بیروزگاری؛ نوجوانوں کو ڈستا عفریت

|تحریر: زین العابدین|

حکمرانوں کے ترقی اور معاشی خوشحالی کے بلند و بانگ نعروں کے برعکس روزگار کی منڈی سکڑتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ محنت کی منڈی میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی ہر سال بڑھتی چلی جا رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی کل آبادی میں نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ معاشی ترقی اور کشکول توڑ دینے کی روایتی نعرے بازی حقیقی سماجی حالات سے کسی طور میل نہیں کھاتی۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری پاکستانی سماج کے لئے ایک شدید خطرہ ہے جس کی نشاندہی بہت سے سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار کررہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس میں اسٹیک ہولڈرز کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو یہ ایک بڑے سماجی دھماکے کی صورت میں پھٹ سکتا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ میں بیروزگار نوجوانوں کی اس فوج کو ٹائم بم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مارکسسٹوں کے نزدیک سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پچھلے عرصے میں بیروزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور ملک میں دودھ اور شہر کی نہریں بہہ رہی ہیں جس سے سب مستفید ہو رہے ہیں۔ سی پیک بقیہ ماندہ مسائل بھی حل کردے گا۔ مگر یہ صورتحال ایک سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی تجزیے کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ مستقبل سے مایوس ان کروڑوں نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور آنے والے وقت میں یہ نوجوان پاکستان میں ابھرنے والی تحریکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے جس کی ایک واضح جھلک امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حالیہ انتخابات میں نظر آئی۔

حکومتی اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ

تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کی طرح پاکستان میں بھی کسی معاملے پر درست اعدادوشمار تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور حکومتی اعدادوشمار سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی ریاست بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں اور اپنی تاریخی نااہلی کو چھپانے کے لئے حقائق اور اعدادوشمار کو تروڑ مڑور کر پیش کرنا اس کا وطیرہ ہے۔ ہر دو سال بعد پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس کی جانب سے ’’لیبر فورس سروے‘‘ کیا جاتا ہے جس کا مقصد منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے درست اعدادوشمار اکٹھا کرنا ہوتا ہے تاکہ ایک مربوط ریاستی پالیسی مرتب دی جا سکے۔ مگر اس سب کا اصل مقصد مسائل کو ان کے حقیقی قدوقامت سے کئی گنا چھوٹا دکھانا ہوتا ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 17-2016ء کے مطابق پاکستان کی ساڑھے انیس کروڑ آبادی میں سے 60فیصد آبادی کی عمر 64-15 سال کے درمیان ہے جو کہ بطور کام کرنے کے قابل آبادی کا سب سے اہم حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قریباً 20 فیصد آبادی کی عمر 24-15 سال کے درمیان ہے۔ کل آبادی کا قریباً ایک تہائی حصہ(63ملین) لیبر فورس پر مبنی ہے جس میں عالمی قوانین اور معیار کے برعکس 15سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی بجائے 10سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو لیبر فورس کا حصہ بتایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ 2012ء سے اب تک 13لاکھ افراد لیبر فورس کا حصہ بنے ہیں۔ ان سب اندازوں کے مطابق اس وقت بیروزگاری کی شرح 5.94 فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کام کرنے کے قابل عمر کے کل افراد میں سے صرف 36لاکھ کے قریب افراد بیروزگار ہیں۔ 13-2012ء میں بیروزگاری کی شرح 6.2فیصد تھی جو کہ کم ہوکر 15-2014ء میں 5.9فیصد پر آگئی ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق تو پاکستان ایک جنت نظیر ملک ہے اور یہاں کے باسی ایک مثالی زندگی گزار رہے ہیں جس کا یورپ اور امریکہ میں رہنے والے تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مگر پاکستان میں زندگی گزارنے والا کوئی بھی ذی شعور ان اعدادوشمار کو ہضم نہیں کرسکتا جس کی زندگی ایک عذاب مسلسل ہے۔ یہاں تک کہ سنجیدہ بورژوا اخبارات اور تجزیہ نگار بھی ان اعداد و شمار کو قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہی نہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ کئی گنا زیادہ بھیانک ہے۔ آئیے ان اعدادوشمار کا پردہ چاک کرنے اور حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی اعدادوشمار کی عدم موجودگی میں ہمیں مختلف عالمی تنظیموں اور اداروں بالخصوص اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے دئیے گئے اعدادوشمار اور حقائق کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے برعکس انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریباً نصف یعنی 10کروڑ لیبر فورس کا حصہ ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 64-15 سال کے افراد کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، اس لحاظ سے کل لیبر فورس ساڑھے گیارہ کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ کے قریب بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں جن کی عمر 10سال سے بھی کم ہے۔ صرف اسی ایک فیکٹر کی تبدیلی سے اوپر دئیے گئے تمام کے تمام اعدادوشمار غلط ثابت ہوجاتے ہیں کیونکہ اسی کی بنیاد پر بقیہ فیکٹرز کا حساب لگایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کل بیس کروڑ آبادی کا 63فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے (جن میں اسٹوڈنٹس اور محنت کش نوجوان دونوں شامل ہیں)۔ اس 63فیصد میں سے قریباً 5کروڑ85لاکھ کی عمر 24-20 سال کے درمیان ہے۔ اگر آبادی کے اس حصے کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے جس کی عمر 19-15 سال کے درمیان ہے تو کل آبادی کا نصف حقیقی معنوں میں نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ حکومت کے مطابق صرف 20فیصد آبادی 24-15 سال پر مشتمل ہے۔ اب آتے ہیں بیروزگاری کے اعدادوشمار کی طرف۔ سب سے پہلے تو اگر لیبر فورس کے حقیقی حجم اور حکومت کی جانب سے دی گئی بیروزگاری کی شرح کو رکھ کر حساب لگایا جائے تو 36لاکھ بیروزگار افراد کا عدد بھی انتہائی غلط معلوم ہوتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان میں بیروزگار افراد کی تعداد 70لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے جو کہ ابھی بھی حقیقت سے بہت دور ہے۔ مختلف اخباری اندازوں کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 9-8فیصد کے درمیان ہے جبکہ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق غیر ہنرمند نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 8.2 فیصد ہے۔ حکومتی طریقہ کار کے مطابق بیروزگار افراد کل لیبر فورس کا وہ حصہ ہیں جو کہ تندہی سے روزگار تلاش کررہے ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ حکومتی ادارے کس طریقے سے اس حصے کا تعین کرتے ہیں جو روزگار کا متلاشی ہے، خاص طور پر ایک ایسی ریاست جس کے ادارے انتہائی کمزور اور جہاں اعدادوشمار کو جمع کرنے کی طرف انتہائی غیرسنجیدہ رویہ پایا جاتا ہو۔ اس لئے یہ سب اعداد وشمار حقیقت کی درست عکاسی کرنے سے بالکل قاصر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ریاست اتنی خصی ہے کہ اس کے پاس درست ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 50فیصد سے بھی زائد ہے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔ مزید برآں جس قسم کا روزگار محنت کی منڈی میں میسر ہے وہ ایک بالکل الگ کہانی ہے۔ ایک اور اہم نقطہ پڑھے لکھے بیروزگار افراد بالخصوص گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ ڈگری ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

گہرا ہوتا معاشی بحران

یوں تو سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کے قابل افراد کے ایک قابل ذکر حصے کو بیروزگار رکھنا اجرتوں کو کم رکھنے کے لئے لازمی ہے لیکن دنیا بھر میں ہم انتہاؤں کو چھوتی بیروزگاری کے جس مظہر کا نظارہ کررہے ہیں اس کا آبادی کے اس بیروزگار حصے سے کوئی لینا دینا نہیں جس کو مارکس بیروزگاروں کی ریزرو فوج کا نام دیتا ہے۔ انتہاؤں کو چھوتی یہ بیروزگاری اور اس کے نتیجے میں مسلسل گراوٹ کا شکار معیار زندگی، سرمایہ داری کے بطور عالمی سماجی و معاشی نظام کے تاریخی نامیاتی بحران کا نتیجہ ہے، جو کہ نو سال گزر جانے کے باوجود اس بحران سے نہیں نکل سکا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اب ایک نئے عالمی معاشی بحران کی پیش گوئی کی جارہی ہے جو کہ 2008ء کے بحران سے بھی بھیانک اثرات مرتب کرے گا۔ پاکستان بطور اس عالمی معیشت کے ایک جزو کے اس بحران سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ پچھلے ایک لمبے عرصے سے عوام کو اس بحران کا خمیازہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافے، حقیقی اجرتوں میں کمی، تعلیم اور صحت سمیت دوسرے اداروں کی نجکاری اور ملکی وغیرملکی قرضوں کے حجم میں ریکارڈ اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں غربت کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ معاشی خوشحالی کے دعووں کے برعکس کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اس سال پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے 6.6 بلین ڈالر قرضوں کے پروگرام کے مکمل ہونے پر یہ نوید سنائی کہ اب ہم دوبارہ مڑ کر آئی ایم ایف کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ ملکی معیشت ریکارڈ 5.8 فیصد کی رفتار سے ترقی کررہی ہے اور جی ڈی پی 300 ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے اور اگلے مالی سال کے لئے 6فیصد کی معاشی نمو کاہدف مقرر کیا گیا۔ یہ سب بس بیان بازی کی حد تک محدود تھا اور چند روز بعد ہی آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت میں موجود کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے قرضوں کی طرف رجوع کرنے کی پیش گوئی کی۔ اکانومسٹ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے، درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں ریکارڈ کمی اور بیرون ملک ترسیلات زر میں کمی سے پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہونے کی طرف جائے گی۔ اس آرٹیکل میں مختلف معیشت دانوں نے یہ پیش گوئی کی کہ 2018ء کے آخر تک پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ مگر حالات کسی اور طرف ہی اشارہ کررہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ 32بلین ڈالر سے بڑھ گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی 13بلین ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک ترسیلات زر جو کہ حکومتی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سب سے نبٹنے کے لئے حکومت مزید قرضے لینے کی طرف جائے گی جس کا خمیازہ عام عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور نجکاری کے بدترین حملے کئے جائیں گے۔ نتیجتاً غربت اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور روزگار کی منڈی مزید سکڑنے کی طرف جائے گی۔ 

پڑھے لکھے بیروزگاروں کی فوج

عمومی طور پر غیر ہنرمند اور ناخواندہ بیروزگار افراد کی بیروزگاری کا ذمہ دار ان کے ان پڑھ ہونے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں پڑھے لکھے بالخصوص گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ بیروزگاروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایک اندازے کی مطابق اس وقت بیروزگاری کی سب سے بلند شرح گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ ڈگری ہولڈر نوجوانوں میں ہے اور ہر دوسرا ڈگری ہولڈر بیروزگار ہے یا انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ اس لئے یہ دلیل کہ چونکہ ایک فرد ان پڑھ ہے اس لئے بیروزگار ہے، ایک بھونڈی دلیل بن جاتی ہے۔ مگر گریجوایٹ بیروزگاروں کے مسئلے کو بھی ہمیں طبقاتی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان بیروزگاروں کی ایک بڑی تعداد درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے والدین نے جیسے تیسے کرکے اپنے بچوں کو پڑھا تو لیا مگر اب نوکری دلوانے کی سکت نہیں رکھتے۔ مگر اس کے برعکس مہنگے تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لے کر نکلنے والوں کو ان مسائل کی گرد بھی نہیں چھوتی۔ ان نوجوانوں کی تعداد بہت کم اور ان کا تعلق درمیانے طبقے کی اوپری پرتوں یا حکمران طبقے سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طبقاتی تعلیمی نظام اور تعلیم کا کا روبار بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو بنیاد بناتے ہوئے فری مارکیٹ اکانومی کے معذرت خواہان اور سرمایہ داروں کے دلال ان گریجوایٹ ڈگری ہولڈرز کو ہی موردالزام ٹھہراتے ہیں کہ ان نوجوانوں نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ڈگری حاصل نہیں کی۔ فلاں ڈگری حاصل کرتے تو بیروزگار نہ بیٹھے ہوتے۔ یا یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود یہ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ’’سکلڈ‘‘ نہیں ہیں اور ان کو مزید یہ یہ اور یہ سرٹیفیکیشنز حاصل کرنا ہوں گی تاکہ روزگار کے حصول میں کامیابی کا چانس بڑھ سکے۔ ہم ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ نصاب جو تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے کس کا بنایا ہوا اور منظورکردہ ہے اور اس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر یہ یونیورسٹیاں بوسیدہ تعلیم دے رہی ہیں تو کس کی اجازت سے یہ اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور آخر میں یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا فرسٹ ورلڈ جہاں نصاب جدید تقاضوں کے عین مطابق ہے وہاں روزگار کا مسئلہ حل کرلیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ جس قسم کا روزگار محنت کی منڈی میں میسر ہے اس پر بات کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ وہ ڈگری ہولڈرز جو خوش قسمتی سے روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی ایک بڑی اکثریت انتہائی معمولی اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہے اور یہ اجرتیں بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کی دوسری مراعات تو دور کی بات روزگار کی گارنٹی بھی موجود نہیں جس کے باعث ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمہ وقت ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گریجوایٹ ڈگری ہولڈرز کی بڑی تعداد ایسے کام کرنے پر مجبور ہے جو کہ ان کی تعلیمی قابلیت سے میل نہیں کھاتے۔

 

بیروزگاری کے سماجی اثرات

حالیہ عرصے میں محکمہ انسداد دہشت گردی سندھ کی رپورٹ کے مطابق پڑھے لکھے خصوصاً یونیورسٹی گریجوایٹس دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیموں کو بھرتیوں کے لئے یونیورسٹی گریجوایٹس میں زرخیز اور وسیع میدان میسر ہے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اور مشہور و معروف یونیورسٹیوں کے یہ گریجوایٹس دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے کیوں چڑھ رہے ہیں۔ اس کی جڑیں جہاں ریاست کی دہشت گردی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے بنائی گئی پالیسیاں اور تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے تو دوسری طرف ڈالر جہاد کے ساتھ پروان چڑھنے والی کالی معیشت اور اس سے جنم لینے والی ثقافت اور نفسیات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اوپر دیے گئے بیروزگاری کے اعدادوشمار بھی اس بات کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مستقبل سے مایوس یہ نوجوان کیونکر دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے چڑھتے جا رہے ہیں۔ ریاستی پشت پناہی سے کام کرنے والی یہ دہشت گرد تنظیمیں اور ہر گلی محلے میں ان کی موجودگی اور بیرونی سامراجی طاقتوں سے ملنے والے ڈالر ریالوں کے ساتھ ساتھ منشیات، سمگلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سے اکٹھی ہونے والی بے شمار دولت، منافرت پر مبنی لٹریچر، ریاست کے انہی دم چھلوں کی جانب سے پھیلایا گیا فرقہ واریت کا زہر، اس سب کی موجودگی میں بھلا کون سی رکاوٹ رہ جاتی ہے جو ان نوجوانوں کو ان موت کے سوداگروں کے ہتھے چڑھنے سے روک سکتی ہے۔ تاریک مستقبل اور معاشی بحران کے سبب پھیلی مایوسی ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ زندگی میں مایوسی اور اندھیرا ہو، کوئی امید نظر نہ آرہی ہو تبھی اخروی زندگی کا فریب پرکشش لگتا ہے۔ کالی معیشت سے جنم لینے والی راتوں رات امیر بننے کی نفسیات اور روزگار کے کم ہوتے مواقع جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ کالی معیشت جس حد تک اس ریاست کے ہر شعبے میں سرایت کرچکی ہے، ریاستی پالیسیوں میں کسی تبدیلی سے اس سے جان نہیں چھڑوائی جاسکتی۔ معیشت کا گہرا ہوتا بحران، ریاست کے مختلف دھڑوں کی لوٹ کے مال میں حصے کے لئے شدید ہوتی لڑائیاں، سامراجی مداخلت، دہشت گردی کی ریاستی پالیسی، اسی ریاست کی پالی ہوئی رجعتی قوتیں یہ سب اس سماج کو بربادی کی طرف لے کر جاسکتی ہیں۔ محنت کشوں اور طلبہ کی ایک تحریک ہی ان کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ ان رجعتی قوتوں کا شکار بننے سے بچ جاتے ہیں تو وہ منشیات کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ روز بروز بڑھتی ہوئی ذہنی بیماریاں، ڈپریشن دراصل اس نظام کے بحران کا سماجی اظہار ہے۔

سی پیک؛ نام نہاد الہ دین کا چراغ

اس وقت جب حکومتی نمائندے، سرکاری وظیفہ خوار دانشور، میڈیا میں بیٹھے دلال اور سبھی سیاسی پارٹیاں اور حتی کہ فوج بھی سی پیک کو الہٰ دین کا چراغ بتا رہے ہیں اور یہ راگ مسلسل الاپ رہے ہیں کہ بالآخر وہ اسمِ اعظم ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے جو کہ اس مملکت خداداد کو اپنے جنم سے درپیش مسائل کو بس کچھ عرصے میں حل کردے گا، اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کے بہت سے سنجیدہ تجزیہ نگار ان دعووں کی حقیقت پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ مارکسسٹوں نے سی پیک سے منسلک ان منصوبوں پر کام شروع ہونے سے قبل ہی لکھا تھاکہ سی پیک کسی بھی طور خوشحالی نہیں لائے گا بلکہ غربت، بیروزگاری، دہشت گردی اور سامراجی تصادموں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ قرضوں کی شکل میں ہونے والی یہ ’’سرمایہ کاری‘‘ پاکستان کی مشکلات حل کرنے کی بجائے بڑھانے کی طرف جائے گی۔ اکانومسٹ کے مطابق اس 62ارب ڈالر کی اعلان کردہ سرمایہ کاری میں سے 28 ارب ڈالر براہ راست کمرشل قرضے ہیں اور جب ان کی واپسی کا مرحلہ آئے گا تو پاکستانی معیشت کو کئی گنا بڑے بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر نئے روزگار کے مواقع کے حوالے سے بھی جائزہ لیا جائے تو سی پیک کسی بھی طور بیروزگاری کم کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ چینی سرمایہ کاری آنے سے پاکستان کی برآمدات میں کمی جبکہ درآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی صنعتیں لگنا تو دور کی بات بڑے پیمانے پر پہلے سے موجود صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ سی پیک سے منسلک بیشتر پراجیکٹس پر لیبر تک چین سے لائی جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں چینی محنت کش ان پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ اگر رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں روزگار کے کچھ مواقع پیدا ہوئے بھی ہیں تو سستی چینی مصنوعات پاکستانی منڈی میں آنے سے صنعت کے کئی شعبے مسلسل زوال پذیری کا شکار ہیں۔ بالخصوص ٹیکسٹائیل کا شعبہ اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اگر اس صورتحال کو متوازن انداز میں دیکھا جائے تو ابھی تک چینی سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے کم ہوئے ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔مزید برآں زرعی شعبے میں چینی سرمایہ کاری اور کارپوریٹ فارمنگ کے آغاز سے پہلے ہی تباہ حال زراعت کا شعبہ مزید بربادی کی جانب جائے گا اور اس سے منسلک آبادی کی ایک بڑی اکثریت بیروزگار ہونے اور اجرتی مزدور بننے کی طرف جائے گی اور غلامی کی ایک بدترین شکل دیکھنے کو ملے گی۔

واحد حل؛ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت

مارکسسٹوں کے نزدیک بیروزگاری سمیت غربت، مہنگائی، لاعلاجی، سماجی انتشار، دہشت گردی، خانہ جنگیوں اور دیگر بے تحاشا مسائل کا حل سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر ممکن نہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں بننے والی مزدور حکومت ہی ان مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت جس میں پیداوار کا مقصد منافع کا حصول نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہوگااور جس میں ہر انسان کو ایک انسانی زندگی گزارنے کے یکساں مواقع مہیا ہوں گے۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد بیروزگاری کو جرم قرار دیا گیا تھا اور ہر کام کرنے کے قابل شخص کے لئے روزگار مہیا کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر شخص کے لئے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کئے گئے۔ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنی ذہنی میلان اور رجحان کے مطابق تعلیم کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔ آج روس کے انقلاب کے سو سال بعد جب نسل انسانی کی اجتماعی محنت کے نتیجے میں سائنس اور تکنیک ہر میدان میں نئے نئے کارنامے سرانجام دے رہی ہے اور پہلے سے بڑھ کر ایک منصوبہ بند معیشت کو چلانے کے لئے درکار مادی حالات موجود ہیں تو ضرورت ایک بار پھر پہلے سے بلند پیمانے پر روسی محنت کش طبقے کی تاریخ کو دہرانے کی ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کرتے ہوئے ان مسائل سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنے کی ہے۔ بورژوا تجزیہ نگار ان کروڑوں مایوس نوجوانوں کو درست طور پر ایک ٹائم بم قرار دے رہے ہیں اور یہ مارکسسٹوں کا تناظر ہے اس بم کو پھٹنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ عرب انقلابات اور پھر امریکہ اور برطانیہ میں برنی سینڈرز اور جیرمی کاربن کے گرد بننے والی تحریکیں اور جیرمی کاربن کی انتخابات میں کامیاب پیش قدمی اور دنیا بھر میں مزدور اور طلبہ تحریک کی ایک نئی اٹھان ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس سماجی دھماکے سے قبل وہ مارکسی پارٹی تعمیر کی جائے جو اس دھماکے کے ساتھ ہی ا ن نوجوان محنت کشوں کی قیادت جیتتے ہوئے اس خطے سے سرمایہ داری کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.