ملتان: محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈورکرز فرنٹ کی جانب سے سیمینار کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

ویسے تو محنت کش خواتین کا عالمی دن 8مارچ کو منایا جاتا ہے مگر ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے رہنما راول اسد کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری کے بعد ایک طویل جدوجہد (دنیا بھر کے مزدوروں اور طالبعلموں کی) کے نتیجے میں بالآخر 6 مارچ 2019ء کو ضمانت منظور ہو گئی مگر رہائی 9مارچ تک نہ ہو سکی جس میں نام نہاد عدالتی کاروائی آڑے آتی رہی۔ راول اسد کی رہائی کے معاملے کی وجہ سے ملتان میں محنت کش خواتین کا عالمی دن 8 مارچ کے بجائے تاخیر کے ساتھ 10 مارچ 2019ء کو منایا گیا۔

تمام تر مشکلات کے باوجود پی وائی اے اور ریڈ ورکرز فرنٹ ملتان کی ٹیم نے اس دن کو انتہائی کامیابی کیساتھ منایا۔ سیمینار میں 30 سے زائد محنت کش اور طلبہ شامل تھے جن میں مختلف تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں سے لوگوں نے شرکت کی۔ سیمینار میں سٹیج سیکٹری کے فرائض کامریڈ اسما نے سر انجام دیے۔

سیمینار کا باقاعدہ آغاز راول اسد نے ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف دے کر کرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں خواتین کی زبوحالی پر بات کی اور عورت کی آزادی کی جدوجہد کے طبقاتی جدوجہد کیساتھ رشتے کو واضح کیا اور اس جدوجہد کو تیز تر کرنے کی بات کی۔

محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخ اور اہمیت کے حوالے سے پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے انفارمیشن سیکرٹری وقاص سیال نے بات کی۔انہوں نے اس دن کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلی بات کی اور اسکے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ لبرل اور فیمینسٹ حضرات خواتین کے مسائل کو سطحی طور پر اور طبقاتی بنیادوں سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں عورت کی آزادی اپنی مرضی کے کپڑے پہننے اور اپنی پسند سے شادی کرنے اور کام کرنے سے منسلک ہے ۔ جبکہ خواتین کے اصل مسائل کی وجہ ہی طبقاتی تقسیم ہے۔ لیکن لبرل و فیمینسٹوں کی نظر میں خواتین کے مسائل کی ساری وجہ مرد ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہی مڈل کلاس اور لبرل خواتین کسی مردملازم یا چوکیدار پر طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ظلم کرتی نظر ائیں گی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 60 فیصد خواتین ڈلیوری کے وقت صحت کی بنیادسہولیات کے نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
اس کے بعد سیمینار سے خطاب کرتے ہوے ترقی پسند شاعر منیر الحسینی نے اپنے علاقے کی خواتین کے مسائل پر بات کی اور کئی عینی واقعات کا ذکر کیا۔انہوں نے مسائل کے حل کے لیے اپنی آوازوں کو بلند کرتی ہوئی خواتین کو سراہا۔ انہوں نے 8 مارچ کے حوالے سے پی وائی اے اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام اس سیمینار کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ کو ملتان میں مجھے خواتین کے حوالے سے کوئی بھی پروگرام ہوتا ہوا نظر نہیں آیا جس پر مجھے کافی مایوسی تھی مگر آج اس پروگرام کے انعقاد پر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو ساتھ اس لیے لائے ہیں کے اس کو سیاسی شعور بھی دلوائیں اور اچھا انسان بنائیں۔

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے طالب علم امجد مہدی نے خواتین کے مسائل پر بات کرتے ہوے اپنی یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ ہونے والی جنسی حراسگی پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نام نہاد اساتذہ طالبات کو مختلف طریقوں سے حراساں کرتے ہیں اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ خواتین کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کی شکل میں پلیٹ فارم موجود ہے جس پر وہ منظم ہوسکتی ہیں۔

اس کے بعد ماہ بلوص اسد نے عورت کی آزادی کے سوال پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہمیں مسئلہ کی اصل وجہ اور آغاز کا علم نہ ہو اس کا حل تلاش کرنا ناممکن ہے۔ مزید بات کرتے ہوئے کامریڈ نے بتایا کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا علم ہو گا کہ یہ سرمایا درانہ نظام قریب 200 سال پرانا ہے۔ اس سے پہلے لاکھوں سال انسان غیر طبقاتی سماج میں زندگی گزارتا رہا ہے۔ جس میں وہ گن یا قبیلوں کی صورت میں رہتا تھا اور جو بھی شکار کرتا سب برابر کا تقسیم کرتے۔ غیر طبقاتی سماج میں خاندان یا بچوں کی نسل ماں سے چلتی تھی اور عورت کو سردار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ زرعی انقلاب کے بعد پہلی بار سماج میں زائد پیداوار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ملکیت کا سوال ابھرا۔ تب پہلی دفع عورت کو تاریخی شکست کا سامنا ہوا اور تب ہی طبقاتی سماج کے ابھار کے ساتھ پدرسری سماج کا آغاز ہوا اور آج تک چلتا آرہا ہے۔ انہوں نے خواتین کے مسائل پر تفصیل سے بات کرتے ہوے 1917 کے روس انقلاب میں خواتین کے اہم کردار، انکی جدو جہد اور کامیابی کا بھی ذکر کیا۔

زکریا یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم انور علی نے بھی بات کی۔ انہوں نے عورت کی آزادی کے سوال پر مذہبی شدت پسندی کی مخالفت کی ۔

سیمینار کے اختتام پر فضیل اصغر نے ساری بحث کو سمیٹا۔انہوں نے عورت پر ہونے والے جبر اور سماج میں جاری عمومی استحصال (معاشی) میں فرق کو واضح کیا۔ اسی طرح انسانی فطرت پر تفصیلی بات کی۔ترقی یافتہ ممالک اور پسماندہ ممالک کی خواتین کی غلامی کی قدر مشترک پر بات کی ۔ اسی طرح انکا کہنا تھا کہ سماجی حالات شعور کا تعین کرتے ہیں لہذٰا جب تک سرمائے کے نظام اور اسکے ساتھ خاندان کے ادارے کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک پدر سری کا خاتمہ ممکن نہیں اور نہ ہی عورت مخالف شعور کا خاتمہ ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم واقعی میں عورت کی آزادی کیلئے یا سماجی تبدیلی کیلئے عملی جدوجہد میں شامل ہیں یا ہونا چاہتے ہیں تو پھر درست سائنسی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔ وگرنہ ہماری حالت ایک ایسے شخص جیسی ہوگی جو مسلسل ہوا میں تلوار گھمائے جاتا ہو جس سے شاید کوئی مکھی بھی نہ مر پائے۔ آخر میں فضیل اصغر نے تمام شرکاء کو درست سائنسی نظریات سمجھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو باقائدہ تنظیمی شکل دینے کیلئے پی وائی اے اور ریڈ ورکرز فرنٹ کا حصہ بننے کی دعوت دی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.