بہاولپور: ”دوسرے“ ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

10 جولائی 2019ء بروز بدھ، بہاولپور میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ایک روزہ مارکسی سکول کا اہتمام کیا گیا جو دو سیشنز (پاکستان و عالمی تناظر اور انقلاب فرانس) پر مشتمل تھا۔

سکول کے پہلے سیشن میں کامریڈ فضل نے پاکستان تناظر پر بحث رکھی جبکہ اس سیشن کو چیئر فرحان رشید نے کیا۔ بات کا آغاز انہوں نے سرمایہ داری کے عالمی بحران سے کیا۔ اسکے بعد فضل نے پاکستان کو درپیش مسائل اور انکی باقی سرمایہ دار دنیا سے جڑت کو واضح کیا۔ فضل نے بتایا کہ یہ ریاست کس طرح داخلی اور خارجی بحرانوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اسکے اپنے ہمسایہ ممالک اور خصوصاً اپنے آقا امریکہ سے کس نوعیت کے تعلقات ہیں۔ کس طرح یہ ریاست اپنے داخلی تضادات کے ہاتھوں ہر بیرونی محاذ پر پسپا ہو رہی ہے اور اس میں امیر اور غریب کا کیا مستقبل پنہاں ہے۔

اسکے بعد فضل نے موجودہ حکومت اور اسکی سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر بحث کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے خمیر میں یہ حکومت سابقہ حکومت سے کسی طور کم نہیں۔ پرانے آقا (امریکہ) کو ناراض کرتے ہوئے بنائی گئی یہ حکومت اپنی تمام مضحکہ خیزیوں اور جھوٹے دعووں میں یدِطولی رکھتی ہے۔ خالی خزانہ بھرنے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہر سطح پر مہنگائی میں اضافہ کیا جارہا ہے جسکا بوجھ بھی عام عوام کے کندھوں پر لادا جا رہا ہے۔ ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری کے ذریعے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا جا چکا ہے اور مزید لاکھوں کا روزگار چھننے کو ہے۔

اسکے بعد فضل نے نئے عہد کے امڈتے طوفانوں اور قومی مسئلے پر بات رکھی۔ انکا کہنا تھا کہ باقی دنیا کی طرح اس خطے میں بھی تحریکوں کی پود نشوونما پا رہی ہے اور سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے۔ مختلف اداروں جن میں واپڈا، ریلوے، نرسنگ سٹاف، یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن، پی آئی اے اور میڈیکل ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں، کے ملازمین نے اپنے حق کے لیے بھرپور تحریکیں چلائی ہیں۔ اسی طرح تعلیم دشمن اقدامات کے خلاف طلبہ بھی نکلے ہیں اور مستقبل میں بھی نکلیں گے۔ اس تمام ماحول میں خواتین پر ہونے والے سماجی و معاشی جبر کے خلاف ان میں بھی ایک لاوہ پک رہا ہے جو جلد یا بدیر سطح پر اپنا اظہار کرے گا۔

قومی سوال بھی شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے جن میں مظلوم قومیتیں ایک بھرپور اور خالص عوامی حمایت کے ساتھ میدانِ عمل میں نظر آ رہی ہیں۔ جن میں سب سے بڑی مثال پی ٹی ایم کی ہے۔ اگرچہ اسے غصے اور لجاجت، دونوں طرح سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہ کیا جا سکا اور نہ ہی مکیا جا سکتا ہے جب تک انکی محرومیوں اور مسائل کا حل نہ نکالا جائے۔لیکن ہم مارکس وادی اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں کہ اس تحریک کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑے بغیر آگے بڑھانا ایک دیوانے کا خواب ہے۔

فضل کی لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر مقررین نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ ان میں عرفان منصور اور فضیل اصغر شامل تھے۔
ان دونوں مقررین نے پاکستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال پر تفصیلی بات کی۔
آخر میں فضل نے بحث کو سمیٹا۔

دوسرا سیشن ’انقلاب فرانس‘ تھا جسے چیئر عرفان منصور نے کیا اور لیڈ آف یاسر ارشاد نے دی۔ یاسر ارشاد نے کہا کہ انقلاب فرانس بلا تخصیص ایک عالمی انقلاب تھا کہ جو جاگیرداری کے اندر بورژوا طبقے کے ظہور اور نئے پیدا ہونے والے تضادات کا مادی اظہار تھا۔ انقلاب سے پہلے کا فرانس ایک جاگیردارانہ فرانس تھا جو قرضوں میں ڈوبا ہواتھا، معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا تھا، ایک تہائی زمین پر چرچ کی ملکیت تھی، دیہات اس قدر وسائل نہیں رکھتے تھے کہ آبادی کی ضروریات پوری کرسکیں اور شہروں میں اسقدر جدید صنعتکاری نہیں تھی کہ وہ عوام کو روزگار مہیا کرسکیں۔ جب اس دیوالیہ پن سے چھٹکارا پانے کے لیے نئے ٹیکس لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس نے حکمران طبقے کے اندر پھوٹ پیدا کردی اور یہ ٹیکس کیونکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ عوام ہی سے بچوڑے جانے تھے تو اس امر نے عوام کو حکومت سازی کے میدان میں شعوری مداخلت کرنے پر مجبور کردیا جسکو عرف عام میں انقلاب کہا جاتا ہے۔

کوئی بھی انقلاب، انقلابی نظریے کے بغیر ناقابل تصور ہوتا ہے اور انقلاب فرانس میں یہ نظریہ روسو اور والٹیئر جیسے لوگوں نے دیا کہ جنہوں نے مادی بنیادوں پر نہ صرف فلسفے کو ترتیب دیا بلکہ ساتھ ہی ریاست، بادشاہت، کلیسا پر بھی سوال اٹھائے جنہوں نے لوگوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا (درحقیقت اس فلسفیانہ انقلابی لہر کی بادی بنیادیں فرانس کی سماجی ٹوٹ پھوٹ میں موجود تھیں)۔ جیکوبن کلب، جس کی انقلاب کے آغاز پر رکنیت تقریباً 1100 پر محیط تھی، دوران انقلاب اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہزاروں سوسائیٹیاں اسکی رکن بن جاتی ہیں۔ جب عوام انقلاب کے میدان میں اترتے ہیں تو فرانسیسی ریاست اپنی مدد کے لیے پروشیا اور آسٹرین ریاست کی بادشاہتوں سے مدد مانگتی ہے مگر عوام اس سب کو شکست دیتے ہیں جس کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے، اقتدار کا کیا کیا جائے؟ اقتدار جوکہ عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، مگر انقلاب میں موجود بورژوا طبقہ خود اقتدار کو عوام کے ہاتھ میں موجود رہنے سے گھبرا رہا ہوتا ہے اور جسکے نتیجے میں رد انقلابی قوتیں خود کو مضبوط کرتی ہیں اور تمام سرفہرست انقلابی راہنماؤں کو قتل کر دیا جاتا ہے جسے تھرمیڈورین عہد کہا جاتا ہے اور جسکے بعد نپولین بوناپارٹ منظرنامے پر آتا ہے جو رد انقلاب اور اس وقت کے سماجی حالات (قوتوں کے توازن) کا سیاسی اظہار ہوتا ہے۔ اس انقلاب نے ملکیتی رشتے مکمل طور پر تبدیل کردیے تھے اور جمہوریت، ووٹ کا حق، آئین کا قیام جیسی فیصلہ کن حاصلات اپنی گود میں سمو لیں تھیں۔

اسکے بعد فرحان رشید، عرفان منصور اور فضیل اصغر نے انقلاب کے اندر شخصی کردار اور سماجی حالات کے باہم ربط، فرانسیسی فلسفے، ردانقلاب سمیت دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.