دادو: ’’مارکسزم، عورت کی نجات‘‘ کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، دادو|

دادو میں ’’مارکسزم عورت کی نجات‘‘ کے عنوان سے 4 فروری 2019ء کو پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کا باقاعدہ آغاز دوپہر بارہ بجے ہوا، جس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کرتے ہوئے سلیم جمالی نے خالد جمالی کو دعوت دی اور انہوں نے سیمینار میں آئے ہوئے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد سلیم جمالی نے کراچی سے آئی ہوئی کامریڈ انعم خان کو بات کرنے کی دعوت دی۔ کامریڈ انعم خان کا کہنا تھا کہ اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ طبقاتی نظام چند ہزار سال پہلے وجود میں آیا ہے اور اس سے پہلے کا انسان ایک غیر طبقاتی نظام میں زندگی گزارتا تھا جس میں امیر اور غریب کی تقسیم موجود نہیں تھی۔ پھر ذائد پیداوار کے جنم لینے سے طبقاتی نظام کا آغاز ،غلامداری نظام سے ہوا۔ جس میں ایک علاقے کے لوگوں نے دوسرے علاقے کے افراد کو غلام بنا کر ان سے کام لینے کا آغاز کیا اور اس طرح آقا اور غلام کا نظام تشکیل ہوا۔ جس کے بعد غلامداری نظام کے بعد جاگیردارانہ نظام آیا جس میں سماج جاگیردار اور مزارع میں بٹ گیا۔ آج جاگیردارانہ نظام ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی ہے جس میں سرمایہ دار اور مزدور کا تضاد جاری ہے۔ غلامداری نظام سے پہلے عورت آزاد تھی مگر پھر غلامداری کی صورت میں طبقاتی نظام نے مجموعی سماج کو غلام بنادیا اور پھر عورت بھی اس غلامی کا شکار ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ ہر طبقاتی نظام میں یہ صورتحال رہی مگر انسانوں کے درمیان طبقات کی طرح عورتوں میں بھی طبقات کا فرق موجود رہا جو غریب عورتوں اور حکمران عورتوں کی شکل میں ہے۔ محنت کش طبقے کی طرح محنت کش عورتیں بھی مشکلات کی بھٹی میں جل رہی ہیں اور حکمران طبقے کی طرح حکمران طبقے کی عورتیں بھی پرآسائش زندگی گزار رہی ہیں۔ اس لئے ہر عورت کو مظلوم نہیں کہا جاسکتا ان میں ظالم بھی ہیں جو طبقاتی نظام کی وجہ سے ہوا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرنے کے لئے عورتوں کو گھر کی چاردیواری سے تو باہر نکالا لیکن ان کی غلامی ختم ہونے کی بجائے شدت اختیار کر گئی۔ اب انہیں دوہری غلامی کرنی پڑتی ہے ایک گھریلو کام اور دوسرا فیکٹری اور کارخانوں اور دوسری جگہوں پر جو کہ غلامی سے بالکل کم نہیں۔ یہاں صرف عورت کا دوہرا استحصال نہیں ہوتا بلکہ عورتوں پر ریپ، جسمانی اور ذہنی حراسگی، تیزاب پھینکنا اور گہریلو تشدد جیسی کئی بھیانک صورتوں میں صنفی جبر بھی کیا جاتا ہے۔ اس سب کے بعد بھی عدالتیں، پولیس اور تمام تر قوانین مجرموں کے کھلونے بنے ہوئے ہیں اور ریاستی ادارے ان مجرموں کا قدم قدم پر استقبال کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پیسوں کے سامنے اپنی زبانیں لٹکا کر مجرموں کے سر نگوں ہوجاتا ہے اور ان غیر انسانی واقعات پر بھی کاروبار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2014 تک لیبر فورس میں خواتین کی شرح میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس وقت خواتین لیبر فورس کا 22 فیصد ہیں کل لیبر فورس میں خواتین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔مگر پھر بھی مرد مزدوروں کی نسبت عورتوں کو کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ زچگی کے دوران عورتوں کو کام سے فارغ کیا جاتا ہے یہاں پھر بغیر اجرت کے قلیل وقت کے لئے چھٹی دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ان محنت کش خواتین کو ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر نہیں جس وجہ سے ان کا ورکنگ ڈے بارہ تیرا گھنٹوں سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ پاکستان میں جہاں معاشی جبر ہے وہیں سماجی جبر بھی ہے ، 24 دسمبر 2015 کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’’ پاکستان میں ہر دو گھنٹوں میں ایک خاتون کا ریپ کیا جاتا ہے اسی طرح ہر چار سے آٹھ دنوں میں میں ایک گینگ ریپ ہوتا ہے۔‘‘ فیمنسٹ خواتین و حضرات سماج کی نوعیت کو سمجھے بغیر مرد کو عورت کا دشمن سمجھتے ہیں جب کہ اصل دشمن یہ طبقاتی نظام ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں سرمائے کے غلام ہیں اور اس نظام کی وجہ سے ہی یہ مشکلات ہیں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی یہ غلامی ختم ہوسکتی ہے۔ بات کا اختتما کرتے ہوئے انعم کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت کے مل کر سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کرنے سے ہی عورتوں کو، مردوں کو اور پورے سماج کو نجات مل سکتی ہے۔

انعم خان کی تفصیلی بات کے بعد کامریڈ جنید نے حاضرین سے بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ عورتوں کو جن گھریلو مسائل کا سامنا ہے جیسے کھانہ پکانا، کپڑے دھونا، بچوں کی نگہداشت کرنا وغیرہ ان سب سے سوشلزم میں عورت کو نجات مل جائیگی۔ کھانے پکانے کے لئے شہر میں بڑے ہوٹلز ہونگے،کپڑے دھونے کے لئے لانڈریز ہونگی، بچوں کی نگہداشت کے لئے چائلڈ کیئر سینٹر ہونگے جن سے عورتوں کو ان بڑے مسائل سے نجات مل جائیگی۔ 

جنید کے بعد رابعیہ آصف نے بحث میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انعم خان کی کتاب ’’ خواتین کے حقوق اور انقلابی سوشلزم‘‘ جیسی اچھی کتاب میں نے کبھی نہیں پڑھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ سمیت پوری دنیا میں عورتوں کو مسائل کا سامنا ہے جو کہ صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

رابعیہ آصف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں تمام تر سوالات کے جواب انعم خان نے دیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.