین انتخابات میں ظاہر ہوئی جب IJT کو پنجاب میں ہرجگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں پنجاب پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس (PPSA) فاتح رہی۔ PPSA بنیادی طور پر ترقی پسند طلبہ کو درپیش خطرات کے پیش نظر پنجاب یونیورسٹی، گورڈن کالج اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بنائی گئی جس میں NSF، PSF، DSF اور LSO شامل تھیں۔

این ایس ایف 1983 میں جمیعت سے ڈوو میڈیکل کالج میں طلبہ یونین الیکشن جیتنے کے بعد جشن مناتے ہوئے۔

1978ء میں مہاجر قوم پرستوں نے کراچی میں آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) نے قائم کی۔ 1979ء میں افغان جہاد کا آغاز ہوا اور ساتھ ہی یونیورسٹیوں میں اسلحہ آنا شروع ہوا۔ 1979ء میں ہی بھٹو کو پھانسی ہوئی جس نے ضیاء کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دی اور ساری نفرت IJT کے کو نصیب ہوئی۔ 1979ء میں اسلحے کے زور پر پنجاب یونیورسٹی میں IJT جیت گئی مگر باقی سارے پنجاب میں شکست سے دوچار ہوئی۔ 1979 میں یونائیٹڈ سٹوڈنٹس موومنٹ (USM) قائم ہوئی جس میں سب ترقی پسند طلبہ تنظیمیں شامل ہوئیں۔ IJT کے تھنڈر اسکواڈ کے مقابلے میں ان کے بھی میلیٹنٹس تھے۔ اس عہد میں PSF پر ڈائریکٹ جبر رہا، IJT جہاں سے اسلحہ حاصل کرتی تھی PSF کے ملیٹینٹ گروپ نے وہاں سے اسلحہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح طلبہ سیاست جو کبھی نظریات پر ہوا کرتی تھی اب اسلحے اور طاقت کے زور پر ہونا شروع ہو گئی جس کا آغاز ضیاء کی جانب سے IJT کے ذریعے کیا گیا۔
بالآخر فروری 1981ء میںMovement For The Restoration of Democracy کا آغاز ہوا جس میں سبھی ترقی پسند اور جمہوری جماعتوں نے ضیاء آمریت کے خلاف حصہ لیا اور اس کے آغاز میں ہی سینکڑوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایم آر ڈی کے دوران 1983 میں پولیس معراج محمد خان کو شیرباز خان مزاری کے گھر جاتے وقت مارتے ہوئے۔

USM اور IJT کی جھڑپوں کی وجہ سے کراچی کے یونین حالات بگڑے اور IJT نے USM اور APMSO کے کئی طلبہ کا داخلہ روک لیا اور لڑائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اُدھر MRD تحریک نے ترقی پسند طلبہ کی ساکھ بہتر کی اورIJT کے ضیاء کو سپورٹ کرنے پر اسکو مزید رسوائی ملی، 1983ء کے یونینز انتخابات میں PPSA نے پنجاب اور USM نے کراچی میں IJT کو شکست سے دوچار کیا۔ 
1984ء میں انتخابات سے چند دن ہی قبل ضیاء الحق نے طلبہ یونینز پہ پابندی لگا دی جب کہ وجہ یہ بیان کی کہ کیمپس کو غنڈہ گردی سے پاک کرنا ہے اپنے فنڈز پر بنائی جانے والی غنڈہ گرد تنظیموں کے کردار کی آڑ لے کر یہ فیصلہ کیا گیا۔ اب IJT بھی MRD تحریک کا حصہ بنی گو اس کی والدہ جماعت ضیاء کی رفیقہ رہی۔ ضیاء نے ایک دفعہ پھر MSF میں بھی فنڈنگ کے ذریعے روح پھونکنے کی کوشش کی گو طلبہ یونین پر پابندی تھی اور تمام طلبہ تنظیموں کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر IJT، ATI اور MSF جیسی بغل بچہ تنظیموں کو آزادی ملی رہی۔ آخر 1988ء میں ضیاء کی موت کے ساتھ ہی طلبہ یونین پر پابندی کی موت ہوئی۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی سرکار نے یونین انتخابات کرائے جس کے نتائج حیران کن رہے، سوائے PU کے سارے پاکستان میں IJT کو شکست ہوئی۔ ATI، PSF اورMSF نے بھی حکومتی فنڈنگ پر بہت کامیابیاں حاصل کرلیں اور کراچی میں APMSO نے IJT کا صفایا کردیا اب IJT نے دوبارہ اپنے غنڈے فورسز اللہ ٹائیگرز کا آغاز کیا اور پھر لڑائیوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔
طلبہ سیاست کا کام بجائے طلبہ مسائل کے غنڈہ گردی کرنا رہ گیا (یہ سب بنیادی طور پر ریاستی طلبہ دشمنی کا حتمی نتیجہ ہی تھا)۔ جس کی بنیاد پر دوبارہ طلبہ یونین پہ پابندی لگا دی گئی اور 1992ء میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ:

’’بوقت داخلہ طالب علم اور اس کے سرپرست کو ضمانت نامہ دینا ہوگا کہ طالب علم کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے گا، اس کے بغیر اس کو داخلہ نہ دیا جائے گا۔ اگر داخلے کے بعد طالبعلم اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنتا ہے تو بنا کسی نوٹس کے طالبعلم کو خارج کردیا جائے گا۔‘‘
اس کے بعد بھی طلبہ تنظیمیں غیر سرکاری طور پر رہیں مگر نہ تنظیمیں فعال تھیں نہ اب تک ہوسکیں۔ مگر اسکے باوجود حکمران طبقے کی پالتو تنظیمیں سرکاری تعلیمی اداروں میں موجود رہیں۔ اب کیمپسز میں حزب التحریر جیسی تبلیغی جماعتیں اور قوم پرست کونسلیں ظاہر ہوئیں جن کا کام طلبہ کو تقسیم کرنا ہی رہا۔ انکے ساتھ ساتھ ریاستی اور انتظامیہ کی پالتو غنڈہ گرد تنظیمیں تمام سرکاری اداروں میں موجود رہیں اور ابھی بھی ہیں جیسے جمعیت۔ طلبہ کے مسائل پر بات کرنا ان سب کے نزدیک گناہ رہا، اب ان تنظیموں کا کام ہاسٹل میں کمرے حاصل کرنے اور داخلے کروانے تک محدود ہو گیا ہے (وہ بھی صرف طلبہ دوستی کا چہرہ دکھانے کیلئے)۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد نام نہاد بائیں بازو کی تنظیمیں مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔ جن تنظیموں نے کچھ ساکھ بچائے رکھی تو وہ صرف قوم پرستی کے نظریات پر جیسے بی ایس او اور پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مگر بی ایس او خود بیسیوں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اسی طرح پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی متروکیت کا اندازہ مشال خان کے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جسکے بیہمانہ قتل میں وہ سب سے آگے تھے۔
طلبہ یونین پر پابندی کے بعد طلبہ کو ہر جگہ سیاست سے دور رہنے کا سبق پڑھایا گیا ساتھ ہی نام نہاد ترقی پسند طلبہ تنظیموں جیسے پی ایس ایف کی زوال پذیری کا یہ عالم تھا کہ وہ اسلحے اور منشیات کے کاروبار چلاتے پائے گئے۔ اس دور میں فیسیں جو سینکڑوں تھی اس وقت لاکھوں کی منزل کو چھو رہی ہیں۔ یونیورسٹیوں کے اندر کئی نئی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جو مزید طلبہ کو متحد ہونے سے روکنے کے لیے تھیں۔ سمسٹر سسٹم کا آغاز بھی طلبہ کو ہر وقت مصروف رکھنے کے ایک ہتھیار طور پر کیا گیا۔ کیمپس کے اندر سیکیورٹی کے نام پر غنڈے بھرتی کردیے گئے جن کا مقصد طلبہ پر ہی خوف قائم رکھنا ہوتا ہے۔ وہیں نصاب انتہائی فرسودہ قسم کا ہے اور ڈگریاں حاصل کرنے والے بیروزگار ملتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ آٹے میں نمک برابر طلبہ یونیورسٹیوں میں آ پاتے ہیں۔ ان سب حالات میں طلبہ اپنے حقوق سے محرومی کے خلاف آواز اُٹھانے سے بھی قاصر ہیں بلکہ آواز اُٹھانے کو گناہ بناکر پیش کیا گیا ہے۔ مزید طلبہ کو طلبہ سیاست کی تاریخ سوائے غنڈہ گردی اور مارپیٹ کے کچھ نہیں پڑھائی جاتی طلبہ کو غنڈہ گرد اسلامی جمعیت طلبہ اور انجمن طلبہ اسلام کا کردار تو بتلایا جاتا  ہے مگر 60ء اور 70ء کی دہائی کی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور 50ء کی دہائی کی ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کردار کو تاریکیوں کی زنبیل میں چھپا دیا گیا ہے۔ وہ سب حاصلات جو طلبہ نے اتنی جدوجہد سے حاصل کیں ان کو سرکار کی دین کہا جاتا ہے اور اب ان حاصلات کا چھینا جانا بھی سرکار کا حق جتلایا جاتا ہے۔ آج طلبہ سے جب ان کے عین بنیادی حقوق چھینے جارہے ہیں طلبہ میں اس سب کے خلاف غم و غصہ بھی پایا جاتا جن کا اظہار گزشتہ برسوں کی تحریکوں میں ملتا جس میں قائد اعظم یونیورسٹی کی 17 روزہ تحریک سرِ فہرست ہے۔ اس وقت طلبہ میں وہ چنگاریاں موجود ہیں جو طلبہ یونین کی موجودگی میں بھڑک سکتی ہیں اور 1968ء کی تحریک سے بڑھ کر ایک اور تحریک ہمیں دیکھنے کو مل سکتی۔
آج طلبہ کو درپیش تمام مسائل کا حل ملک گیر منظم جدوجہد ہے جسکے لیے طلبہ یونین انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ یہاں کے نوجوانوں کا جمہوری حق ہے جو ان سے اپنا اقتدار بچانے کیلئے چھینا گیا ہے، آج یہ حق واپس چھیننے کا وقت آگیا ہے۔

طلبہ یونین بحال کرو!

متعلقہ:

پاکستان میں طلبہ تحریک اور طلبہ یونینز کی بحالی

 

 

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.