لاہور: محنت کش خواتین کے عالمی دن پر سیمینار کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

8مارچ 2020ء بروز اتوار، لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے خواتین کے عالمی دن پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں پورے لاہور سے مختلف اداروں سے طلبہ نے شرکت کی، جن میں پنجاب یونیورسٹی، نمل، ایف سی، جی سی یو، اور لیڈز یونیورسٹی سے طلبہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (PPLA) سے بھی ایک نمائندہ شامل تھیں۔

سیشن کو چئیر کامریڈ اقصیٰ نے کیا۔ انہوں نے 8 مارچ کے دن کا مکمل جائزہ لیا، ان کا کہنا تھا کہ کیوں آج ہمارے لیے یہ ضروری تھا کہ جب ایک طرف پورے پاکستان میں،”عورت مارچ“ کا شو ہورہا ہے اور دوسری طرف پوری دنیا میں اسے’ہیپی وومنز ڈے“ کے طور پر منایا جا رہا ہے تو وہیں ہم نہ صرف اس دن کی حقیقی تاریخ بلکہ تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کریں۔ اس کی اصل تاریخ کیا تھی؟ درحقیقت یہ ”محنت کش خواتین“ کا عالمی دن تھا، آج اس حقیقت کا ذکر کہیں دیکھنے کو نہیں مل رہا۔

اس کے بعد PPLA سے فائزہ نے آکر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک طبقاتی نظام میں جی رہے ہیں اور جب تک یہ طبقات کا نظام نہیں ٹوٹے گا تب تک عورت بھی کسی قسم کے جبر سے آزادنہیں ہوسکتی۔ اس کے خلاف ہمیں طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوکر لڑنا پڑے گا۔

اس کے بعد کامریڈ نازیہ نے آکر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت، جسے بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک صنف نازک کا خطاب دیا جاتا ہے وہ آج اس سماج میں کس طرح دوہرے جبر کا شکار ہے۔ ایک تو آج عورت کو بھی مجبورا نوکری کرنی پڑتی ہے اور جب وہ نوکری سے فارغ ہو کر گھر کا رخ کرتی ہے تو اس کو دوبارہ سے سارے کام کرنے پڑتے ہیں اور وہ ان باتوں کا علم بھی نہیں رکھتی کہ اس طرح اس کا دوہرا استحصال ہورہا ہے۔

اس کے بعد کامریڈ زین نے آکر انقلابی شاعری سنانے کے ساتھ ساتھ بات کی۔ انہوں نے موجودہ صورتحال سے بات کا آغاز کیا۔ گومل یونیورسٹی اور یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کے واقعات سے بات شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج عورت اس سماج میں اتنا پسی ہوئی ہے کہ ہمیں گومل یونیورسٹی جیسے واقعات میں ایک بھی عورت ایسی نظر نہیں آتی جو آکر یہ تسلیم کرے کہ یہ بھیانک واقعہ اس کے ساتھ ہوا۔ عورت کو عزت کے نام پر، غیرت کے نام پر اتنا دبا دیا گیا ہے کہ ہمیں ان تمام کیسز اور ان کی رپورٹنگ کی شرح میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تاریخ میں خواتین کے انقلابی کردار پر بات کی اور بالخصوص انقلاب روس میں خواتین کے کردار پر تفصیلی بات کی۔ اسکے بعد انہوں نے حالیہ عالمی تحریکوں جن میں لبنان، ایران، چلی وغیرہ کی تحریکیں شامل ہیں، میں بھی خواتین کو پہلی صفحوں میں لڑتا دیکھا گیا ہے۔

اس کے بعد نمل یونیورسٹی سے افیفہ نے آکر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کس طرح طلبہ یونیورسٹیوں میں پروفیسرز کی جانب سے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں اور وہ اس کا کسی سے ذکر تک نہیں کر سکتیں۔ گھر والوں سے ذکر کرنے کی صورت میں انہیں گھر پہ بٹھا لیا جائے گا اور انہیں جو تھوڑی بہت آزادی ملی ہوئی ہے وہ بھی چھین لی جائے گی۔ یونیورسٹی میں خبر پھیلانے پر انہیں ڈگری کے دوران بار بار فیل کیا جائے گا۔ بچپن سے لے کر آج تک کوئی بھی ایسی لڑکی نہیں ہے جو کہ ہراسانی کا شکار نہ رہی ہو۔ اگر ہم اس سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اس کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔

اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے سہیل نے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کے واقعات دن بہ دن بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو اس کے خلاف ہمیں پورے پاکستان میں اینٹی ہراسمنٹ ریلیز کرنے کی طرف جانا چاہیے۔ انہوں نے بات کی کہ ہم پنجاب یونیورسٹی میں اپریل میں ایک ریلی کرنے کی طرف جائیں گے اور سب کو ااس میں شرکت کی دعوت دی۔

اس کے بعد جی سی یونیورسٹی سے عزرا نے آکر بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ایک مرد، ایک عورت کے پیٹ سے جنم لینے والی بیٹی کو قتل کر دیتا ہے۔ آج ہم دیکھیں تو بیٹی کی پیدائش کے خوف سے اسقاط حمل کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس معاشرے میں عورت کو پاوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، اسے کم عقل اور بیوقوف سمجھا جاتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہم تب تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک ہمیں اس سماج کی غلاظت سے چھوٹ نہ ملے۔

اس کے بعد لیڈز یونیورسٹی سے عکاش نے آکر بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے معاشی استحصال اور جبر کے خلاف ہمیں متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی اور تب تک ثابت قدم رہنا ہوگا جب تک کہ ہمیں جیت نہ ملے۔

اس کے بعد رائے اسد نے آکر بات رکھی۔ انہوں نے ایک محنت کش عورت کے حالات پر آکر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا علم ہی نہیں رکھتیں کہ ان کا دوہرا استحصال کیا جارہا ہے اور ہمیں ہی جاکر انہیں یہ احساس دلانا ہوگا۔ انہیں جاکر بتانا ہوگا کہ وہ سب کچھ کرسکتیں ہیں اگر وہ چاہیں تو۔

اس کے بعد نمل سے کامریڈ بابر آکر بات کی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمیں اس سماج میں مل کر لڑنا ہوگا اور اگر عورت اس سماج میں آزادی چاہتی ہے تو اسے خود بارہ نکل کر لڑنا ہوگا۔

اس کے بعد فرحان گوہر نے خواتین کے سماج میں مظلوم کردار اور اسکی تاریخ پر تفصیلی بات کی۔ فرحان نے پدر سری سماج کے جنم اور ارتقا پر تفصیلی بات کی۔

اس کے بعد آفتا ب اشرف نے بات رکھی۔آفتاب نے خواتین کی آزادی کے سوال کو طبقاتی بنیادوں پر پرکھتے ہوئے اسکا حل پیش کیا۔ انہوں نے فیمینزم اور مارکسزم میں فرق بیان کیا اور بالخصوص خواتین کو درپیش مسائل پر این جی اوز کی جانب سے کیے جانے والے دھندے پر روشنی ڈالی۔

آخر میں مشعل وائیں نے پروگرام کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آج مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دور میں یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ گھر کے ایک فرد کے کام کرنے سے گھر چلے، اس لیے عورت کو اب گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کام کرنا ہی پڑتا ہے اور اسی دوران ہمیں عورت تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یونیورسٹوں میں 60 فیصد سے ذائد شرح طالبات کی ہے۔ یہ تمام طالبات ہمیں جنسی اور ذہنی طور پر ہراساں ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور وہ اس کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرسکتیں، کیونکہ یہاں پر کہاجاتا ہے کہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا تو ضرور اس کی ہی کوئی غلطی ہوگی۔ دوسری طرف اس ساٹھ فیصد شرح میں سے محض بیس فیصد ہی نوکری کرنے کی طرف جاتی ہے۔ اکثریت طالبات تو صرف اس لیے تعلیم حاصل کرتی ہیں تاکہ انہیں اچھے رشتے نصیب ہو جائیں۔ اس کے علا وہ ہم دیکھیں تو بچپن سے لڑکی کو عام کھیلوں سے دور رکھاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکوں کی کھیلیں ہیں اور بڑے ہوکر اس کو ہراسانی سے تحفظ کے لیے پردے کا حکم دیا جاتا ہے اور اسے سیلف ڈیفنس جیسی ٹیکنیکس سے بالکل دور رکھا جاتا ہے کہ یہ لڑکوں والے کام ہیں، تم صنف نازک ہو تمہیں ان کاموں سے دور رہنا چاہیے۔ بچپن سے لڑکی کو بس میک اپ اور جیولری جیسی زنجیرو میں الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سجنے سنورنے کی چیزہے۔ اسے ایک کموڈیٹی بنا دیا گیا ہے۔ اسی دوران ہمیں ٹی وی پر ہر کمر شل میں عورت اور جسم فروشی جیسے دھندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہراسمنٹ اور ریپ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتاہوا نظر آتا ہے اور ان تمام کیسز کو ایسے دبایا جاتا ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اختتام اس بات پر کیا کہ آج ہم نے صرف اپنی جنگ کا آغاز کیا ہے اور اس کا حل صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے ہمیں متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ آخر مشعل نے یہ اعلان کیا کہ مستقبل قریب میں پروگریسو یوتھ الائنس پورے لاہور میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانے کی طرف جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.