|رپورٹ: پروگریسو یو تھ الائنس، لاہور|
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں زیرِ تعلیم سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ جمعرات کے دن سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورمیں ان کی جتنی بھی سیٹوں اور اسکالر شپس کا خاتمہ کیا گیا ہے ان کو بحال کیا جائے ورنہ وہ تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہیں گے۔ بھوک ہڑتال کی نوبت پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے تقریباً 28 دن سے یہ طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ جس میں 10 دن اسلامیہ یونیورسٹی میں احتجاج کیا گیا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسکے بعد طلبہ نے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا جس کو آج 18 دن ہونے کو ہیں۔ اس سارے عرصے میں ان طلبہ نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا۔ کبھی خراب موسم کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی پولیس کی طرف سے دھمکیوں کا۔ گورنر ہاؤس کے سامنے18دن ہونے کو ہیں لیکن اب تک کوئی حکومتی سربراہ ان کے مطالبات سننے ان کے پاس نہیں آیا اور نہ ہی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ کاروائی کی گئی۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جب ہم نے پہلے اپنی سیٹوں کے لئے دھرنا دیا تھا تو گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ہمارے مطالبات مانے اور وعدہ کیا کہ فاٹا کے سٹوڈنٹس کو 2027ء تک سکالرشپ اور سیٹیں دی جائیں گی لیکن اب حالیہ دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے فاٹا کے لیے وہ سیٹیں ختم کر دی گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے افسران ان سے تعصب برتتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کے ان کی سرزنش کی جائے۔
ابھی تک بھوک ہڑتال کی وجہ سے دو سٹوڈنٹس کی حالت کافی خراب ہے اور ان کو لاہورکے سروسز ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ باقی سٹوڈنٹس کی حالت بھی تشویشناک ہے۔طلبہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ہمارے خلاف سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے جس میں انتظامیہ کی طرف سے الزام تراشی کی گئی ہے جس کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں ہمارے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سابقہ فاٹا کے طلبہ کو یہ درپیش مسئلہ کوئی پہلا اور آخری نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنی سیٹیوں اور سکالر شپ کی بحالی کیلئے ملتان سے گورنر ہاؤس لاہور تک پیدل مارچ کیا تھا اور گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا تھ جس کے نتیجے میں ان کے مطالبات کو مان لیا گیا تھا۔ اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے طلبہ نے بھی گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تھا اور اپنے مطالبات منوائے تھے مگر ان وعدوں پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اسکے علاوہ ہر یونیورسٹی میں طلبہ کو اور بھی کئی مسائل کا سا منا ہے جیسا کہ بڑھتی ہوئی فیسوں کا مسئلہ، ہاسٹلز کا مسئلہ، ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اور ہراسمنٹ جیسے کئی اور مسائل شامل ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے طلبہ کے ان مسائل میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اور آگے بھی کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں ا ٓ رہی ہے۔
ان سارے مسائل کی وجہ تعلیم کے بجٹ پر لگائی جانے والی کٹوتیاں ہیں۔ اس وقت حکمران طبقے کی لوٹ ماراور سرمایہ داری کے زوال کے سبب پورا معاشی نظام بد حالی کا شکار ہے۔ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کی طرح IMF کی دلالی جاری رکھے ہوئے ہے اور IMF کی پالیسیوں کو لاگو کر رہی ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کی پالیسی ان پالیسیوں میں سرِ فہرست ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر بیچنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔
اس وقت طلبہ کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے محنت کش بھی سراپا احتجاج ہیں اور ان کے ساتھ بھی ریاست کا یہی ظالمانہ رویہ ہے جو طلبہ کے ساتھ ہے۔ اس وقت یہ ریاست عوام کو کچھ بھی دینے سے قاصر ہے اس لیے مختلف جبری ہتھکنڈوں سے عوام کے احتجاجوں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔آگے یہ مسائل اور بھی بڑھیں گے اور نئی تحریکوں اور احتجاجوں کو جنم دیں گے۔ خاص طور پر طلبہ کے مسائل میں اضافہ ہونے کی طرف جائے گا اور ان مسائل کے حل کیلئے مزاحمت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔طلبہ کو چاہیئے کہ منظم ہو کر تمام مسائل کو آپس میں جوڑتے ہوئے مل کر ان کے خلاف جدوجہد کی جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس سابقہ فاٹا کے طلبہ کی اس جدوجہد پر ان کو سلام پیش کرتا ہے۔ اور یقین دہانی کرواتا ہے کہ ان کے مطالبات کی منظوری تک ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ اور ان کے ساتھ برتے جانے والے اس جابرانہ رویے کی بھرپور مزمت کرتا ہے۔ اگر ا ن طلبہ میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اسکی ذمہ داری گورنر پنجاب چوہدری سروراور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے وائس چانسلر سمیت وزیرِ اعظم پاکستان پر عائد ہو گی۔ ہم پورے پاکستان کے طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ان طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اپنے ا پنے شہروں میں احتجاج کریں۔اسی طرح ملک بھر کے طلبہ کی مشترکہ جدوجہد کی صورت نہ صرف فوری درپیش مسائل کو حل کرایا جاسکتا ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدو جہد کو بھی تیز کیا جاسکتا ہے۔ سرما یہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جاسکتاہے۔